امیر ترین حکمرانوں کا غریب ملک

ثناء غوری  جمعرات 14 نومبر 2013
sana_ghori@live.com

[email protected]

اماں پانی سے ڈر لگتا ہے، میں نہ جاؤں گی اس میں۔ دیکھ اماں! نہ کر ایسا، مجھے روٹی نہیں چاہیے۔ 8 سالہ ایمن رو رہی تھی۔ رو تو رضیہ بھی رہی تھی جو اس کی ماں تھی، لیکن اس ماں کے دل میں نہ جانے کس بات کا خوف تھا، جس نے اس کی سننے سمجھنے کی حس ختم کردی تھی۔ شاید وہ اپنی اولاد کو موت کے منہ میں تو ڈال سکتی تھی، لیکن انھیں روز روز بھوک سے بلکتا  نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پَل بھر کے لیے اس نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا، پانچ سالہ غلام حسین کے ماتھے کو چوما، چار سالہ بصیرت کو گلے سے لگایا اور اگلے ہی لمحے اپنے تینوں بچوں کو بی آر بی نہر میں پھینک دیا۔

آس پاس موجود لوگ پہلے تو سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ عورت آخر کر کیا رہی ہے۔ جب اس نے خود نہر میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی تو اس وقت تک لوگ معاملہ سمجھ چکے تھے۔ رضیہ کا ارادہ بھانپ کر وہ اس کی طرف دوڑ پڑے اور اسے روک لیا۔ اپنا سب کچھ پانی میں بہادینے والی یہ ماں اپنے حواسوں میں نہ تھی۔

فوری طور پر 112 پر اطلاع دی گئی۔ اس سانحے کی خبر ملتے ہی ریسکیو ٹیم کے غوطہ خور موقعے پر پہنچ گئے اور مقامی رہائشی افراد کے ساتھ مل کر کوئی دو گھنٹے تک سرچ آپریشن کرتے رہے۔ بچوں کے بچانے کی تگ ودو تو ناکام ہوئی، مگر ان کی لاشیں مل گئیں۔

یہ کہانی نہیں، حقیقت ہے۔ کیسی دل دہلادینے والی حقیقت ہے کہ ایک عورت اپنے ہی بچوں کا ہاتھ پکڑ کر انھیں  موت کو سونپ دے۔

کتنی تڑپتی ہوگی وہ، کہ جس اولاد نے اسے مکمل عورت بنایا، اسی کو اپنے ہاتھوں سے موت کی وادی میں اتار دیا، جنھیں زندگی دی تھی، ان کی زندگی چھین لی، کیوں کہ اس دکھیاری کو اپنے بچوں کا بھوک سے بلبلانا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ بچوں کو خوراک کا نوالہ نہ دے سکی، تو انھیں  لُقمۂ اجل بنادیا۔

ہائے ری غربت، روٹی اور غریب، اور غریب کی موت۔ کتنی ہی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، سوئس اکاؤنٹس بھرتے گئے، پالتو گھوڑوں اور کُتوں کی خوراک پر ماہانہ لاکھوں  روپے خرچ ہوتے رہے، حکومتی ایوانوں کی سجاوٹ اور دیکھ بھال پر  کروڑوں روپے لُٹائے جاتے رہے۔ قومی اسمبلی کا  کینٹین ملک کا سستا ترین فائیو اسٹار ہوٹل  ہے، جہاں کھانا اتنا سستا ملتا ہے، جیسے من وسلویٰ بکتا ہو کوڑیوں کے مول، اور یہاں کھانے والے ہیں اس ملک کے حکمراں۔

کبھی آٹا سستا ہوا نہ دوا، اور مکان کی امید تو غریب کے لیے بس ایک ٹوٹا ہوا سپنا ہے۔ غربت بڑھتی گئی، غریب مرتا رہا۔ سگنل پر گاڑی روکتے ہی کبھی کسی معصوم ننھے بچے کو سرد موسم میں ننگے پاؤں اور لباس کے نام پر  چیتھٹرے لٹکائے دیکھا تو دل خون کے آنسو رودیا۔ کب تک، آخر کب تک ہم یوں ہی لوگوں کے افلاس کی وجہ سے مرتا اور بھیک مانگتا دیکھتے رہیں گے۔ کیا حکمرانوں کی کوئی ذمے داری نہیں؟ کیا حکمراں صرف اس لیے ہیں کہ قوم کے پیسے سے بیش قیمت گاڑیاں خریدیں پھر اپنی ’’قیمتی‘‘ جان کے تحفظ کی خاطر لاکھوں روپے مزید خرچ کرکے ان گاڑیوں کو بُلٹ پروف بنائیں۔ یقیناً جان تو انھی کی قیمتی ہے، بلکہ انھی کی جان کی قیمت ہے۔ عام لوگ راہ چلتے ان جانی سمت سے آنے والی گولی کا نشانہ بن جائیں یا بھوک کے سفاک پنجوں میں تڑپ تڑپ کر جان دے دے، کس کو فکر۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف نہیں کہ پاکستان امیر ترین حکمرانوں کا غریب ترین ملک ہے۔

پاکستان کی آبادی 180ملین سے تجاوز کرچکی ہے، جب کہ 33 فی صد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ رواں سال ہمارے ملک نے انسانی معیار زندگی، یعنی ’’ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ کے اعتبار سے اپنا چھیالیسواں درجہ برقرار رکھا۔ یہ اعداد وشمار پاکستان میں افلاس کی خوف ناک صورت حال کی نشان دہی کررہے ہیں۔

انسانی معیار ِزندگی کے گھٹتے ہوئے درجات اور بڑھتا ہوا افلاس انفرادی سوچ کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں، جس کے باعث رفتہ رفتہ صورت حال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجوہات ہمارے معاشرے کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ غصہ، وحشت، بے گانگی، رشتوں کے احترام میں کمی، یہ رویے ہمارا چلن بنتے جارہے ہیں۔ یہ حالات اور رویّے فرد کو تنہا اور غیرمحفوظ کرکے اسی راستے  پر لے جاتے ہیں جس پر چل کر رضیہ نے اپنے پھولوں کو پانی میں بہادیا۔ وہ حواس باختہ ہوکر جنونی کیفیت میں مبتلا ہوگئی اور اپنے ہی بچوں کی قاتل قرار پائی۔

زندگی تو اس کی برباد ہو ہی چکی تھی، مزید قیامت یہ ٹوٹی کہ خبروں کے مطابق  تھانے میں تفتیش کے دوران پولیس نے روایتی انداز اپناتے ہوئے اس پر بھیانک تشدد کیا۔ مر تو وہ پہلے ہی گئی ہے، اب بس سانسوں کی ڈور ٹوٹنا باقی ہے، سو شاید اسے زندگی کی اذیت سے نجات دینے کی خاطر ہی اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس ہی نہیں، میڈیا، معاشرہ، ہم سب اس ’’ظالم ماں‘‘  کا سر کچل دینے کے آرزومند ہیں۔ اپنے بچوں کی جان لینی والی رضیہ کو سزا دینے کے خواہش مند انسانو! ہوش کرو، مجرم کے بجائے جرم اور اس کے اسباب مٹانے پر غور کرو۔

بہ حیثیت معاشرہ ہم سب کو جرائم کے سدباب کی فکر کرنا ہوگی جو غربت کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ حکومت تو نہ جانے کب جاگے، لیکن ہم اور آپ میں سے جو صاحبِ حیثیت ہیں، کیا اپنے آس پاس زندگی بھوگتے افلاس زدہ افراد اور کنبوں اور  راستوں پر بھیک مانگتے بچوں پر نظر نہیں ڈال سکتے؟ ہم کچھ تو ایسا کر سکتے ہیں جس کے بعد کوئی رضیہ اپنا ذہنی توازن نہ کھوئے، کسی بچے کو بھوک سے بلکنے پر موت کا زہر نہ پینا پڑے، ایسا نہ ہو کہ ننھے مُنے ایمن، غلام حسین اور بصیرت آنکھوں میں خوف اور حیرت لیے دنیا دیکھے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں۔

رضیہ کے المیہ کا سبب یہ ہے کہ وہ تنہا رہ گئی تھی، اس کے ہر طرف اندھیرے تھے، جہاں امید کی ایک کرن بھی نہیں تھی۔

رضیہ کے مقابلے میں جیسیکا خوش قسمت تھی،  سو اس کی تنہائی کو رفاقتوں کا کارواں مل گیا اور اس کے اردگرد پھیلے اندھیروں میں ہزاروں دیپ جل اٹھے۔

یہ اس سال تئیس اکتوبر کا واقعہ ہے۔ امریکا کے شہر میامی  کے ایک اسٹور میں جیسیکا روبلین نامی ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ خاتون  پولیس آفیسر وکی تھامس اسے ہتھکڑی پہناتی تو ہے، لیکن صرف پندرہ منٹ بعد وہ ملزمہ کی ہتھکڑی کھول کر اس کے ہاتھ میں سو ڈالر تھما دیتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ جس اسٹور سے اسے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا، وہیں سے کھانے پینے کی اشیا خریدے۔ مقامی ٹی وی چینل اس پورے واقعے کی خبر براہ راست دے رہا تھا، لہٰذا پولیس آفیسر وکی تھامس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے اپنے پیشے سے غداری کرتے ہوئے ایک مجرم کو چھوڑ دیا۔

وکی تھامس سے صفائی طلب کی گئی۔ اس کے جواب نے صرف امریکا ہی نہیں ساری دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ وکی تھامس کا کہنا تھا،’’یہ عورت چور نہیں، وہ چوریاں کرتی رہی ہے، لیکن اس نے ہمیشہ اسٹورز سے کھانے پینے کی اشیاء ہی چُرائی ہیں۔ وہ بہت غریب ہے۔ جب وہ اسٹور میں چوری کے ارادے سے داخل ہوئی، اس وقت اس کی بارہ سالہ بیٹی گھر پر بھوکی بیٹھی کھانے کا انتظار کررہی تھی۔ میں اگر اسے گرفتار کرلیتی تو جرم ختم نہیں ہوتا، بل کہ  گھر پر بیٹھے اس کے بچے بھی ماں کے نہ آنے پر شاید بھوک  مٹانے کے لیے چور بن جاتے۔ ہمیں مثبت سوچ اپنانی ہوگی۔‘‘ وکی تھامس کے اس جواب کے بعد فضا یکسر بدل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے ہی لوگوں نے جیسیکا کو عطیات دینے کا اعلان کردیا اور اس کے لیے مہینے کے راشن کی رقم جمع کی جانے لگی۔ یہی نہیں، مختلف اسٹور مالکان نے اعلان کیا کہ جیسیکا ان کے اسٹور سے ہر ماہ سات سو ڈالر تک کی اشیاء مفت حاصل کرسکتی ہے۔

یوں بھوک سے نڈھال بچوں کی ماں کی چوری جرم نہیں، اس کا فرض قرار پائی۔ میں سوچ رہی ہوں کاش رضیہ کے بچوں کی بھوک مٹادی جاتی تو اس کے بچے بھی زندہ ہوتے اور وہ بھی زندہ لاش بننے سے بچ جاتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔