کیا ن لیگ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے؟

مزمل سہروردی  بدھ 29 جنوری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیار ی کر رہی ہے۔ اس ضمن میں متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ میڈیا میں ایسی خبریں شایع ہوئی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ن لیگ نے پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔

میری اطلاعات کے مطابق یہ خبریں غلط ہیں۔ ن لیگ نے پنجاب میں عدم اعتماد لانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ن لیگ کے ایجنڈے  میں موجودہ حکومت کو گرانے کی کوئی حکمت عملی شامل نہیں ہے۔ ن لیگ مرکز اور پنجاب میں حکومتوں کو گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ن لیگ کے اندر دن بدن یہ رائے مضبوط ہو رہی ہے کہ خاموشی کی سیاست کے مثبت ثمرات سامنے آرہے ہیںاور مثبت اثرات کو قائم رکھنا ہی اصل ہدف ہے۔ ن لیگ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتی جس سے مثبت ثمرات کا عمل رک جائے۔

ن لیگ یہ بھی سمجھتی ہے کہ سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے کوئی مثبت اثرات سامنے نہیں آئے۔ یہ ایک گناہ بے لذت ثابت ہوا تھا۔ اس تناظر میں ن لیگ نے ایک سبق سیکھ لیا ہے کہ ووٹ چاہے پورے ہوں لیکن اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی میں عدم اعتماد لانے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔لہذا ن لیگ مزید کوئی عدم اعتماد لانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔

ن لیگ کے اندر یہ سوچ بھی ہے کہ اگراس موقع پر عدم اعتماد لائی جائے گی تو اس کا تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا۔ ن لیگ کے اندر یہ سوچ ہے کہ ابھی تو تحریک انصاف کے اندر اختلافات شروع ہوئے ہیں۔ ابھی تو فارودڑ بلاک کی بنیاد پڑی ہے۔ ابھی تو ایک دوسرے سے ناراضگیاں شروع ہوئی ہیں۔ اس لیے اگر اس موقع پر عدم اعتماد لائی گئی تو یہ سب ناراضگیاں بھلا کر ن لیگ کے خلاف اکٹھے ہو جائیں گے۔ یوں تحریک انصاف کا فائدہ ہو جائے گا۔ اس لیے عدم اعتماد نہیں لانی چاہیے بلکہ اس ساری گروپنگ کو مضبوط ہونے کے لیے وقت دینا چاہیے۔

پنجاب میں تبدیلی کے لیے سب جانتے ہیں کہ ن لیگ اور ق لیگ کو ہاتھ ملانا ہو گا۔ بظاہر یہ آسان لگتا ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ ق لیگ وزارت اعلیٰ سے کم نہیں مانے گی۔ ن لیگ کو چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ ماننا ہوگا۔ ن لیگ کے لیے یہ کوئی کڑوی گولی نہیں بلکہ زہر کا پیالہ ہے۔ یہ درست ہے کہ انتخابات کے بعد ن لیگ کے اندر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ ماننے کے لیے تیار تھی۔ اس ضمن میں ن لیگ کی جانب سے رابطہ بھی کیا گیا تھا۔ تا ہم تب چوہدری برادران نے وزارت اعلیٰ کو ٹھکرا دی۔

یہ وہ وقت تھا جب ن لیگ محاذ آرائی کی سیاست کر رہی تھی۔ لیکن اب ن لیگ محاذ آرائی کی سیاست نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے  اب دونوں جماعتوں کو مقتدر قوتوں کی آشیر باد چاہیے جو اس وقت موجود نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی ماحول گرم ہونے کے باوجود دونوں جماعتوں کی قیادت نے باضابطہ طور پر ایک دوسرے سے رابطے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ دونوں طرف اس بات کا احساس ہے کہ ابھی تبدیلی کا کوئی ماحول نہیں ہے۔ ویسے بھی ن لیگ کے اندر ایک خوف بھی موجود ہے کہ اگر چوہدری پرویز الہیٰ  وزیر اعلیٰ بن گئے تو ن لیگ کے ارکان  توڑ لیں گے۔ اس لیے  انھیں وزیر اعلیٰ قبول کرنے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔

پنجاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے ن لیگ اکیلی کافی نہیں ہے۔ پی پی پی کے چند ووٹ بھی اہم ہیں۔ ق لیگ کے ووٹ بھی اہم ہیں۔اس تناظر میں سوشل میڈیا پر پی پی پی کے صوبائی لیڈر کا ایک کلپ بہت وائرل ہوا ہے جس میں وہ اسپیکر پرویز الٰہی کو کہہ رہے تھے کہ اگر پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن جائیں تو وہ اسپیکر بن جائیں گے۔ یہ کلپ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ کسی بھی تبدیلی کی صورت میں پی پی پی اپنے چند ووٹوں کو بھر پور کیش کرانے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ اس طرح اگر پی پی پی نے بھی بڑا حصہ لینا ہے تو ن لیگ کے لیے کیا بچ جائے گا۔اگر دونوں چھوٹی جماعتوں نے بڑا حصہ مانگنا ہے تو ن لیگ کے لیے کیا بچے گا۔

ن لیگ یہ بھی سمجھتی ہے کہ صرف پنجاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ صرف پنجاب میں تبدیلی کی تمام کو ششیں ناکام ہو جائیں گی۔ پنجاب سے پہلے مرکز میں تبدیلی آئے گی تو اس کے بعد پنجاب میں تبدیلی کی راہ ہموا ر ہوگی۔ اگر پنجاب میں تبدیلی پہلے آئے گی بھی تو اس کے اگلے دن مرکز میں بھی تبدیلی آجائے گی۔ یہ ممکن نہیں کہ مرکز میں تو عمران خان وزیر اعظم برقرار رہیں اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ ایسے یہ نظام چل نہیں سکتا۔ جن قوتوں نے پنجاب میں تبدیلی کا فیصلہ کرنا ہے وہ صرف پنجاب میں تبدیلی کا فیصلہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انھیں دونوں جگہ تبدیلی کا فیصلہ اکٹھاکرنا ہوگا۔

اب  ن لیگ کی پالیسی میں تبدیلی آچکی ہے۔ اب ن لیگ مفاہمت کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے اور مفاہمت کے ثمرات سمیت رہی ہے۔ مفاہمت کی اس پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ بھی ہے کہ اقتدار لینے کی کوئی کوشش نہیں کرنی۔ بلکہ جب اقتدار دینے کی پیشکش کی جائے تب ہی اقتدار کی کوشش کرنی ہے۔ اقتدار کے لیے کسی بھی قسم کی لڑائی لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب وہ چاہیں گے خود ہی اقتدار دے دیں گے۔

ن لیگ اس امید میں ہے کہ عمران خان کی بری کارکردگی اور اس کی مفاہمت کی سیاست ن لیگ کے لیے اقتدار کی راہ خود بخود ہموار ہو جائے گی۔ ملک کا معاشی بحران اور عمران حکومت کی نا اہلی ن لیگ کی راہ ہموار کردے گی ۔ کچھ امیدیں چین سے بھی ہیں۔ ن لیگ امید کر رہی ہے کہ سی پیک پر موجودہ حکومت کی بری پالیسی سے چین ناراض ہو رہا ہے۔ اس لیے چین سی پیک کی کامیابی کے لیے ن لیگ کی واپسی میں اپنا کردار ادا کر ے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جب سی پیک پر چین اور امریکا کے درمیان مکالمہ ہوا تو ن لیگ نے چین کی حمایت کی اور سی پیک کی حمایت کی۔ حالانکہ حکومت خاموش رہی۔

ن لیگ کو امید ہے کہ اگر پاکستان نے سی پیک پر واپس آنا ہے تو ن لیگ کو بھی واپس آنا ہے۔ اب یہ خوا ب ہے تو الگ بات ہے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں شہباز شریف کے چین اور سی پیک کے حق میں ٹوئٹ اس پالیسی کا واضح ثبوت ہیں۔ ن لیگ اب مفاہمت سے اقتدار کا دروازہ کھولنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس ضمن میں انتظار کیا جائے گا۔ باقی مفاہمت کے ثمرات مل رہے ہیں، ان کو سمیٹا جائے گا اور مزید ثمرات کے لیے بات کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔