کامیاب انسان سے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے ، بشریٰ فرخ

نوید جان  منگل 28 جنوری 2020
معروف شاعرہ، مصنفہ،کمپیئر اور اداکارہ بشریٰ فرخ کے حالات زیست

معروف شاعرہ، مصنفہ،کمپیئر اور اداکارہ بشریٰ فرخ کے حالات زیست

بعض لوگ قابل رشک ہوتے ہیں، جو دوسروں کے لیے بطور نمونہ پیش کیے جا سکتے ہیں کیوں کہ انہوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہوتے ہیںکہ دل چاہتا ہے انہی کی تقلید میں زندگی بسر کی جائے اور اگر ایسے گوہر نایاب کا تعلق صنف نازک سے ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک ہمہ جہت شخصیت  بشریٰ فرخ بھی ہیں جو بیک وقت ایک بہترین شاعرہ، مصنفہ، اداکارہ اور کمپیئر ہیں۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی سلیقے سے انجام دیں ،انہوں نے اپنے شوہرنامدارکی رحلت کے بعد نہ صرف شعروسخن کی مشقت جاری رکھی بلکہ اپنے بچوں کی بہترین اندازمیں تعلیم وتربیت کے لیے بہت سی مشکلات اورکھٹنائیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، بقول شاعر:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

معروف شاعرہ، مصنفہ، ادکارہ،کمپیئر اور اناؤنسر بشریٰ فرخ 16 فروری 1957کو پشاور میں شیخ سلطان محمد کے ہاں پیدا ہوئیں جو ایک سرکاری افسر تھے۔ 1979 میں پی ٹی وی پشاور سنٹر کے اس وقت کے معروف اورکہنہ مشق پروڈیوسر فرخ سیر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، بڑی خوش گوار اور بھرپور زندگی بسر ہو رہی تھی کہ اچانک ان سے ان کے مجازی خدا کا سہارا چھن گیا اور وہ ان کو داغ مفارقت دے گئے۔ یہ آج سے بیس سال قبل کی بات ہے، اس وقت ان کی چاروں بیٹیاں بہت چھوٹی تھیں جن کی پرورش اور بہترتعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری ان کے ناتواں مگر حوصلہ مندکندھوں پر آن پڑی اورانہوں نے یہ کرکے دکھایا بھی۔ چاروں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اوراب خیر سے ان میں تین اپنے گھروں میں خوش وخرم زندگی بسرکررہی ہیں جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی ایک کاروبارکا انتظام بڑی کامیابی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔

چھے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔ بشریٰ فرخ نے ابتدائی تعلیم بیگم شہاب الدین سکول، انٹر فرنٹیئر کالج فار وویمن سے پاس کیا، اسی دوران شادی ہوئی اور باقی تعلیم کاسلسلہ پرائیویٹ طور پر جاری رہا۔ ان کی فنی زندگی کاآغاز تقریباً 14 سال کی عمرمیں ریڈیو پاکستان اورپی ٹی وی سے ہوا۔ اس وقت چکلالہ  سے صوبے کے لیے ایک گھنٹہ کا پروگرام ’’آغوش کوہستان‘‘ ہوا کرتا تھا، جس میں پشتو، اردو اور ہندکو ڈراموں سمیت مختلف قسم کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ بشریٰ فرخ بھی وہاں سے ان تمام پروگراموں کا کسی نہ کسی طریقے سے حصہ ہواکرتی تھیں۔ ان کو پشاور سنٹر سے پہلی اناؤنسمنٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے اور یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا۔ انہوں نے اردو، پشتو اور ہندکو تینوں زبانوں میں جی بھرکے کام کیاکیوں کہ اس وقت شوبزمیں خواتین کی تعداد بہت قلیل تھی جس کے باعث ان کو کام کرنے کا زیادہ موقع ملا۔

بچپن کے بارے میں بتاتی ہیں، ’’کوئی  خاص مشغلہ تو نہیں تھا لیکن جہاں سے بھی کوئی کتاب، اخبار یا رسالہ مل جاتا اسے ختم کرکے چھوڑتی، جس سے وقت کٹنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ والدہ نے گھریلوکام کاج خصوصاًسلائی کڑھائی پر خصوصی توجہ دینے کی ہمیشہ ترغیب دی۔ ہاں شرارتیں بھی خوب کیں لیکن اس کے باوجود کلاس میں ہمیشہ پوزیشن بھی لیاکرتی تھی۔‘‘گھر کے ماحول میں فلمیں دیکھنے کا کوئی تصور نہیں تھا البتہ ٹی وی پرکام کے بعد ایک آدھ فلم دیکھنے کا موقع ملا جس میں ’انسانیت‘ اور ’توبہ‘ جیسی سماجی رویوں پر مبنی فلمیں شامل ہیں۔ فن کاروں میں وحید مراد اورزیباکے کام نے متاثرکیا۔

بشریٰ فرخ سمجھتی ہیں کہ آج کل زیادہ تر مائیں پڑھی لکھی ہیں اوروہ اپنے بچوں کی عصری تعلیم پر خصوصی توجہ بھی دے رہی ہیں جس کے باعث بچے اچھی ملازمتیں بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس سب سے ضروری امر بچوں کی اخلاقی تربیت ہے، جس میں اکثر والدین کم زور نظر آتے ہیں یا اس جانب کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ ان کی دینی اوراخلاقی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ایک کامیاب انسان سے پہلے اچھے انسان بن سکیں۔گھر کا ماحول ادبی تھا، والد صاحب پڑھنے کے شوقین تھے، والدہ نے چھوٹی چھوٹی باتوں کی بہت اچھی تربیت دی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میری والدہ ان پڑھ تھیں لیکن انہوں نے ہماری تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، انہوں نے ہماری دینی تعلیم پر بھی خاص توجہ دی۔‘‘

بشریٰ فرخ پاکستان کی چندگنی چنی خواتین شاعرات میں شمار ہوتی ہیں۔ آپ نے ریڈیو پاکستان  اور پاکستان ٹیلی ویژن پر چاردہائیوں میں بطور اناؤنسر، کمپیئر، ڈرامہ آرٹسٹ اورمصنفہ اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا۔ آپ کو خیبرپختون خوا کی واحد آرٹسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جنہوں نے اردو، پشتو، ہندکواورانگریزی زبانوں میں کام کیا۔ آپ کو پی ٹی وی پشاورسنٹر سے اولین کمپیئر اورڈرامہ آرٹسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بشریٰ فرخ نے دو ہزار سے زائد ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگراموں اور ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے، ان میں ریڈیو پروگرام ’’قہوہ خانہ‘‘ مسلسل پندرہ سال تک سند قبولیت حاصل کرتا رہا، اسی طرح مسلسل گیارہ سال تک اردوکمرشل  پروگرام کو بھی اپنی میٹھی آواز اور نفیس لب ولہجہ سے مزین کرتی رہیں، جب کہ ان کا ہی ایک اور پروگرام ’’ہماری دنیا‘‘ بھی مسلسل دس سال تک سامعین کے کانوں میں رس گھولتا رہا۔

اس کے علاوہ بشریٰ فرخ 20 سال سے ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ نو کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں سے پانچ کتابوں کو ایوارڈز مل چکے ہیں۔ ان کو خیبرپختون خوا کی پہلی صاحب کتاب نعت گو شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کے نعتیہ مجموعے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کو حکومت پاکستان کی طرف سے قومی سیرۃ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ جانی پہچانی شاعرہ اپنے ملک کے علاوہ متعدد دیگر ممالک میں مشاعروں اور کانفرنسز کے سلسلے میں جاچکی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پرکئی ایوارڈز اورگولڈمیڈلزحاصل کرچکی ہیں، ان کی ادبی اورفنی خدمات کے اعتراف میں پشاوریونی ورسٹی سے ایم اے اورقرطبہ یونی ورسٹی سے ایم فل کی سطح پر مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ خیبرپختون خوا میں خواتین لکھاریوں کی تنظیم ’’کاروان حوالٹریری فورم‘‘ کی چیئرپرسن ہیں اورخواتین لکھاریوں کو آگے لانے کے لیے اپنا کردارادا کر رہی ہیں۔وہ وویمن رائٹرفورم کی جنرل سکرٹری کے عہدے پرخدمات دیتی رہی ہیں جب کہ اس تنظیم کی چیف آرگنائزر بھی رہ چکی ہیں۔

آپ کے پہلے مجموعے ’’ایک قیامت ہے لمحہ موجود‘‘ نے روزن انٹرنیشنل ادبی ایوارڈ بھی جیتا ہے، جب کہ آپ کی پہلی اوردوسری تصنیف کو اباسین آرٹس کونسل کی جانب سے سردار عبدالرب نشتر ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ مذکورہ  تصانیف کے اب تک کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ وہ شاعری میں بلیغ علامات اور خوبصورت استعاروں کو شاعری کی روح کا نام دیتی ہیں۔

تمام فنون لطیفہ کو قدرت کی جانب سے ایک مقدس عطیہ قرار دیتی ہیں، ادب  کو ایک سماجی عمل اوراپنے ماحول کا ترجمان گردانتی ہیں۔ ادب اور فن کی دنیا کو پیار و محبت کی خوب صورت دنیا کا نام دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا شعر شوہر کی قبر پر پڑھا، ان کی بہت خوش گوار زندگی گزر رہی تھی لیکن شوہرکی اچانک موت نے انہیں جھنجھوڑ کے رکھ دیا، وہ بہت زیادہ افسردہ رہنے لگیں جس کے باعث باقاعدہ شاعری کی طرف راغب ہوئیں اوراپنا پہلا ہی شعر اپنے شریک حیات کی قبر پر کھڑے ہوکرکہا۔ ویسے تووہ سبھی شعراء جن کاکلام معیاری ہو شوق سے پڑھتی ہیں لیکن پروین شاکر، احمد فراز اور فیض احمد فیض کو کافی دلچسپی سے پڑھتی ہیں۔

بشریٰ فرخ نے ادبی  تنظیم برائے خواتین کاروانِ حوّاکے بارے میں بتایا، ’’اس کا قیام جنوری 2017  میں عمل میں لایاگیا،جس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ خیبرپختون خوا کے قدامت پسند معاشرے میں عورت کی آواز باوقار انداز میں پیش کرنے کے لیے اس سے قبل ایسی کوئی تنظیم نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ہم نے اس کا بیڑا اٹھایا، قلیل عرصہ میں یہ تنظیم افسانہ نگاروں، ناول نگاروں،کالم نگاروں اور شاعرات کا کارواں لے کر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور خواتین شعراء کو صوبے کی سطح پرایک پلیٹ فارم مل گیا۔ تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایسی لکھاری خواتین کو سامنے لایاگیا جو لکھ رہی تھیں اورایسی بھی  جولکھ لکھ کر رکھ  رہی تھیں، اس تنظیم نے ان لکھنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کرکے ایک پلیٹ فارم مہیاکیا۔‘‘

بشریٰ فرخ کہتی ہیں، ’’کھانے میں جوچیز بھی سامنے آئے اللہ کی نعمت سمجھ کر خوب کھاتی ہوں۔ منافق اورخوشامدی لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہوں، کھرے اور صاف گو لوگ اچھے لگتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنا رکھا ہے۔‘‘ وہ خودکو حسن پرست کہتی ہیں اورسمجھتی ہیں کہ اگر حسن وعشق کی بات کی جائے تو حقیقت میں یہ کوئی طے شدہ فارمولا نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ خیالات و تجربات میں بتدریج تبدیلیاں حسن وعشق کے معیار بھی بدلتی رہتی ہیں۔

جب نیا نیا شعور سنبھالا تو وہ لوگ بہت حسین لگتے جوکھلتے رنگ اور خوبصوت نقش و نگار کے مالک ہوتے۔ پھر زندگی کے معاملات نے ایک دوسرے کے ساتھ ڈوریں اْلجھائیں، پتہ چلا حسن یہ تو نہیں، جن رشتوں نے اونچ نیچ میں سنبھالا، احساس کیا، وہ جو ہر مرحلے پر مضبوط سہاروں کی طرح کھڑے رہے، تو اندر کے حسن سے آگاہی ہوئی، اصل خوبصورتی کا پتہ چلا۔ پھر حسین چہرے اور خوبصورت نقش و نگار پسِ منظر ہوگئے، خوبصورتی کا پیشِ منظر واضح ہوتا چلا گیا۔ یہی عشق کا معاملہ ٹھہرا  مگر یہ ضرور جانا اور سیکھاکہ زندگی میں اگر عشق نہیں تو بے رنگ ہے سب کچھ۔ اپنوں سے، رشتوں سے، کام سے،مقصد سے، منزل سے، ارادے سے، عزم سے، ایمان سے، سچے جذبوں سے، سچے احساس سے، عشق ہے تو زندگی میں زندگی ہے، اور یہ سب نہیں ہے تو انسان  ’’جیسے ہے جہاں ہے‘‘  کی بنیاد پر زندگی گزار کر چلا جاتا ہے۔ وہ جو قلندر اقبال کہہ گئے تھے کہ ’’مجھے عشق کے پر لگا کر اْڑا‘‘  تو جس بھی عمل میں عشق کی سرگرمی نہیں وہاں زندگی نہیں۔ خود سے خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی عشق ہی ہے۔

نظریے کے بغیر ادب کی تخلیق ممکن ہے؟ اس سوال پرکہتی ہیں کہ ’’نظریہ ایک لفظ نہیں، نظریے کی تو بہت سی اقسام ہیں: معاشرتی نظریہ، معاشی نظریہ، سماجی نظریہ، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور ملکی نظریہ۔کسی بھی نظریہ پر مستحکم سوچ جو عملی زندگی کی آئینہ دار ہو، اس کے بغیر تو ادبی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ہم جو بھی لکھتے ہیں ذہن کے پردوں پر کوئی نہ کوئی نظریات چل رہے ہوتے ہیں  اور یہی وجہ تخلیق بنتے ہیں۔ ملکی حالات کے بارے میں بشریٰ فرخ کہتی ہیں، ’’ملکی حالات سے میں توکیاکوئی بھی مطمئن نہیں، اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ ’گھری ہوئی ہے سیاست، تماش بینوں میں۔‘ نئے سیاست دانوں سے جو اْمیدیں باندھی تھیں ابھی تک کوئی امید بر نہیں آئی، جو وعدے عوام سے کیے تھے، وفا نہ ہوئے۔ ہم جیسے لوگ جو ادبی زندگی میں ہی رہتے ہیں، سیاست کی گہرائیوں میں نہیں اْترتے مگر جن  معاملات کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہے اس سے متاثر ضرور ہوتے ہیں، یوٹیلٹی بلزکی بھاری ادائیگی، اشیاء ضرورت پر بے انتہا مہنگائی، تو نا اْمیدی بڑھتی جاتی ہے۔‘‘

بشریٰ فرخ کے بقول، ’’میں اپنی ذاتی رائے کے حوالے سے بات کروں تو مسائل کا حل ایک دم نہیں ہوا کرتا، آہستہ آہستہ ہی سہی  اچھے نتائج تو آنا شروع ہوں گے۔ اگرتعلیم کے شعبوں میں بہتری پیداکی جائے، بنیادی تعلیم لازمی اور مفت ہو، علاج کی سہولت ہر فرد کے لیے ہو، صاف پانی اورخالص غذا ہر ایک کومیسر ہو، روزگار اوربہتر تنخواہیں ہوں، قابلیت کی بنیاد پر ملازمتیں ملیں، جعلی اور مہنگی ادویات کا خاتمہ ہو، سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے رویوں میں شائستگی ہو، مذہبی اور اخلاقی تعلیم کا فروغ ہو،کرپشن کا خاتمہ زور زبردستی سے نہیں، خوفِ  خدا سے ہو۔ غریبی اوربھوک کفر تک لے جاتی ہے اور اس کے ذمہ دار حکم ران ہیں۔ ریاستِ مدینہ اور خلافتِ  عمرؓکی محض مثالوں سے بات نہیں بنتی،کچھ عملی مظاہرہ ہو تو بات بنتی نظر آئے۔ ہماری پس ماندگی کے جو اسباب نظرآتے ہیں مجھے تو یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں بے بس عوام پستی ہے، حکم رانوں کی پرتعیش  زندگی غریب عوام کا استحصال ہے۔

لوٹی ہوئی دولت واپس آتی ہے نہ محل فروخت ہوتے ہیں بلکہ ان کی تحقیق و تفتیش میں بھی عوام کا ہی پیسہ لگ رہا ہے جو ٹیکسوں کی صورت عوام سے کھینچا جا رہا ہے۔ سب حکم ران ہی ہیں، لیڈرکوئی نہیں، لیڈر تو وہ ہے جو وژن رکھتا ہے، عوام کے لیے درد رکھتا ہے، صرف وعدے نہیں کرتا۔ سیاست تو ہاتھیوں کی جنگ ہے،کبھی پلڑا اس طرف اورکبھی اْس طرف، سادہ عوام تو محض مہرے ہیں، چند سکوں کے عوض استعمال ہوتے ہیں، غربت کے ہاتھوں تنگ آکر کچھ لالچ کے عوض دھرنوں میں استعمال ہو جاتے ہیں۔‘‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس  سے ادب اورکتاب کلچرکو لاحق خطرات کے بارے کہتی ہیں،  ’’میں نہیں سمجھتی کہ اس سے کوئی خطرات ہیں بلکہ یہ توادب کے فروغ کی راہ ہموارکر رہے ہیں، تعلیم کا شعبہ ہو یاکھیل کا، زراعت ہو یا صنعت و تجارت، طب کا شعبہ ہو یا میدان جنگ، لباس،کھانا، سفر، سواری، رہن سہن غرضیکہ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر دوبارہ بستر پر جانے تک انسان ٹیکنالوجی میں گھرا ہوا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو تو بہت آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہماری طرز زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، ہماری سوچ و فکر،گفتگو، تہذیب و ثقافت کو بدل کررکھ دیا ہے، یہ اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔مثبت اثرات کی بات کریں تو مشاہدے میں آ رہا ہے کہ جوتعلیم کا نظام متعارف کروایاگیا ہے، تو جو لوگ کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

دینی تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی نے بہت سہولیات فراہم کی ہیں۔ بہت سی کتب ڈیجیٹل موڈ میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جن تک رسائی پہلے عام طالب علم کے لئے نہایت مشکل تھی، بہت سی قیمتی کتب کا ذخیرہ، احادیث اور اہم علماء کے آڈیو، ویڈیو دروس بآسانی انٹرنیٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ادبی مواد لامحدود انٹرنیٹ پر دستیاب  ہے، ہر قسم کی کتب، تاریخی، اسلامی، معاشی، سیاسی، ناول، افسانے، کہانیاں  ہماری دسترس میں ہیں تویہ بہت ہی فائدے کی بات ہے کہ ہم ایک کلک پر اپنی مطلوبہ مطبوعات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی نے تو ادب کے فروغ میں بہت ہی طاقتورکردار ادا کیا ہے۔‘‘

ادب اور سیاست کے بارے میںکہتی ہیں، ’’کوئی بھی تخلیق کار اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا، وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے محسوس کرتا ہے اور پھر لکھ ڈالتا ہے۔ سیاست بھی نگارشات کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ جیسے حبیب جالب نے کھل کر لکھا، اپنے اپنے دورکے صاحبِ کمال مولانا حسرت موہانی اور ان کے ہم عصر، فیض و فراز، ان سب نے سیاست کو موضوعِ سخن بنایا۔ حکومتوں پر تنقیدکی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگرجوکہا ببانگِ  دہل کہا توکوئی بھی تخلیق کار سیاست سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔‘‘

تصانیف اور ایوارڈز

اک قیامت ہے لمحہ موجود (اردوشاعری) ، ادھوری محبت کا پوراسفر (اردوشاعری) ، بہت گہری اداسی ہے (اردوشاعری) ، محبتاں دے مزاج وکھرے (ہندکوشاعری) ، جدائی بھی ضروری ہے (اردوشاعری) ، خمینی کے ایران میں (سفرنامہ) ، ورفعنالک ذکرک (نعتیہ مجموعہ) ، مجھے آواز مت دینا (اردوشاعری) ، توکجا من کجا (نعتیہ مجموعہ)

بشریٰ فرخ کو ملنے والے مختلف ایوارڈز کی تعداد ڈیڑھ سو سے  زائد ہے ۔ چند قابل ذکر ایوارڈز یہ ہیں: سردارعبدالرب نشتر ایوارڈ (گولڈمیڈل) ، ہندکو ورلڈ کانفرنس ایوارڈ، بزم بہارادب سلور جوبلی ایوارڈ، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایوارڈ، فروغ ادب ایوارڈ، روزن انٹرنیشنل لٹریری ایوارڈ، تانگ وسیب ایوارڈ، خیبرکالج آف کامرس شیلڈ، عظیم ویلفیر سوسائٹی ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ (بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ)، اگفاایوارڈ، فرنٹیئر کلچرکلب ایوارڈ، فرنٹیئرآرٹس کونسل ایوارڈ، میر آرٹس سوسائٹی ایوارڈ، پاکستان آرٹسٹ اکویلیٹی ایوارڈ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔