مظلوم ترین مخلوق

نسیم انجم  اتوار 17 نومبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

حال ہی میں ہماری نگاہ سے یہ خبر گزری کہ خواتین کی کبڈی ٹیم بھی بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔ پنجاب اسپورٹس بورڈ نے مختلف کھیلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھلاڑیوں کو منتخب کرکے کیمپ میں شریک کیا ہے۔ خواتین نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نمایندہ ایکسپریس کو بتایا کہ یہ کھیل خالصتاً مردوں کا ہے، اسکواش، کرکٹ، ہاکی، مارشل آرٹس اور سوئمنگ کے مقابلے میں ہمیں شرکت کرنے میں کوئی دشواری نہیں تھی لیکن کبڈی میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ انھوں نے اس شرط پر کھیلنے کے لیے رضامندی ظاہر کی کہ خاتون کوچ انھیں ٹریننگ دے، مگر ایسا نہیں ہوسکا اور ابھی تک مرد آفیشلز ہی کیمپ چلا رہے ہیں۔

بات ہے تو قابل توجہ اور افسوسناک کہ ایک اسلامی ملک میں مسلم خواتین کو ایسے کھیل کھیلنے کی ترغیب دی جارہی ہے، جس کے کھیلنے سے مستورات کا وقار مجروح ہوتا ہے اور پھر طاقت اور گرانے، پچھاڑنے کا مظاہرہ گراؤنڈ میں کیا جائے اور ساتھ میں بے شمار تماشبین بھی موجود ہوں۔ سوچیے کہ کیسا لگے گا، پہلے ہی پاکستان میں روشن خیالی کا نام لے کر بھرپور اور ہر طریقے سے آزادی فراہم کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین لباس اور شرم و حیا کے معاملے میں مغرب اور بھارت جیسے ملک کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا اور ہے۔ پھر خواتین کا مارشل آرٹس کے مقابلوں میں حصہ لینا اور جوڈو کراٹے کے ذریعے اپنے حریف کو پسپا کرنے کا کھیل بھی خواتین کو زیب نہیں دیتا ہے۔ ہم نے گراؤنڈ میں خواتین اور کمسن لڑکیوں کو باآواز بلند دھاڑتے، چنگھاڑتے اور اپنی ایک ٹانگ کی ضرب سے چیزوں کو توڑتے پھوڑتے اور کئی حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے حیرت سے دیکھا، سچی بات تو یہ ہے کہ نہ ہمیں یہ کھیل لڑکیوں کے حوالے سے پسند آیا اور نہ ان کا لباس جو ایک ٹراؤزر اور جرسی کی شکل میں تھا، رہا دوپٹہ یا اسکارف تو اس کا اس کھیل میں بھلا کیا کام؟ دوپٹہ تو دوسرے کھیلوں میں بھی نہیں اوڑھا جاتا، دوپٹہ دور ہوتے ہوتے بہت دور چلا گیا ہے۔

خصوصاً نئے نئے امیر ہونے والے خاندانوں یا پھر جنھیں ہم برگر فیملی کہتے ہیں۔ اس طبقے کی خواتین ببانگ دہل ایسی ایسی منطق پیش کرتی ہیں جن کا اسلام اور تہذیب سے دور دور کا واسطہ نہیں، لیکن ان میں بھی کچھ گھرانے ایسے ہیں جو اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پردے، اسکارف اور مکمل لباس پہننے کی کس قدر اہمیت اور افادیت ہے، ساتھ میں ایک مسلمان عورت کی شناخت بھی۔ عورت کے ساتھ ہر دور میں زیادتی کسی نہ کسی شکل میں کی گئی ہے۔ کبھی آزادی کی آڑ میں اسے سبز باغ دکھائے گئے ہیں، کبھی فنکار بنا کر اس کی قیمت وصول کرلی گئی ہے، وہ آج اپنی بدقسمتی اور کوتاہ عقلی کے سبب شاہراہوں میں، ہوٹلوں اور کلبوں میں بذریعہ تصویر چسپاں کردی گئی ہے۔ اس کی خوبصورت تصویر کے بغیر کوئی بھی فلمی یا غیر فلمی رسالہ مکمل نظر نہیں آتا۔ اشتہارات میں کام کرنے کی قیمت اسے بہت کم ملتی ہے اس قیمت سے کئی گنا زیادہ رقم شوبز کے مالکان کے حصے میں آتی ہے اور وہ یہ کام بھی پیسہ کمانے کے لیے ہی تو کرتے ہیں۔

خواتین کے حوالے سے ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ راتوں رات معصوم لڑکیاں اغوا ہوجاتی ہیں اور جلد سے جلد فروخت بھی کردی جاتی ہیں۔ فروخت ہونے والی یہ لڑکیاں عزت کی زندگی گزارنے کے لیے ترس جاتی ہیں۔ عورت کی خرید و فروخت میں بڑے بڑوں کا ہاتھ ہے، عورت ہر زمانے میں دکھ سہنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ ہند و پاک میں ہی عورت پر ظلم و ستم نہیں ڈھایا جاتا ہے، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اسے ہر طرح سے اذیت دی جاتی ہے۔ مغربی ممالک کا بھی یہی حال ہے، بظاہر وہ مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ اپنے تمام امور انجام دے رہی ہے لیکن شب و روز کی مشقت کرنے کے بعد اس پر کیا گزرتی ہے وہی جانتی ہے، اسے آزادی راس نہیں آتی ہے اسے سنگل پیرنٹس (Single Parents) بن کر اپنے بچوں کو پالنا پوسنا پڑتا ہے اور جب زندگی آرام و سکون کی طلبگار ہوئی، جسمانی اعضا کمزور ہو جاتے ہیں تو اس کی ہی اولاد اسے ’’اولڈ ہوم‘‘ میں پھینک آتی ہے۔ اور سال کے خاص دنوں میں اپنے ماں باپ سے ملاقات کرنے ان کے بچے آتے ہیں۔ پاکستان کی ہی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ بے شمار معصوم بچیوں کی زندگیوں کو برباد کیا جاتا ہے۔

بھارت میں حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا جب چار پانچ ان عورتوں کو جن کے بچے بھی تھے، ڈائنیں (ڈائن) کہہ کر زندگی سے محروم کر دیا گیا۔ ہندو مذہب میں عورت کو ماضی کے زمانے میں بھی ستی کیا جاتا تھا اور آج بھی عورت کے ساتھ ظالمانہ رویہ روا رکھا گیا ہے۔ اور ظلم پر مزید ظلم ڈھایا جاتا ہے ایک تو یہ ہی تباہی کیا کم ہے کہ وہ بیوہ ہوگئی، زمانے اور گھر والوں کی نظروں میں اس کی عزت جوتی کے برابر سمجھی جانے لگی، اس پر طرہ یہ کہ اسے اپنے قدموں پر ہی چل کر مردہ شوہر کے ساتھ جلنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان کبھی ترقی کی راہوں پر گامزن تھا، لیکن آج صورت حال قطعی مختلف ہے۔ شاید اس پر عذاب نما مصیبتیں اور آفات نازل ہورہی ہیں۔ ملک میں خون خرابا روز کی کہانی بن گئی ہے۔ ان حالات میں حکمرانوں کو صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لیے راہیں ہموار کرنی چاہئیں اور جو نوجوانوں کے حقوق اور ان کی ضرورتیں ہیں انھیں فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین کو بے جا آزادی دینے سے گریز کرنا ان کا فرض ہے۔ آزادی عزت و احترام جو عورت کو اسلام نے بہم پہنچائی ہے، وہ عزت عورت کو دوسرا مذہب نہیں دے سکتا۔ لیکن جہالت و گمراہی کی بنا پر اس کے اپنے ہی گھر والے اس پر جور و جفا کرنے سے باز نہیں آتے۔ ایک طرف معاشرتی حالات ابتر ہیں، دوسرے گھروں میں بھی عزت و تحفظ ناپید ہوگیا ہے۔ آج بے شمار خواتین خصوصاً نئی نویلی دلہنیں زندہ جلادی جاتی ہیں کہ وہ زیادہ جہیز نہ لاسکیں، کچھ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے اور یہ پھینکنے والا غیر نہیں اس کا شوہر یا سابقہ خاوند ہوتا ہے، ہوتا مرد ہی ہے۔

ایک نہیں ہزاروں خواتین جو بیوہ و بے سہارا ہیں ان کے گھر کمانے والا کوئی نہیں تو ان خواتین کو ماہانہ رقم فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔ ویسے ہی آج کل سڑکوں سے بسیں اور کوچیں غائب ہوگئی ہیں، یہ محنت کش خواتین راتوں کو کس اذیت کے ساتھ گھر لوٹتی ہیں۔ ان کے لیے سواری کا ہی بندوبست کردیا جائے نہ کہ اس صنف نازک کو کبڈی جوکہ غیر مہذبانہ کھیل ہے وہ کھلوایا جائے، ایسے کھیلوں کی نہ انسانیت اجازت دیتی ہے اور نہ مذہب، جہاں خواتین عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کی متلاشی ہیں وہاں ان کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں۔ لیکن مغرب کی خوشی اور اپنی عزت ہی کا سر راہ تماشا دکھانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اور انھیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کبڈی جیسا خالص مردانہ کھیل کھیلیں۔ بھلا سوچنے کی یہ بات ہے کہ اس کھیل سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ کیا ڈرون و خودکش حملوں کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کو استحکام نصیب ہوگا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔