یادوں کے دریچے

رفیع الزمان زبیری  منگل 28 جنوری 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

عظمت انصاری کہتے ہیں ’’صحافت میں رہتے ہوئے، میں نے بے پناہ کام کیا۔ کوئی تین ہزارکے لگ بھگ آرٹیکلز لکھے۔ چار مشہور ناولوں کا ترجمہ کیا۔ ترجمے مختلف اخباروں اور رسالوں میں قسط وار چھپے۔ دنیا کے بہترین افسانوں کا ترجمہ ایک اردو اخبار میں ایک سال تک چلتا رہا۔ پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں پر تبصرے اور باغبانی پر مضامین لکھے۔ پاکستان کا کوئی بھی اداکار اور صداکار ایسا نہیں ہے جس کا میں نے انٹرویو نہ کیا ہو۔‘‘

اب ایک کام اور عظمت نے کیا ہے، یہ ان کی زندگی کی خود نوشت روئیداد ہے جو ’’ یادوں کے دریچے‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ اس میں ان تمام کاموں کی تفصیل ہے ، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے اور یہی نہیں ان کے اور بھی کارنامے ہیں جن کا اس کتاب میں احوال ہے۔ فرحت جو تین دہائیوں سے زیادہ ان کی رفیقہ حیات ہیں ، لکھتی ہیں۔

’’عظمت انصاری نے اب تک جو کارنامے انجام دیے ہیں، وہ اپنی جگہ لیکن وہ شعبہ جس میں انھوں نے بہت زیادہ نام کمایا ہے وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ انھوں نے بی بی اے اور ایم بی اے کی پانچ مختلف یونیورسٹیوں میں کلاسوں کوپڑھایا ہے۔ وہ مضامین جو انھوں نے پڑھائے وہ تھے ایڈورٹائزنگ، میڈیا مینجمنٹ، نفسیات، ورلڈ لٹریچر، رپورٹنگ،میڈیا ایتھکس اینڈ لا۔ وہ اب تک تقریبا چھ ہزار طالب علموں کو پڑھا چکے ہیں اور ان کا سلسلہ درس اب تک جاری ہے۔‘‘

وہ کہتی ہیں ۔’’عظمت ایک سچے انسان ہیں جنھیں اپنے ملک اور انسانیت سے پیار ہے۔ ان میں ایک قدم آگے بڑھ کرکام کرنے کا حوصلہ ہے۔ حالات کتنے ہی سنگین ہوں اور وسائل کتنے ہی محدود ہوں ، وہ پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ ان میں اتنی خوبیاں ہیں کہ شاید ہی کسی اور میں ہوں۔‘‘

ایک اور خوبی جو فرحت صاحبہ بیان کرتی ہیں، بیگمات عموماً اس کا ذکر نہیں کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’عظمت ہمیشہ صنف نازک کی Good Books میں رہے ہیں۔ ایک تو وہ ویسے ہی خوش شکل ہیں لیکن ان کی آواز کی خوبصورتی اور نرم لہجہ ہرکسی کی توجہ ان کی طرف مبذول کرلیتا ہے۔ یونیورسٹی میں تو ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کئی لڑکیاں اپنے کلچر اور والدین کی بندشوں کو بالائے طاق رکھ کر ان کے گھر آجاتی تھیں۔‘‘

عظمت انصاری نے بھی اپنی اس خوبی کا ذکر کیا ہے، مگر دوسرے انداز سے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ بچپن میں ، میں بہت خوبصورت تھا۔ ہر آنٹی مجھے بہت پیارکرتی تھی۔ ایک آدھ بار منہ چومنے سے ان کا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج میں ہر عورت کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں اور ہر خوبصورت عورت میرے اندر کے بچے کو آنٹی لگنے لگتی ہے۔‘‘

عظمت ضلع ہریانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد رؤف انصاری مقامی شوگر مل کے ہر دلعزیز منیجر تھے لیکن ان کا آبائی وطن مارہرہ تھا۔ ان کے آبا و اجداد ’’ رئیس مارہرہ‘‘ کہلاتے تھے۔ مارہرہ علی گڑھ سے تیس میل دور شرفا کی ایک بستی تھی اور اب بھی ہے۔رؤف صاحب کو مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ہندوستان سے جب وہ پاکستان آئے تھے تو ایک بڑے ٹرنک میں صرف ایک چیز ساتھ لائے تھے اور وہ تھیں پانچ سوکتابیں۔ وہ ٹیکنالوجی کے ماہر تھے۔ وہ جہاں جاتے فتح یاب ہوتے۔ عظمت کہتے ہیں کہ ان کی فتح یابی کی وجہ ان کی بے پناہ ایمان داری تھی۔ خوش اخلاق تھے۔

موسیقی کے دلدادہ تھے۔ 1958 میں لاہور میں جو آل پاکستان میوزک کانفرنس ہوئی تھی وہ اس کے Co-Founder تھے۔ اس کانفرنس میں وہ واقعہ پیش آیا تھا جب نشے میں دھت ایک کمشنر کی بیوی نے پاس بیٹھے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کے منہ پر پوری طاقت سے ایک طمانچہ اس وقت رسید کر دیا تھا جب انھوں نے ایرانی مغنیہ کی نغمہ سرائی کے دوران انھیں اونچی آواز سے اپنے ڈرائیورکو آوازیں دینے سے منع کیا تھا۔ بعد میں کانفرنس کے منتظمین اخباروں کے دفتروں کو بھاگتے نظر آئے یہ خبر چھپ نہ جائے۔

عظمت انصاری کو طالب علمی کے زمانے سے ہی پیدل چلنے کا بڑا شوق تھا ، ایک بار وہ وادی کاغان کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھنے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل چل پڑے تھے اور جب واپس آئے تو ان کے ابا جان نے ان سے کہا ’’ بیٹا میں تمہیں کوہ پیمائی کی ایک مہم پر چترال بھیج رہا ہوں۔‘‘ عظمت لکھتے ہیں ’’ابا جان کو اپنے سب بچوں کی تربیت کی فکر تھی۔ ہمارے لیے ٹینس کھلانے کا انتظام کیا۔ انگریزی سکھانے کے لیے لاہورکے سب سے قابل انگریزی کے پروفیسر اے۔کے نیاز کو رکھا۔ ابا جان کی دلی خواہش تھی کہ میں بڑا ہوکر ایک مصنف کی حیثیت سے پہچانا جاؤں۔ گھر میں ادبی محفلیں ہوتی تھیں، ان میں بھی ہم سب کی تربیت کا پہلو تھا۔‘‘

رؤف انصاری صاحب کی تربیت کے ثمرات ان کے بچوں کو ملے اور عظمت نے اپنے قلم سے اور زبان سے ان کی خواہش پوری کی اور اپنی محنت سے براڈ کاسٹنگ میں بھی اپنا مقام بنایا۔ عظمت نے مغربی کلاسیکی موسیقی میں اپنی انٹری کا دلچسپ احوال اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ اس کی ابتدا لاہور ریڈیو اسٹیشن سے ہوئی۔ ریڈیو میں ان کا سب سے بڑا اثاثہ ان کی آواز تھی۔ وہ اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی خبریں پڑھتے تھے۔ فیچر بھی لکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ریڈیو کی ڈیوٹی دشوار تھی۔ رات کو تھک کر چور ہو جاتا۔ بستر پر لیٹتے ہی سو جاتا۔ ریڈیو میں، میں کنٹریکٹ آرٹسٹ تھا۔ یعنی خبر نامہ پڑھ لیا، ڈرامے میں آواز لگادی اسکرپٹ لکھ کر دیا۔ ہر کام کا معاوضہ مل جاتا۔‘‘

پھر ایک دن ان کے ایک عزیز نے اطلاع دی کہ ایئر ہیڈ کوارٹر پشاور میں پی آر او کی ضرورت تھی۔ انھوں نے درخواست دے دی۔ انٹرویو ہوا۔ لے لیے گئے۔ کوئی چھ سات دن باقاعدگی سے سلوٹ دینے اور لینے کی ٹریننگ دی گئی، دو یونیفارم دیے گئے اور فلائٹ لیفٹیننٹ کا عہدہ دے دیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا رسالپور جاؤ گے یا مشرقی پاکستان؟ انھوں نے جواب دیا، مشرقی پاکستان۔ وہ ڈھاکہ پہنچ گئے۔عظمت انصاری کا پہلا مشن یہ تھا کہ ہیلی کاپٹر میں ہلی گاؤں جاؤں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے اخباری نمایندوں کو دکھائیں کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی انقلاب کا حصہ نہیں ہے۔

یہ بھارت ہے جس نے ہر جگہ آگ لگائی ہے۔ عظمت کا آئی ایس پی آر میں میجر صدیق سالک کا ساتھ ہوا اور بہت کچھ سیکھا۔ کئی خطرناک سچویشنز سے زندہ بچ نکلے۔ پھر انجام کار صدر پاکستان یحییٰ خان کا پیغام آیا ’’ہتھیار پھینک دو اور جنگی کارروائیاں بند کر دو۔‘‘ یہ ایسا سرنڈر نہ تھا جسے دو متحارب فوجیں کرتی ہیں۔ یہ سرنڈر صرف ایک سرکاری حکم کی تعمیل تھی۔عظمت لکھتے ہیں ’’صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم سب ریس کورس گراؤنڈ پہنچے۔ میں نے اپنی یونیفارم کی بیلٹ اتاری اور یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دی۔

“I am not surrending, I am following an order.”

یہ جنگی قیدیوں کے کیمپ میں ہندوستان بھیج دیے گئے۔ قید میں ان پر کیا گزری، یہ بھی انھوں نے لکھ دیا ہے۔

عظمت انصاری قید سے چھوٹ کر پاکستان آئے تو ایئر ہیڈ کوارٹر پشاور میں پوسٹنگ ہوئی۔ پھر جلد ہی یہاں سے استعفیٰ دے کر امریکا روانہ ہوگئے۔ ’’یادوں کے دریچے‘‘ میں امریکا کے ساتھ کینیڈا، فرینک فرٹ، ہیلسنکی کے دریچے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔