بھارتی شہریوں کی سانجھا پیر کے مزار تک رسائی محدود

آصف محمود  بدھ 29 جنوری 2020
پاک بھارت سرحد پر واقع مزار پر جمعرات کو عقیدت مندوں کی بڑی تعداد حاضری دیتی ہے

پاک بھارت سرحد پر واقع مزار پر جمعرات کو عقیدت مندوں کی بڑی تعداد حاضری دیتی ہے

 لاہور: پاکستان اوربھارت کی سرحدپرواقع بزرگ صوفی باباگلاب حسین شاہ المعروف سانجھا پیرکامزار بھی اب سانجھا نہیں رہا ہے۔ 

پاک بھارت کشیدگی اورسرحدی تنازعات کی وجہ سے بھارتی بارڈرسیکیورٹی فورس انڈیا نے اپنے شہریوں کی سانجھاپیرکے مزارتک رسائی محدود کردی ہے اورانہیں بھارتی حدود کے اندر لگائی گئی باڑ سے آگے آنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، پاک بھارت انٹرنیشنل بارڈواہگہ سے شمال کی جانب چند کلومیٹرکے فاصلے پر حضرت باباگلاب شاہ المعروف سانجھاپیرکا مزارہے، یہ مزارپاکستان کے سرحدی گاؤں ایچوگل اورٹھٹھہ ڈھلواں کے قریب واقع ہے، یہ مزارپاک بھارت زیرولائن کے اوپرہے، باباگلاب شاہ کی قبرکا سروالاحصہ بھارت جب کہ پاؤں والاحصہ پاکستان میں ہے۔ یہاں ہرجمعرات کو مقامی لوگوں اورعقیدت مندوں کی بڑی تعداد حاضری دیتی ،فاتحہ پڑھتی اورچراغ جلاتئ ہے جب کہ ہرسال کے دیسی مہینے بھادوں کی گیارہ اوربارہ تاریخ کویہاں عرس ہوتا ہے۔عرس میں پاکستان اوربھارت دونوں جانب سے ہزاروں عقیدت مندشریک ہوتے اورمنتیں مانگتے ہیں تاہم اب کچھ عرصہ سے بھارتی زائرین کی آمدکا سلسلہ روک دیاگیا ہے۔

یہاں کے مقامی رہائشی علی رضانے بتایا کہ پاکستان اوربھارت کے مابین کشیدگی ، اسمگلنگ کے واقعات اورغیرقانونی بارڈر کراسنگ کی وجہ سے اب بھارتی بارڈرسیکیورٹی فورس کی طرف سے بھارتی شہریوں کو مزار پرآنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اوروہ لوگ بھارتی حدود میں لگی باڑ کے قریب کھڑے ہوکرہی دعائیں مانگتے اورواپس چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ایسا نہیں تھا ،یہاں جب بھارتی زائرین آتے تو پاکستانیوں کواس دن اجازت نہیں دی جاتی تھی اورجب پاکستانی یہاں آتے تواس دن بھارتی زائرین کو اجازت نہیں دی جاتی تھی لیکن اب بھارت کی انتہاپسندی اورنفرت کی پالیسی نے سانجھاپیر کی محبت کوبھی تقسیم کردیا ہے۔

سانجھاپیرمزارکے گدی نشین بابا آصف علی قادری کا تعلق ایچوگل گاؤں سے ہے، انہوں نے بتایا کہ حضرت باباگلاب حسین شاہ المعروف سانجھاپیرتین، ساڑھے تین سوسال قبل بغداد سے ہندوستان تبلیغ کے لئے آئے تھے۔ اس مقام پرانہوں نے پڑاؤ کیا، یہ زمین ایک ہندوزمیندارکی تھی جس نے باباجی کواپنا مہمان بنایا اوران کی خدمت میں لگارہتا تھا، باباگلاب شاہ کے انتقال کے بعد اسی جگہ ان کی قبربنادی گئی، وہ ہندوزمینداربھی مسلمان ہوگیا اوراس کی قبربھی باباگلاب شاہ کے قدموں کی جانب موجود ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق 1947 میں جب ہندوستان کا بٹواراہوا تو باباگلاب شاہ کا مزارآدھا پاکستان اورآدھا ہندوستان کی طرف آگیا۔سرحد کی نشاندہی کے لئے مزارکے سنٹرسے تارگزاری گئی، تاہم اگلے روز تاربھارت کی حدودمیں پڑی تھی،اس بات پرپاک بھارت سیکیورٹی حکام مین تلخ کلامی ہوئی تودوبارہ تاربچھائی گئی تواگلے روزیہ پاکستانی حدودمیں پڑی تھی۔دونوں ممالک نے سیکیورٹی والوں میں ایک بارپھرایک دوسرے پرالزامات لگائے گئے اوریہ فیصلہ ہوا ہے کہ دونوں جانب کے لوگ رات کوپہرہ دیں گے اوردیکھیں گے کہ تارکی جگہ کون تبدیل کرتاہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق رات کو دونوں جانب کے جوانوں نے دیکھا کہ مزارکے درمیان میں بچائی گئی تارخودبخودایک جانب ہوگئی ہے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب مزارکوتقسیم نہیں کیاجائیگا۔

مزارپردوردرازسے لوگ آتے اورمنتیں مانگتے ہیں، مزارکے قریب ہی پاکستان رینجرزپنجاب کی چیک پوسٹ ہے جہاں پرآنے جانیوالوں کا نام پتہ لکھا جاتا اورچیکنگ کی جاتی ہے، زیرولائن پرہونے کی وجہ سے مزارکی ویڈیوبنانے کی بھی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی اپنی جگہ تاہم بھارت کو اپنے شہریوں کو مزارتک آنے سے نہیں روکناچاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔