سانحہ بلدیہ، عزیر بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹی منظر عام پر لانے کا حکم

نمائندہ ایکسپریس  منگل 28 جنوری 2020
 وفاقی وزیر علی زیدی نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل جے آئی ٹی پبلک کرنے کی درخواست دائر کی تھی

وفاقی وزیر علی زیدی نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل جے آئی ٹی پبلک کرنے کی درخواست دائر کی تھی

 کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر علی زیدی کی درخواست پر سانحہ بلدیہ فیکٹری، فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق چیرمین نثار مورائی اور لیاری گینگ کے سرغنہ عزیر بلوچ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس (جے آئی ٹی) پبلک کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس شمس الدین عباسی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سانحہ بلدیہ، نثار مورائی اور گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹیز پبلک کرنے سے متعلق فیصلہ سنادیا۔

عدالت نے وفاقی وزیر علی زیدی کی تین اہم جے آئی ٹیز منظر عام پر لانے کی درخواست منظور کرلی۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل شہری کی حیثیت سے دائر درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ جے آئی ٹی میں قتل وغارتگری کی وجوہات کا پتا لگا لیا گیا ہے لیکن حکومت چھپا رہی ہے۔

علی زیدی نے کہا تھا کہ بلدیہ فیکٹری میں 2 سو سے زائد افراد کو زندہ جلا کرراکھ کردیا گیا، گینگ وار کے عزیر بلوچ نے لیاری کو جنگی زون بنایا ہوا تھا، کراچی میں ہونے والی قتل و غارتگری میں پولیس اور سرکاری افسران بھی ملوث رہے، اب وہ پولیس اہلکار اور افسران ترقی کرچکے ہیں اور اہم عہدوں پر تعینات ہیں، چیف سیکریٹری سندھ ان افسران کو بچانا چاہتے ہیں۔

سرکاری وکیل کا موقف تھا کہ حساس معاملہ ہے اس لیے جے آئی ٹیز پبلک نہیں کرسکتے لہذا درخواست مسترد کردی جائے۔

تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے، کیا سانحہ بلدیہ کے متاثرین کو حق حاصل نہیں کہ وہ حقیقت جان سکیں، 259 مقتولین کے اہل خانہ کے علم میں آنا چاہیے کہ واقعہ کے کون کون ذمہ دار تھے، وحشیانہ طرز کے واقعے سے متعلق حقیقت جاننا متاثرین کا حق ہے کہ واقعہ میں کون ملوث تھا۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگائی تھی جس سے 259 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ عزیر بلوچ کے خلاف مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔ پی پی پی کے رہنما اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ چل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔