کپتان کے باغی کھلاڑی ٹیم سے باہر

احتشام بشیر  پير 27 جنوری 2020
خیبر پختونخوا کابینہ سے چھٹی کے روز تین وزرا کی چھٹی کردی گئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خیبر پختونخوا کابینہ سے چھٹی کے روز تین وزرا کی چھٹی کردی گئی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومتوں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور ہر دور میں حکومت میں اختلافات کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ آج کل اخبارات میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں میں اختلافات کا ذکر بہت ہورہا ہے۔ خیبر پختونخوا کابینہ میں اختلافات کی باتیں چل رہی تھیں کہ اسی دوران حکومت نے سینئر وزیر عاطف خان، وزیر صحت شہرام خان اور وزیر مال شکیل احمد پر گروپ بندی کا الزام لگاتے ہوئے کابینہ سے فارغ کردیا۔ ان وزرا کو فارغ کرنے سے قبل یہ باتیں سامنے آرہی تھیں کہ وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف ناراض وزرا نے گروپ بنالیا ہے۔ تاہم ناراض وزرا کا مؤقف تھا کہ حکومتی فیصلوں میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور ان معاملات پر ناراض وزرا نے وزیراعظم عمران خان کے سامنے معاملہ اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عاطف خان کی جانب سے وزیراعظم سے رابطے کی بھی کوشش کی گئی، لیکن وزیراعظم نے اس معاملے پر ملاقات سے انکار کردیا اور ناراض گروپ کا موقف وزیراعظم تک نہیں پہنچ سکا۔

جب ناراض وزرا کے حوالے سے باتیں چل رہیں تو عین اس وقت خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس بھی ہورہا تھا، اور کابینہ اجلاس میں سینئر صوبائی وزیر عاطف خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے درمیان نوک جھونک کی خبریں بھی سامنے آئیں لیکن وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ان خبروں کی تردید کی۔ وزیر اطلاعات اتنا کہہ گئے کہ اگر کسی کو حکومتی فیصلوں پر اعتراض ہے یا کوئی معاملہ ہے تو وہ عمران خان سے بات کرسکتے ہیں۔ ایک جانب وزیر اطلاعات کابینہ میں اختلافات کی خبروں کی تردید کررہے تھے تو تین روز بعد ہی وزرا کو فارغ کرنے کی خبر انہوں نے جاری کردی اور اب وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی خود یہ کہہ رہے ہیں حکومت کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

عاطف خان گروپ کے اختلافات کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 2018 کے انتخابات میں جب پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو دوبارہ حکومت بنانے کےلیے پرویزخٹک سمیت قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور ساتھ ہی سینئر صوبائی وزیر عاطف خان کے نام سامنے آئے۔ لیکن وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں پرویزخٹک اور اسد قیصر مضبوط امیدوار تھے۔ پی ٹی آئی کو وفاق میں حکومت سازی کےلیے ارکان قومی اسمبلی کی ضروت پڑی تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیک وقت نشستیں جیتنے والوں کو صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کی ہدایت کی گئی، جس پر پرویزخٹک اور اسد قیصر صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر وفاقی حکومت کا حصہ بن گئے۔ خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں عاطف خان مضبوط امیدار کے طور پر سامنے آنے لگے۔ عاطف خان چونکہ عمران خان کے زیادہ قریب رہے اور ان کی لابی زیادہ مضبوط سمجھی جاتی رہی، اس لیے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ عاطف خان وزیراعلیي بن سکتے ہیں اور کسی حد تک عاطف خان لابنگ کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے تھے لیکن وفاق میں عاطف مخالف گروپ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں جن شخصیات کے نام سامنے آرہے تھے ان میں وزیراعلیٰ محمود خان کا نام شامل نہیں تھا۔ وزیراعلیٰ کا نام پیش کرنے سے چند روز قبل ہی محمود خان بھی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے محمود خان کے نام قرعہ نکلا۔

وزارت اعلیٰ کے اعلان کے بعد سے عاطف خان پارٹی کے اس فیصلے سے ناراض تھے۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں جلتی پر تیل کا کام کابینہ میں توسیع اور وزارتوں کے رددوبدل کے فیصلے نے کیا ہے۔ اتنے عرصے سے ناراض ارکان کے اندر جو لاوا پک رہا تھا وہ سامنے آگیا۔ عاطف خان اور شہرام خان چونکہ قریبی ساتھی ہیں اس لیے شہرام خان سے بلدیات کا محکمہ لے کر صحت کی وزارت دینے کے حوالے سے بھی خفگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ کابینہ کی اندرونی کہانی جو سامنے آئی ہے اس میں عاطف خان نے کابینہ کے معاملے پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ڈیڑھ سال کے عرصے میں دل میں رکھی باتیں سب کہہ ڈالیں۔ اس وقت وزیراعلیٰ محمود خان کی پوزیشن مستحکم سمجھی جارہی ہے۔ عمران خان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان وزیراعلیٰ محمود خان کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ وزرا کے خلاف کارروائی اس سے قبل بھی کی جاچکی ہے۔

گزشتہ دور حکومت میں جب ضیاء اللہ آفریدی نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تو نقصان ضیاء اللہ آفریدی کو اٹھانا پڑا۔ اسی لیے عاطف خان کو بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ضیاء اللہ آفریدی بننے کی کوشش نہ کریں لیکن معاملہ بگڑگیا اور چھٹی کے روز تین وزرا کی چھٹی کردی گئی۔

ذرائع بتاتے ہیں کابینہ سے تین وزرا کو نکالے جانے کے فیصلے کے آفٹرشاکس ابھی باقی ہیں اور آنے والے دنوں میں کابینہ سے فارغ ہونے والے وزرا کے ساتھ گروپ کا حصہ بننے والے ارکان اسمبلی کو بھی شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے اور پارٹی کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔ اختلافات کا معاملہ کابینہ میں ہی نہیں خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی اور ڈپٹی اسپیکر محمود جان کے درمیان بھی چل رہا ہے۔ اسمبلی میں کچھ معاملات پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے درمیان نہیں بن پارہی۔ اس لیے اسپیکر نے بھی معاملہ بڑوں کے سامنے اٹھالیا ہے۔ ڈیڑھ سال کے کم عرصے میں حکومتی معاملات پر اختلافات کی باتیں سامنے آگئی ہیں، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے درمیان ایسے لمحات میں خیبرپختونخوا کابینہ میں معاملات سدھار دیے جائیں گے لیکن تبدیلی کے آثار کسی حد تک نظر آرہے ہیں اور آنے والے دنوں میں وزارتیں اور وزیر ادھر ادھر ہوتے نظر آئیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔