مسئلہ آٹے کا نہیں، سرمایہ داری کا ہے

زبیر رحمٰن  منگل 28 جنوری 2020
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں کبھی ٹماٹر ، چینی ، دودھ ، مٹر اور آٹے کا بحران بظاہر نظر آتا ہے۔ درحقیقت یہ بحران آٹے کا نہیں بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، ٹرانسپورٹ، کرپشن، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ناقابل برداشت مسائل کے خلاف اورے گوئے، چلی، ایکواڈور، ہیٹی، کولمبیا، برازیل، ارجنٹینا، فرانس، اسپین، لبنان، عراق، ایران، سوڈان، ہندوستان اور ہانگ کانگ سمیت دنیا بھر میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی انحطاط پذیری ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ جس کے خلاف لاکھوں کروڑوں پیداواری قوتیں، محنت کش عوام ، نوجوان اور شہریوں کا سمندر سڑکوں پہ امڈ آیا ہے۔

ہندوستان میں سب سے بڑی ہڑتال جوکہ چوبیس کروڑ لوگوں پر مشتمل تھی، گزشتہ دنوں عوام نے کر دکھائی، اس میں زیادہ اہم کردار کمیونسٹوں اور انارکسٹوں کا تھا۔ اس مناسبت سے پاکستان کی حزب اختلاف دم بخود نظر آئی۔ آبادی کے لحاظ سے ہمارا زمینی رقبہ بہت بڑا ہے اور ایشیا کا سب سے وسیع نہری نظام بھی یہیں ہے۔ سونا چاندی ، تانبا، کوئلہ اور گیس سمیت بے شمار معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ دنیا کا ہر پھل، سبزی، دالیں، بہترین چاول، گندم، کپاس اور گنا بھاری مقدار میں پیدا ہوتا ہے پھر بھی یہاں غذائی قلت ہے۔ حال ہی میں غذائی قلت، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ یا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی وجہ سے ٹماٹر، مٹر، چینی، تیل اور آٹے کے بحران نے جنم لیا ہے۔

ٹماٹر جب ڈھائی سو اور تین سو روپے فی کلو بک رہا تھا تو ہمارے وزیر خزانہ سترہ روپے کلو کی بات کر رہے تھے۔ جب ایک صحافی نے پوچھا کہ کہاں؟ اس پر انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ ’’کراچی کی سبزی منڈی میں۔‘‘ حیرت کی بات ہے کہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ آئی ایم ایف کے کارندے بھی رہ چکے ہیں اور انھیں ٹماٹر کا بھاؤ بھی نہیں معلوم۔ اور اس سے زیادہ ڈھٹائی کیا ہوسکتی ہے کہ انھوں نے اس غلط بیانی پر آج تک عوام سے معافی بھی نہیں مانگی۔

یہی صورتحال ہے وزیر اعظم کی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی ہے، انھوں نے توکمال ہی کردیا، جب مٹر دو سو روپے کلو بک رہا تھا تو انھوں نے پانچ روپے کلو بتایا۔ آج تک انھوں نے بھی اس غلطی کی عوام سے معافی نہیں مانگی۔ دودھ کے بارے میں تو حکومت نے کئی بار احکامات جاری کیے لیکن دودھ کی ملاوٹ اور قیمتوں میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ تیل کی تو صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ جانوروں کی اوجھڑی، ہڈیاں اور سڑی ہوئی چربی سے ملک بھر میں تیل نکالا جاتا ہے اور اسے ہوٹلوں کو ترسیل کیا جاتا ہے۔ اس پر ٹی وی چینلز نے برملا ان کی ترسیلات کو دکھایا بھی ہے لیکن ان چربیوں سے تیل نکالے جانیوالی فیکٹریوں کو سیل نہیں کیا گیا بلکہ بدستور اپنا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

چینی کی تو بات ہی کرنا محال ہے۔ ساری بوروژوا پارٹیوں کے رہنماؤں کی شوگر ملز ہیں جو کسانوں سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے برخلاف سستی قیمت میں گنا کسانوں سے خریدا جا رہا ہے جب کہ چینی عوام کو پچاس روپے کلو بیچی جاسکتی ہے۔ مل مالکان میں بڑے بڑے سیاستدان اور وزراء شامل ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر وفاقی وزیر اسد عمر نے اسمبلی میں ان سب کو نشانے پر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کا مسئلہ تو یہ خود جب چاہیں حل کرسکتے ہیں۔ اب حال ہی میں آٹے کا بحران پیدا ہوا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس پر سخت نوٹس لیا اور اڑتالیس گھنٹے میں بحران کو ختم کرنے کا حکم صادر کیا۔ لیکن انھوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ آٹا پچاس روپے کلو سے بڑھ کر چونسٹھ روپے اور اب ستر روپے کلو ہو گیا ہے۔ اس لیے اسے نہ صرف پچاس روپے کلو پر لایا جائے بلکہ پینتالیس روپے کلو کیا جائے۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا، اس لیے کہ ترقیاتی فنڈز جوکہ مختلف شعبہ جات کو فراہم کیے گئے ہیں اس میں پندرہ تا چونتیس فیصد تک خرچ ہوئے باقی جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت عوام کو دال، آٹا، چاول، تیل، دودھ اور دیگر غذائی اجناس، علاج معالجے، رہائش اور روزگارکی سخت ضرورت ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دفاعی اخراجات میں کم ازکم پچاس فیصد کمی کرکے عوام کو نیم فاقہ کشی سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہمیں روٹی، دال اور علاج کی ضرورت ہے نہ کہ ٹینک، توپ، میزائل اور بم کی۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ

بم گھروں پرگریں کہ سرحد پر/ روح تعمیر زخم کھاتی ہے/ کھیت اپنے جلیں کہ اووروں کے/ زیست فاقوں سے تلملاتی ہے/ ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں/ کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے/ فتح کا جشن ہوکہ ہارکا سوگ/ زندگی میتوں پہ روتی ہے/ جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے/ جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی/ آگ اور خون آج بخشے گی/ بھوک اور احتیاج کل دے گی۔‘‘

وزیر اعظم عمران خان نے تو پھر بھی آٹے کے مسئلے پر نوٹس لیا لیکن ان کے وزیر ریلوے کہتے ہیں کہ نومبر اور دسمبر میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں۔ اس لیے آٹے کی کمی پڑ گئی۔ اسی طرح ایک اور خاتون پارلیمنٹیرین کہتی ہیں کہ لوگ روٹی دوکی بجائے ایک کھائیں اس سے صحت بھی بہتر رہے گی۔ اب ان دونوں حضرات سے اگر پوچھا جائے کہ آپ نے کبھی بسوں میں سفرکیا ہے تو جواب نفی میں ملے گا۔ کیا آپ نے خود کبھی آٹا خریدا ہے؟ جواب نفی میں ملے گا۔ درحقیقت ان لوگوں کے بارے میں محنت کشوں کی عظیم انارکسٹ خاتون رہنما ایماگولڈمان کہتی ہیں کہ ’’جنھیں نہ سمجھنے کے لیے تنخواہ ملتی ہے ان کو کیسے سمجھ میں آئے گی‘‘ دراصل پارلیمنٹ میں ان صاحب جائیداد لوگوں کو منتخب یا مقرر کیا جاتا ہے جن کا سماجی شعور کم سے کم ہو ورنہ عالمی سامراج کی کاسہ لیسی کیسے کریں گے۔

ان وزرا اور حکمرانوں (حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے) سے کہیں بہتر بلوچستان کا سلیمان خان ہے جس نے بغیر حکومت کی مدد اور مشینری کے برف میں پھنسے ہوئے سو افراد کو بچایا۔ اسی طرح نوجوان اعتزاز نے خودکش بمبار کو قابو کر کے اپنی جان تو دے دی لیکن اپنے اسکول کے سیکڑوں بچوں کو بچا لیا۔ اسی کو کہتے ہیں انارکزم۔ انارکزم، بھائی چارگی، نسل انسانی، ہر طرح سے آزاد ہوکر اوروں کی مدد کرنا اور ساجھے داری کی زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اب یہ کام دنیا بھر کے مختلف خطوں، علاقوں اور کونوں کھدروں میں شروع ہو چکا ہے۔

خواہ یہ کام جزوی ہی سہی۔ جیساکہ بھارت کا صوبہ میزورام میں کیمیائی کھاد کا استعمال بند کرکے دیسی کھاد کا استعمال شروع کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہاں کینسر اور دیگر مہلک بیماریاں ختم ہو رہی ہیں۔ کوسٹاریکا میں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے، یہاں شمسی اور ہوا کی توانائی استعمال ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ نہیں اور انیس سو انچاس سے فوج نہیں ہے۔ بھوٹان کی فضا کاربن سے پاک ہے جب کہ اسی دنیا میں ہر سال فضائی آلودگی سے چالیس لاکھ انسان مر رہے ہیں۔ اب دنیا بھر میں ایسے عوامل پیدا ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔