- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
ججز ریفرنس کیس؛ یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا حساب برابر کرنا چاہتے ہیں، وکیل
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ججز ریفرنس کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ جج سمیت کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں۔
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار کے وکیل رشید رضوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے ، جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گا، حکومت اور ایجنسیوں کو آزاد عدلیہ کبھی پسند نہیں آتی، دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے، لیکن پاکستان میں ججز کو ہٹانا سب سے آسان ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیا آپ آئین پر تنقید کر رہے ہیں؟ ، ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آئین میں واضح ہے، سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے، نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے، جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں۔
رشید اے رضوی نے کہا کہ ریفرنس کی سمری انکوائری بشمول جاسوسی پر مبنی ہے، 12 مئی 2007 سانحے پر فیصلہ جسٹس کے کے آغا نے دیا، جسٹس کے کے آغا کو بھی ریفرنس میں نشانہ بنایا گیا، وسیم اختر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ 12 مئی کو اسکی ہدایات پر کراچی میں سڑکیں بلاک ہوئیں، میں نے دیوار کو کود کر ججز کو سندھ ہائیکورٹ میں جاتے دیکھا ہے، بیرسٹر فروغ نسیم 12 مئی 2007 کے مقدمہ میں ایڈووکیٹ جنرل تھے، اس وقت فروغ نسیم وزیر قانون ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ 3 نومبرکو آئین کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
رشید اے رضوی نے کہا کہ 3 نومبر 2007 کو وہی ہوا جو 12 مئی 2007 کو ہوا، یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ (حساب برابر) کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثہ جات کی برآمدگی کے یونٹ (اے آر یو) نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیا، اعلی عدلیہ کے ججز کو ایسی انکوائری کے ذریعے ملزم نہیں بنایا جاسکتا۔
عدالت نے جسٹس فائز عیسی کی درخواست کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔