حکومتوں کے عروج وزوال کی کہانی سناتے قدیم سکے

آصف محمود  پير 27 جنوری 2020
سکے اپنے دور اور حکومتوں کے عروج وزوال کی نشانی ہوتے ہیں فوٹو: ایکسپریس

سکے اپنے دور اور حکومتوں کے عروج وزوال کی نشانی ہوتے ہیں فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: برصغیر پاک و ہند میں قدیم سکے تاریخ شناسی کے لیے اہم ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔

لاہورمیوزیم میں ویسے تو ہزاروں نوادرات محفوظ ہیں لیکن یہاں کا سب سے اہم خزانہ قدیم اور جدید دور کے سکے ہیں۔ لاہور میوزیم میں مجموعی طور پر 60 ہزار نوادرات ہیں ان میں سے 70 فیصد کلیکشن سونے، چاندی، تانبے اور دیگر دھاتوں سے بنے ہوئے سکوں کی ہے۔ یہاں 41 ہزارسکے جبکہ 5 ہزار تمغے ہیں جن کی الگ گیلری بنائی گئی ہے۔

میوزیم میں سکوں کی گیلری کی انچارج نوشابہ انجم کا کہنا ہے کہ پرانے وقتوں میں بارٹر سسٹم کے ذریعے چیزوں کی خریدوفروخت ہوتی تھی ، اس دور میں سکہ میڈیا کا کردار ادا کرتا تھا، سکوں کے اوپر حکومت کی شخصیات کی تصاویر، اس عہد اور سلطنت کی نشانی اور حکمرانوں کے حیثیت لکھی جاتی تھی۔ سکے زیادہ تر نذرانے اور تحائف کے طور پر استعمال ہوتے تھے بالخصوص سونے کے سکے تحائف اور نذرانوں کے لئے ہی بنوائے جاتے تھے۔

نوشابہ انجم نے بتایا کہ لاہور میوزیم میں محفوظ سکوں کی کولیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں برصغیرپاک وہند کی تاریخ سے جڑے سکے ہی محفوظ ہیں اور یہ پاکستان میں سب سے بڑی کلیکشن ہے۔ ویسے توکراچی کے نیشنل میوزیم میں ایک لاکھ سے زیادہ سکے ہیں لیکن وہ مختلف ممالک کے ہیں۔ لاہور میوزیم میں محفوظ سب سے پرانا سکہ سالٹ رینج کی قدیم تہذیب سے متعلق ہے۔ اسی طرح سندھ کی قدیم تہذیب ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملنے والے سکے بھی محفوظ ہیں۔

نوشابہ انجم کے مطابق مختلف ادوار میں 3 اور2 کلوگرام سونے سے لے کر ایک گرام سے بھی کم وزن کے سکے سامنے ہیں۔ محمد بن تغلق اورشہاب الدین غوری کے دور کے دو سے تین کلوگرام تک سکے ملے ہیں اور یہ سکے بطورکرنسی نہیں بلکہ تحفے اور نذرانہ کے طورپر استعمال ہوتے تھے۔ برصغیرمیں ہندو اورسکھ دورمیں سونے کے علاوہ دیگردھاتوں سے بنے ہوئے سکے استعمال ہوتے تھے۔ سب سے بھاری وزن کے سکے مغلوں کے دورمیں استعمال ہوتے تھے جبکہ سب سے کم وزن سکے ہندو اور سکھوں کے دورمیں ملتے ہیں۔ مغلیہ دور کے سکے اپنی بناوٹ کے لحاظ سے سب سے خوبصورت ہیں، بالخصوص جہانگیر کے دورکے سکے انتہائی نفاست سے تیار کئے گئے تھے۔ شاہجہان کے دور کے سکوں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان پرکلمہ طیبہ لکھا جاتا تھا۔

نوشابہ انجم نے بتایا کہ سکے اپنے دور اور حکومتوں کے عروج وزوال کی نشانی ہوتے ہیں۔ ان پر بنے نقش و نگار، ان کا وزن ، نفاست یہ کسی بھی دور کی معاشی صورتحال ، اس دور کی ثقافت اور حکمرانوں کے مزاج کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کئی سکوں پر خواتین کی شبیہات سے زمانہ قدیم میں سیاسی اور سماجی شعبوں میں عورتوں کے کردار اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کسی حکومت کا زوال ہونا شروع ہوا ان کے سکوں میں بھی تبدیلی آتی گئی لیکن اس کے برعکس مغلوں کے دورمیں ہمیں یہ سب مختلف نظرآتا ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کے دور کے سکے بھی بہت عمدہ اور شاندار ہیں۔

نوشابہ انجم کہتی ہیں کہ ہمارے ملک کے اس وقت جومعاشی حالات ہیں ان کی جھلک ہمارے سکوں میں نظرآتی ہے۔ انہوں نے کئی بار حکومت سے درخواست کی ہے کہ جب بھی کوئی نیاسکہ جاری کرنا ہو تو ملک میں سکوں کی جانچ اور تاریخ کے ماہرین موجود ہیں ان سے مشاورت کرلینی چاہیے۔ یہ کرنسی نوٹ ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ آنے والے سالوں اور صدیوں میں یہ سکے ہی پاکستان کے آج کے دور کی عکاسی کریں گے۔ بدقسمتی سے جو سکے تیار ہورہے ہیں ان کا وزن نہ ہونے کے برابر اور معیاربھی ٹھیک نہیں ہے۔ سکوں پر بنائی گئی تصاویر کو دیکھنے کے لئے بہت غور کرنا پڑتا ہے، یہ کوالٹی ماہرین کے مشورے سے بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ لاہور میوزیم میں محفوظ سکوں کے اس خزانے کا بڑا حصہ لوگوں سے ڈونیشن کے طورپر جمع کیا گیا ہے۔ قدیم سکے ڈونیشن کرنیوالوں کو جس دھات کے وہ سکے ہوں اس کی قیمت سے کئی گنابڑھ کرمعاوضہ دیا جاتا ہے اورساتھ ہی شکریہ کا ایک سرٹیفکیٹ بھی دیاجاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔