واسکوڈے گاما کا NRC/CAA

مدثر حسیب  بدھ 29 جنوری 2020
اسلام اور انسانیت کے کھلے دشمن واسکوڈے گاما کو پرتگال اور یورپ میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلام اور انسانیت کے کھلے دشمن واسکوڈے گاما کو پرتگال اور یورپ میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ مئی 1498 کا کوئی دن تھا، جب واسکو ڈے گاما ہند کی ریاست مالا بار (موجودہ کیرالا، انڈیا) کے ساحلی شہر کالی کٹ پر اترا۔ وہ تقریباً ایک سال کے طویل بحری سفر میں موزمبیق، ممبوسا (موجودہ کینیا) ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا تھا۔ وہ اور اس کے بحری فلیٹ میں شامل باقی سارے لوگ اس سفر کے دوران کئی بار موت کے منہ سے نکل کر آئے تھے۔ سمندر کے اس بے انتہا لمبے اور پرخطر سفر میں کئی بار انہیں پہاڑ جیسی لہروں کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اکثر ہی انہیں خوراک کی کمی بھی رہی تھی، جس کو وہ پاس سے گزرتے جہازوں کو لوٹ کر یا کسی قریبی بندرگاہ کی شہری آبادی پر دھاوا بول کر پورا کرتے تھے۔ ان کے کئی ایک ساتھی بیماریوں کا شکار ہوکر مرچکے تھے یا پھر سمندری طوفانوں سے لڑتے ہوئے سمندر برد ہوگئے تھے۔

موزمبیق میں پناہ لینے کےلیے تو انہیں باقاعدہ مسلمان بننے کی ایکٹنگ کرنا پڑی تھی۔ واسکو ڈے گاما اور اس کے ساتھیوں نے نہ صرف مسلمانوں کا روپ دھارا بلکہ وہ اس روپ کی بدولت موزمبیق کے سلطان تک پہنچ گئے۔ سلطان کے دربار میں پہنچ کر ان بھوکے ننگے یورپی عیسائیوں نے کچھ تحائف پیش کرکے سلطان کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ واسکو ڈے گاما اور اس کے ساتھی فطرتاً ڈکیت ہونے کے ساتھ مقدس جنگ کے جنگجو بھی تھے، جبکہ خاص مسلمانوں کےلیے نفرت ان کے انگ انگ میں بھری ہوئی تھی۔ اس لیے ان کا رچایا ہوا یہ ڈرامہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور جلدی ہی بہروپیوں کا اصل چہرہ سامنے آگیا۔ مقامی لوگوں نے ان کو علاقے سے نکل جانے کو کہا۔ واسکوڈے گاما کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنا رخت سفر یہاں سے باندھا اور نکل پـڑا لیکن جاتے جاتے اس نے شہر پر بمباری کرنا شروع کردی اور اپنے طور پر مقامی لوگوں کو سزا دی۔

ممباسا اس کی اگلی منزل بنا۔ جہاں پر بھوک کے شکار یورپیوں نے جی بھر کر لوٹ مار کی۔ وہاں پر موجود مسلم عرب تاجر، جن کے جہاز زیادہ تر تجارتی اور توپ خانوں کے بغیر تھے، کو انہوں نے خوب لوٹا۔ کیونکہ ایک تو مسلمان اوپر سے تاجر۔ یہ ان کےلیے حج بھی تھا اور بیوپار بھی۔ مقدس جنگ کے سارے لوازمات موجود تھے۔ الغرض انہوں نے ہر طرح سے اپنی بھوک کا علاج کیا۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ تھا کہ یہ پرتگالیوں کے ساتھ تمام یورپی قوموں کےلیے ایک اعزاز تھا، کیونکہ واسکو ڈے گاما ہی وہ پہلا یورپی تھا جو افریقہ کے اس کنارے تک پہنچا تھا۔ ساتھ میں واسکو ڈے گاما عیسائیت کے پھیلاؤ اور مقدس جنگ کے فریضے کو بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ یہاں پر بھی جب پرتگالیوں کی لوٹ مار کی انتہا نہ رہی تو مقامی آبادی ان کے مقابلے پر آگئی، حتیٰ کہ انہیں یہاں سے بھی بھاگنے میں ہی اپنی عافیت نظر آئی۔

پرتگالیوں نے اپنا سفر شمال کی طرف جاری رکھا، یہاں تک کہ وہ مالینڈی (موجودہ کینیا) پہنچ گئے۔ کچھ روایات کے مطابق یہاں واسکوڈے گاما کی ملاقات ایک تاجر سے ہوئی جو عرب مسلم یا گجراتی عیسائی یا مسلم تھا۔ دونوں روایات موجود ہیں۔ گاما نے اسے اپنا تعارف بھی ایک تاجر کے طور پر کروایا۔ اسی تاجر نے گاما کو مون سون ہواؤں کی مدد سے ہندوستان پہنچنے کا طریقہ بتایا اور بعض روایات کے مطابق واسکو ڈے گاما نے باقی سفر کےلیے اس کی خدمات حاصل کرلی تھیں۔

اور بالآخر وہ دن اب آچکا تھا کہ بحری قزاقوں کا یہ ٹولہ ہندوستان کے ساحل سے آلگا تھا۔ مقامی آبادی کے لوگوں کےلیے بھی یہ سب نیا تھا۔ انہوں نے اس قسم کے غیر مقامی بحری جہاز اور سفید جلد والے لوگ پہلی بار دیکھے تھے۔ لوگ جوق در جوق اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے ساحل پر جمع ہوگئے اور انہیں اپنے اپنے انداز سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ واسکو ڈے گاما نے اپنا تعارف ایک شاہی سفیر کے طور پر کرانا شروع کیا، جو تجارت کےلیے ہندوستان آیا ہے۔ مقامی لوگوں کی مہمان نوازی دیکھ کر بھوک کے مارے پرتگالیوں کی بانچھیں کھل گئیں۔

غیر ملکیوں کی آمد کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور بہت جلد ہی یہ خبر مقامی ہندوبادشاہ ساموتری تک جا پہنچی جو اپنے دارالحکومت سے کالی کٹ آچکا تھا، تاکہ معاملات کا جائزہ لیا جاسکے۔ واسکو ڈے گاما کو بھی جلد ہی بادشاہ کا نیوتا پہنچا دیا گیا۔ واسکو ڈے گاما جب بادشاہ سے ملنے جارہا تھا تو اسے راستے میں ایک ہندو مندر نظر آیا۔ وہ مندر کو چرچ سمجھ کر اندر چلا گیا۔ مندر کی دیواروں پر کچھ ایسے نقش و نگار عیاں تھے جس سے اس کے شک کو مزید تقویت پہنچی تھی۔ وہ بعض زنانہ کندہ نقوش کو میری (Mary) سمجھ رہا تھا اور بعض مردانہ کو جیسس کرائسٹ۔ وہ برہمن ہندو پنڈتوں کو عیسائی مشنری کے طور پر لے رہا تھا، جو مقامی طور طریقے کے مطابق عبادت کرتے تھے۔ جب مقامیوں نے وہاں کرشنا کرشنا پکارنا شروع کیا تو پرتگالیوں نے اسے کرائسٹ سمجھ کر کرائسٹ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ ان کے ذہنوں میں جو بھی چل رہا تھا لیکن انہیں ایک بات کا تو یقین آچکا تھا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ بہت آسانی سے ڈیل کرلیں گے۔

بادشاہ ساموتری کے دربار میں پہنچ کر یورپیوں نے اپنے تئیں کچھ فضول قسم کے تحائف پیش کیے، جن کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کوئی شاہی سفارتی مشن ہے۔ جیسا کہ واسکو ڈے گاما بیان کررہا تھا۔ بادشاہ نے واسکو ڈی گاما سے اپنی بندرگاہ پر کھڑے ہونے کی ڈیوٹی طلب کی، جس سے واسکو ڈے گاما کی تیوری چڑھ گئی۔ ساتھ ہی اس نے ایک عجیب شرط رکھ دی کہ وہ ہندوستان سے تجارت تب کریں گے جب وہ یہاں پر موجود تمام مسلمانوں کو اپنے ہاں سے نکال دیں اور عرب مسلمان تاجروں سے بھی باہمی لین دین ختم کردیں۔ جبکہ مسلمان تاجر بادشاہ کو ایک اصول کے تحت سونے اور چاندی میں ادائیگیاں کرتے تھے۔ ظاہر ہے یہ شرط بادشاہ کےلیے ناقابل قبول تھی۔

غرض واسکوڈے گاما نے بعد کی مہمات کے دوران ساموتری کے شہر پر زوروں کی بمباری کی اور بندرگاہ پر قبضہ کرلیا، نیز ایک اور ساحلی شہر گوا (Goa) پر بھی اپنا قبضہ جما کر برصغیر میں پرتگالی کالونی ازم کی بنیاد رکھ دی۔ یہ سفید فام یورپیوں کی اس علاقے میں سب سے پہلی شورش تھی۔ قبضے کے بعد واسکو ڈے گاما نے خشکی اور سمندر میں خوب اودھم مچائے رکھا، جس کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہوتے تھے۔ ایک بار تو اس نے ایک سفری جہاز جس میں حج کرنے والے لوگ سوار تھے اور مکہ جارہے تھے، کو راستے میں روکا اور لوٹنا شروع کیا۔ اس میں 400 مرد اور 50عورتیں موجود تھیں۔ عورتوں نے ڈاکوؤں کو زیورات تک اتار کر دیئے، اپنے بچے دکھا کر رحم کی اپیل بھی کی، لیکن واسکوڈے گاما کو کسی پر ترس نہ آیا اور سب کو بچوں سمیت کھلے سمندر میں جلا دیا گیا۔

دنیا کے اس عظیم ترین بحری قزاق کی موت ملیریا سے ہوئی اور پہلی بار اسے کوچی (موجودہ کیرالہ) کے ایک چرچ میں دفن کیا گیا لیکن بعد میں اس کی باقیات کو پرتگال کے شہر لزبن (Lisbn) لے جایا گیا۔ کیونکہ یورپی عیسائیوں کےلیے یہ ایک رائل نائٹ تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسلام اور انسانیت کے اس کھلے دشمن کو پرتگال اور یورپ میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ اسے نائٹ کا خطاب بھی ملا۔ اسے ہند میں پرتگال کا وائسرائے بھی لگایا گیا، لزبن میں ایک عظیم پل اب بھی اس کے نام سے منسوب ہے۔ برازیل میں ایک مشہور فٹ بال کلب اس کے نام پر ہے۔ ہماری درسی کتب میں بھی اس کی مثال کا کوئی ایکسپلورر موجود نہیں ہے۔

آج جنوری 2020 کے اس جدید ترین اور انسانی حقوق کے دور میں بھی انڈیا کے مسلمانوں کو NRC اور CAA جیسے قوانین سے ہندوتوا کا راج انڈیا سے باہر نکال پھینکنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے، تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ اسٹوری لائن آج کی نہیں بلکہ یہ صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ کبھی مقدس جنگ سے، کبھی دہشت گردی سے اور کبھی NRC/CAA سے اس کا بیانیہ منسلک کیا جاتا ہے۔

دنیا کی تقسیم ہمیشہ سے ہی ایک لائن سے جدا ہوتی رہی ہے۔ لائن کے ایک طرف وہ لوگ جو اللہ کو ایک مانتے ہیں، جب کہ دوسری طرف وہ سارے لوگ جو نہیں مانتے، چاہے وہ کسی بھی دور یا کوئی بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ وہ قوم نوح، مصر فرعون کی قوم ہو یا امت محمدیؐ ہو۔ دنیا آج ہر ملک کے مسلمان کو، وہ جہاں بھی رہتا ہو ایک سمجھتی ہے، چاہے مسلمان ملک در ملک اور فرقہ در فرقہ آپس میں بٹے ہوئے ہیں، دنیا انہیں ایک سمجھے گی۔ چاہے تو یہ ایک جسم والا اپنا اصول بھول چکے ہوں۔ وہ یورپ کا مسلمان ہو، امریکا کا، انڈیا کا یا پھر روہنگیا کا ہو۔ ساری دنیا اپنے مسلمان شہری کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ مسلمان کہتا ہے میں تمہارے پاسپورٹ پر ہوں۔ لیکن وہ کہیں گے پاسپورٹ بھی نہیں چلے گا، حلفاً گواہی بھی دیتا ہوں، تمہاری فوج میں بھی بھرتی ہوتا ہوں۔ اس کے باوجود انڈیا ہو یا انگلینڈ، وہ اسے شک کی نظر سے دیکھے گا۔ اسے اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑتی ہے۔ بار بار دہرانی پڑتی ہے۔ کبھی تو سیکولر جمہوریت کا حصہ بنتا ہے۔ کبھی لادین جمہوریت کا، کہیں تو ماڈرن ازم لاتا ہے، کہیں نیشنل ازم۔ لیکن سکون پھر بھی نہیں، اس مقام تک پھر بھی نہیں جہاں ایک سکھ، عیسائی یا کوئی اور غیر مسلم ہے۔

آخر آج کا مسلمان کیوں نہیں سمجھتا کہ اس کا قصور کشمیری یا فلسطینی ہونا نہیں ہے، اس کا صرف ایک ہی قصور ہے، اور وہ مسلم ہونا ہے۔

آج بھی وہی اسکرپٹ ہے، رائٹر بھی وہی ہیں اور تھیم بھی وہی ہے۔ کھیل بھی ویسا ہی ہے، بس صرف وقت بدلا ہے۔ مسلمان اس بدلتے وقت کو جتنا جلدی ہوسکے سمجھ جائیں۔ دنیا اور لوگوں کی بنائی ہوئی رسموں، چکاچوند روشنیوں، سیکولر جمہوریتوں اور ڈالر معیشتوں سے باہر آئیں ورنہ کوئی واسکوڈے گاما، کوئی نیتن یاہو یا کوئی مودی انہیں NRC/CAA سے انہیں ان کی اپنی ہی زمین سے نکال باہر کرے گا، اور وہ اپنی قومیت ثابت کرتے پھریں گے، لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدثر حسیب

مدثر حسیب

بلاگر نے مالیات (فائنانس) کے شعبے میں ایم فل کیا ہوا ہے اور دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں بھی شعبہ مالیات میں کام کررہے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔