معیاری ادب کسی بھی زبان میں ہو لوگوں تک پہنچ جاتا ہے

حسان خالد  منگل 28 جنوری 2020
کینیڈا میں مقیم پنجابی فکشن نگار ہرکیرت کور چاہل کا احوال زیست

کینیڈا میں مقیم پنجابی فکشن نگار ہرکیرت کور چاہل کا احوال زیست

15 برس پہلے ہندوستانی پنجاب سے کینیڈا جانے والی ہرکیرت کور اپنی خواہش کے برخلاف پردیسن تو ہوئیں لیکن اس بدلاؤ نے بطور لکھاری ان کی صلاحیتوں کو متعارف بھی کرایا۔ لکھنے کی صلاحیت شروع سے ان کے اندر موجود تھی، جس کے اظہار کا موقع پردیس میں ملا اور یہ ان کا اپنی دھرتی سے جڑے رہنے کا ایک ذریعہ بھی بنا۔ وہ آج چار کتابوں کی مصنفہ ہیں، جنہیں پنجابی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ گزشتہ دنوں وہ اپنی کتاب ’آدم گرہن‘ (شاہ مکھی ترجمہ: تیجی مخلوق) کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے لاہور آئیں تو ’ایکسپریس‘ کے لیے اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ ان سے درخواست کی گئی کہ اردو میں گفتگو کی جائے تو ہمیں لکھتے ہوئے آسانی ہو گی۔ اس پر بولیں: ’’ہندی میرے کو آتی ہے، ضرورت کے وقت بولتی ہوں، لیکن کافی عرصے بعد آج آپ سے ہندی میں بات کروں گی۔‘‘ یوں ان سے ’ہندی‘ میں بات چیت کا آغاز ہوا۔

ہرکیرت کور کا جنم لدھیانہ ضلع کے ایک گاؤں میں ہوا۔ الیکٹریکل انجینئر والد نے جنوبی افریقہ میں خاصا وقت گزارا، پھر ہندوستان واپس آ کر بزنس کرنے لگے۔ والدہ خاتون خانہ  تھیں۔ ان کے خاندان میں زیادہ تر افراد ڈاکٹر یا انجینئر تھے۔ ایک انگریزی میڈیم سکول میں داخلہ کرایا گیا، لیکن پنجابی نہ ہونے کے کارن سکول تبدیل کر دیا گیا، جہاں پانچویں جماعت سے انہوں نے پنجابی پڑھنے کا آغاز کیا۔ گھر کے بڑوں کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے ماضی کے قصے سننا انہیں اچھا لگتا تھا، دوسرے بچوں کے برعکس مزاج میں سنجیدگی تھی۔ پڑھائی میں بچپن سے بہت اچھی تھیں۔ مضمون (essay) اتنا اچھا لکھتیں کہ استاد پوری جماعت کے سامنے پڑھ کر سناتے۔ وہ لٹریچر پڑھنا چاہتی تھیں، جس کی خاندان میں کسی نے حوصلہ افزائی نہ کی۔ ذہین طالبہ ہونے کی وجہ سے محض ساڑھے تیرہ سال کی عمر میں لدھیانہ کی کھیتی باڑی یونیورسٹی (agriculture university) میں داخلہ مل گیا، جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ فوڈ ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کا آغاز کیا، اس دوران شادی ہو گئی جس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ان کے خاوند ویٹرنری ڈاکٹر ہیں۔

ان دنوں کینیڈا میں ویٹرنری ڈاکٹرز کی مانگ تھی تو انہوں نے بھی درخواست جمع کرا دی۔ خیال تھا کہ کچھ وقت بتانے کے بعد واپس پنجاب آ جائیں گے، جہاں اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ درخواست منظور ہوئی تو دو بچوں کے ساتھ یہ چھوٹی سی فیملی کینیڈا چلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان واپسی کا سوچا تو بچے وہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوچکے تھے، انہیں بچوں کی تعلیم کے سبب وہاں رکنا پڑا۔ اب میاں بیوی دونوں نے کینیڈا میں اپنے قیام کوسنجیدگی سے لینا شروع کیا اور وہاں سے دوبارہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر کے سرٹیفیکیٹس لیے۔ اس طرح شوہر نے اپنی ویٹرنری ڈاکٹری اور انہوں نے سکول ٹیچر کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کر دیا۔

جنم بھومی سے اپنا اور بچوں کا تعلق قائم رکھنے کے لیے انہوں نے ایک فیصلہ یہ کیا کہ گھر پر ہمیشہ پنجابی بولی جائے گی۔ ہرکیرت کور نے دوسرا حل یہ نکالا کہ  لکھنا شروع کیا۔ لکھتے ہوئے کئی شبد ایسے آ جاتے، جنہیں استعمال کیے کافی سمے بیت چکا ہوتا، پھر وہ ان الفاظ کو بھی اپنی بول چال میں شامل کر لیتیں تاکہ یہ خوبصورت الفاظ دماغ کی سلیٹ سے مٹ نہ سکیں۔ انہوں نے اپنی والدہ، دادی، نانی، سہیلیوں اور دوسرے کرداروں کے بارے میں اپنی یادداشتیں لکھیں، پھر ان سترہ خاکوں پر مشتمل ان کی پہلی کتاب ’’پریاں سنگ پرواز‘‘ بھارت میں شائع ہوئی۔کتاب کوجہاںعمومی پذیرائی ملی وہاں پنجاب یونیورسٹی، پٹیالہ کے سکالر ڈاکٹر ستیش ورما نے بھی اسے خاص طور پر سراہا، ان کی زبان اور جزئیات نگاری کی تعریف کی۔ انہوں نے کتاب پر ایک مضمون لکھا جس کی بہت سے رسالوں میں چرچا ہوئی۔ایسے اہل علم سے حوصلہ افزائی ملنے پر وہ فکشن نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔ پھر ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ان کا ناول ’تیرے باجوں‘  شائع ہوا، اسے بھی انڈیا، کینیڈا اور امریکا میں پسند کیا گیا۔

اب انہوں نے سوچا کہ نئے ناول کا آغاز کرنے سے پہلے کچھ معاصر فکشن نگاروں کو پڑھ لیا جائے، تاکہ ان کے لکھنے کا انداز اور یہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے ایک بڑی کہانی کے ساتھ ساتھ مختلف چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو کس طرح بیان کیا ہے۔ تھوڑے بہت مطالعے کے بعد پھر قلم اٹھایا، اس دفعہ تین سو صفحات پر مشتمل ناول ’’تھوراں دے پھل‘‘ سامنے آیا۔ اس کو وہ اپنی سب سے اچھی تصنیف سمجھتی ہیں، جس کا انہیں بہت اچھا فیڈ بیک ملا۔ ان کی چوتھی کتاب ’’آدم گرہن‘‘ خواجہ سراؤں کی دکھ درد پر مبنی زندگیوں کے بارے میں ہے، جس کا آصف رضا نے شاہ مکھی رسم الخط میں ’’تیجی مخلوق‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔  اس کتاب کا ہندی اور انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے، جبکہ آڈیو بک بھی بنی ہے۔ہرکیرت کور کہتی ہیں، ’’جب آپ کوئی کہانی یا کسی بھی موضوع پر لکھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں پہلے سے یہ نہیں ہوتا کہ یہ اتنے صفحات پر مشتمل ہو گا۔ تخلیقی عمل بہتے پانی کی طرح ہے، جو اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ آپ نے پہلے سے طے کر لیا کہ اتنے صفحات لکھنے ہیں تو یہ سب آرٹیفیشل لگے گا۔‘‘

کینیڈین اور ہندوستانی ثقافت میں فرق کے بارے میں ہرکیرت کور بتاتی ہیں، ’’دونوں خطوں کے  کلچر میں بہت فرق ہے، ہم لوگ وہاں جا کے ان کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بن نہیں سکتے، اس طرح دونوں میں سینڈوچ بن کر رہ جاتے ہیں، مشرقی طرز زندگی چھوڑ سکتے ہیں نہ وہ بن سکتے ہیں، ہماری جنریشن نہ ادھر کی رہتی ہے نہ ادھر کی۔ جبکہ ہمارے بچوں کو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ چھوٹی عمر میں گئے اور خود کو وہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ پھر دوسرے فرق ہیں۔یہاں بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات حکومت کی ذمے داری ہے۔

ہندوستان کے برعکس غذا بھی خالص ملتی ہے۔  تو ہمیں انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ جسمانی صحت ہماری ترجیح ہونی چاہیے یا روحانی سکون، یا دونوں۔‘‘ ان کی نئی کتاب ’’میں اینج پردیسن ہوئی‘‘ اسی موضوع سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے اپنی پندرہ سالہ زندگی کا احوال، دیار غیر میں منتقل ہونے والوں کی مشکلات وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اب انڈیا سے کینیڈا میں سٹوڈنٹ بہت آ رہے ہیں، جنہیں پندرہ بیس برس پہلے جانے والے لوگ پسند نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو رہنے کی عقل نہیں ہے، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، جس طرح بھارت میں گندگی پھیلاتے ہیں اسی طرح یہاں کرتے ہیں، ان کی وجہ سے ملازمتوں میں کمی ہو گئی ہے کیونکہ وہ اجازت نامے کے بغیر کام کرتے ہیں۔ تو ہندوستان سے پہلے جو لوگ گئے اور اب جو جا رہے ہیں، ان کے بیچ ایک بہت بڑی دیوار ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے۔ جو بزرگ وہاں گئے، ان کی کہانیاں لکھی ہیں، وہ اولڈ ہومز میں بیٹھے ہیں، بچوں کے پاس ان کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔‘‘

پسندیدہ مصنفوں کے سوال پر وہ ڈاکٹر جسونت سنگھ اور ڈاکٹر دلیپ کور ٹوانہ  کا نام لیتی ہیں۔ ڈاکٹر وریام سنگھ سندھو کی بھی مداح ہیں۔ شاعری کے بجائے نثر شوق سے پڑھتی ہیں۔ اوشو کو بھی پڑھا۔ کہتی ہیں، ’’پڑھنے کے لیے بہت سی کتابیں رکھی ہوئی ہیں، لیکن کینیڈا میں آپ کو گھر کے اور باہر کے سب کام خود کرنے پڑتے ہیں، کھانا بنانا، صفائی اور خریداری وغیرہ۔ کوئی ملازم نہیں ہوتا۔ اس لیے وقت کی کمی کے باعث خواہش کے باوجود زیادہ نہیں پڑھ سکتی۔‘‘ ہرکیرت کور سمجھتی ہیں کہ معیاری ادب کسی بھی زبان میں ہو، وہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ تراجم ہو جاتے ہیں، آڈیو کتابیں بن جاتی ہیں۔ لیکن اپنی زبان میں لکھنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک میٹھی زبان فروغ پاتی ہے۔ایک تخلیق کار کے طور پر ان کا ماننا ہے کہ صرف کتابیں چھپوا لینا اور ان کے تراجم کرا لینا کافی نہیں۔ اگر آپ کا پیغام لوگوں تک نہیں پہنچا اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو یہ ساری سرگرمی بیکار ہے۔

ہرکیرت کور کے بقول، ’’یہ دکھ کی بات ہے کہ بھارت میں حکومت کی سطح پر پنجابی کو پروموٹ نہیںکیا جاتا۔ کسی بھی زبان کو سٹیٹس سمبل بنانا غلط ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزی یا ہندی کے بجائے پنجابی بولیں گے تو جاہل دکھیں گے، یا ان کو شرم آئے گی۔ اس فضول سوچ سے ہمیں باہر نکلنا ہو گا۔ میری ایسے لوگوں سے تکرار ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں اور اپنی طرف سے اس زبان کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ زبان بہت میٹھی ہے، اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ ‘‘وہ کینیڈا میں پنجابی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ڈاہاں انٹرنیشنل‘ کی خدمات کی معترف ہیں، جو جینوئن لوگوں کو سامنے لاتی ہے۔ یہ تنظیم پنجابی کا سب سے بڑا سمجھا جانے والا ایوارڈ ’دی ڈاہاں پرائز‘ بھی دیتی ہے، جو اس مرتبہ پاکستانی فکشن نگار مدثر بشیر کو ان کے پنجابی ناولٹ ’کون‘ پر دیا گیا۔ ہرکیرت کور کہتی ہیں، ’’میں ذاتی طور پر ایوارڈز کو اہمیت نہیں دیتی۔ میں چاہتی ہوں ایسا لکھا جائے جو معاشرے پر اثر انداز ہو اور مثبت تبدیلی لائے۔ مجھے جو عزت ملتی ہے، وہی میرے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔‘‘

ہرکیرت کور کو پنجاب کے روایتی کھانے پسند تو ہیں، لیکن زیادہ تر ایسے کھانے کھاتی ہیں جو آسانی  سے تیار ہو جائیں کیونکہ کھانا خود ہی بنانا ہوتا ہے۔ بالی وڈ کی پرانی فلمیں اور آرٹ موویز دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ تینوں ’خانز‘ کی اداکاری پسند ہے۔ موسیقی میں نصرت فتح علی خان کی بہت بڑی مداح ہیں، ہمیشہ ان کو ہی سنتی ہیں۔زمانہ طالب علمی میں ہاکی کی اچھی کھلاڑی تھیں۔ فوک ڈانس ٹیم کی بھی چار سال کیپٹن رہیں، اب بھی مختلف تہواروں میں فوک ڈانس کرنا اچھا لگتا ہے۔

کینیڈا میں تدریس کا تجربہ

جب میں نے پہلا انٹرویو دیا تو پرنسپل برادرعمار تھے، انہوں نے بتایا کہ پانچویں کی بہت شرارتی کلاس ہے، اس لیے پہلے ایک ہفتے کا ٹرائل کر لو، ورنہ چھوڑا تو دو مہینے کی تنخواہ دینا پڑے گی۔ میں نے کہا، نہیں ابھی کنٹریکٹ دیں، میں دستخط کر دیتی ہوں۔ وہاں پر طلبہ کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے، جس کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔ وہ پوچھتے ہیں: تم ہو کون مجھ سے پوچھنے والی، تمھیں میری پروا کیوں ہے، وغیرہ۔ میں پہلے دن کلاس میں گئی تو کچھ بچوں نے شرارت کی کوشش کی۔ میں نے ان کو ڈانٹا اور کہا ہندوستان میں استاد ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں۔ میرے پاس تمھارے ہر سوال کاجواب ہے۔ میں تم کو بتاؤں گی کہ مجھے تمھاری فکر کیوں ہے، میرے پاس تمھارے ہر سوال کا جواب ہے، پھر آپ کو میرے ساتھ بیٹھ کر میری بات سننا ہو گی۔

پڑھائی کا یہ ہے کہ وہاں پر نصاب خود بنانا پڑتا ہے، کتابیں خود سلیکٹ کرنا ہوتی ہیں تاکہ بچوں میں حساب، انگریزی اور دوسرے مضامین کی ایک خاص درجے کی قابلیت پیدا ہو جائے۔میری محنت کا یہ ثمر ملا کہ اسی شرارتی کلاس نے پھر تین برس لگاتار بہترین کلاس کا اعزاز حاصل کیا۔ میرے سٹوڈنٹس دوسری کلاس میں جانے کے بعد بھی مجھے یاد کرتے تھے۔ ٹیچنگ بہت پریکٹیکل ہے وہاں۔ کینیڈا والوں نے مجھے کینیڈین ٹیچر بنانے کی کوشش کی، لیکن میں ہندوستانی بھی رہی۔ کچھ چیزوں کا ہمیں زیادہ اچھا پتا ہے۔ وہ لوگ بھی میری محنت اور کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں۔

پاکستان آ کر کیسا لگا؟

جیسا میں نے سوچا تھا، میرا یہ دورہ اس سے بھی زیادہ اچھا رہا ہے۔ وہاں سے بھی لوگ محبت کے سندیش بھیجتے ہیں، بلکہ انہوں نے مجھے کہا کہ وہاں جا کر اس طرح اچھا اچھا بولنا۔لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جو لوگوں کا طرز عمل ہے وہ کتنا  خوبصورت ہے، شبدوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، جو پیار یہاں مل رہا ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے پاکستانی سیریل پسند ہیں۔ وہاں لوگ پاکستانی سیریل شوق سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی ڈراموں کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔ ابھی میں نے ’’الف اللہ اور انسان‘‘ دیکھا ہے یوٹیوب پر۔ تو لوگوں کی سطح پر کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے، ہمیں اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کوئی اچھا کام بھی کرے تو اس کے پیچھے ان کے کوئی مقاصد ہوتے ہیں، اس سیاست میں پڑنے کی ہمیں ضرورت نہیں۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔