امید پر دنیا قائم ہے

مناظر علی  بدھ 29 جنوری 2020
اگر یہ امید ہی ختم ہوجائے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر یہ امید ہی ختم ہوجائے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مسائل سے گھبرا کر خودکشی کرلینا بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں، کیوں کہ مرنے کےلیے بھی عام آدمی کو اپنے خاندان کی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اگر وہ مرگیا تو پھر مہنگائی کے اس دور میں اہل خانہ اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کےلیے رقم کہاں سے لائیں گے؟ اس کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ محنت کرے اور اچھے دنوں کی امید رکھے۔ خواہ وہ اس کی زندگی میں کبھی آئیں یا نہ آئیں، مگر امید پر کون سے اخراجات آتے ہیں؟ مفت کی ہے، لگاؤ جتنی لگانی ہے۔ ویسے بھی تو کہا جاتا ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ اگر یہ امید ہی ختم ہوجائے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟

مجھے یہاں اپنے گاؤں کا ’’دوسا کمہار‘‘ یاد آگیا جس کی عمر اب ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہوگی۔ وہ شادی کا لڈو کھانے کے انتطار میں کئی سال پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔ لوگ اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اس سے سارا سارا دن کام کراتے اور شام کو کھانا کھلا کر یہ امید دلا دیتے کہ تمہاری شادی کا کچھ کرتے ہیں۔ وہ یہی امید لیے لوگوں کے کام کرتا رہتا۔ دن بھر کی مزدوری اسے کھانے اور ایک امید کی صورت میں ملتی کہ تمہاری شادی کا کچھ کرتے ہیں، گھبرانا نہیں، جلدی ہوجائے گی۔

دوسا اس امید پر بھی خوش رہتا کہ ممکن ہے کبھی اس کی دلہن بھی اس کا انتظار کرے گی۔ ممکن ہے کبھی اس کے آنگن میں بھی بچے اسے ابا، ابا کہیں گے۔ سب امکانات کو قبول کرتے ہوئے اس کی زندگی کا پہیہ چلتا رہا اور اب جب کہ وہ زندگی کے اس حصے میں ہے، جہاں پاکستان میں رہنے والوں کی اوسط عمر ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو دوسا اپنی اوسط عمر پوری کرچکا ہے۔ اب اگر اس کی شادی ہو بھی جائے تو کتنے سال یہ خوشی انجوائے کرسکے گا؟

یہی صورتحال کچھ ہماری ہے کہ قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی ورنہ پاکستان وہی بن چکا ہوتا جس کےلیے اسلاف نے قربانیاں دیں اور علامہ اقبال نے خواب دیکھا۔ وہ تو اپنا فرض پورا کرگئے اور یہ ذمے داری اس کے بعد برسراقتدار آنے والے حکمرانوں پر چھوڑ گئے۔ یہ حقیقت ہے، خواہ تلخ ہے کہ یہاں کے باشندوں کو دوسا کمہار کی طرح امید سے زیادہ کچھ زیادہ نہیں مل سکا۔ عوام کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر ووٹ لیے جاتے ہیں، مگر بعد میں ’’تو کون اور میں کون‘‘۔

کوئی بات نہیں۔ ہمیں پھر امید ہے۔ کیوں کہ امید دلانے والے پھر امید دلا رہے ہیں۔ ہم یقین کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں کہ یقین کرنا ہی بنتا ہے۔ ان کے وعدوں پر، ان کے دعوؤں پر۔ یہ دعوے سچ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر سچ ثابت ہوگئے تو کیا پتہ پاکستان وہ بن ہی جائے جس کے خواب اسلاف نے دیکھے تھے۔

وزیراعظم پاکستان کراچی میں ’’کامیاب جوان‘‘ پروگرام کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مافیا کو ایک ایک کرکے پکڑیں گے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ وقت مشکل ہے اور قوم کےلیے آزمائش ہے۔ مگر گھبرانا نہیں کیوں کہ برا وقت سکھاتا ہے۔ انہوں نے اور بھی بہت سی حوصلہ افزا باتیں کیں، جیسا کہ وہ پہلے بھی کرتے ہیں۔ ہمیں ان سے ذرا بھی اختلاف نہیں۔ جب تک پانچ سال پورے نہیں ہوتے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے وعدہ خلافی کی۔ بہرحال ہمیں پانچ سال انتظار کرنا ہے اور امید کے سہارے کرنا ہے۔

مگر انتظار بھی تو ہر بندے کے بس کی بات نہیں۔ جس کے گھر فاقوں کی نوبت ہوگی، جس کے گھر آٹا نہیں ہوگا، چاول نہیں ہوں گے، مکان کا کرایہ دینے کے پیسے نہیں ہوں گے، بیٹی کی شادی کےلیے جہیز نہیں ہوگا، بیمار بیٹے کے علاج کی سکت نہیں ہوگی۔ وہ بھلا کیسے پانچ سال انتظار کرسکتا ہے؟ معاشی بحران کے نام پر جس کی نوکری نہ رہی ہو، جس کا کاروبار ٹھپ ہوچکا ہو۔ وہ کہاں جائے گا؟ زندگی اس کےلیے عذاب سے کم تر نہیں اور مرنا اس احساس کے ساتھ مشکل ہے کہ اہل خانہ کا کیا بنے گا؟ پھر ایسا بندہ کیا کرے؟

خان صاحب امیدیں تو بہت دلاتے ہیں اور وہ کوشش بھی کررہے ہیں۔ مگر خالی جیب طبقے کو صرف ایک بات کا جواب دیں کہ وہ صرف امید پر زندگی کیسے گزاریں؟ جناب عالی! آپ مخالفین کی تنقید کو چھوڑیں، آپ بے جا کالم لکھنے والوں کی بات پر بھی یقین نہ کریں۔ آپ کسی دن بھیس بدل کر عام لوگوں کے درمیان پہنچ جائیے۔ آپ کسی بیروزگار باپ کی اپنی بیوی سے گفتگو سننے چلے جائیے۔ آپ کسی کچی آبادی کے کم آمدن والے گھرانے کے بجٹ کا جائزہ لیجئے۔ آپ مزدور کی بے بسی کو خود قریب سے دیکھیں۔ آپ کسی بیمار کے گھر چلے جائیے اور اس کے اخراجات اور آمدن کا حساب لگائیے۔

جناب! آپ کرپٹ عناصر کا جو چاہے حشر کریں، مگر عوام کو امیدوں کے سوا بھی کچھ دے دیجئے۔ امید پر دنیا قائم تو ہے مگر کب تک؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔