پہلے جمہوریت اس قابل تو ہو

محمد سعید آرائیں  جمعـء 31 جنوری 2020

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ ڈیووس میں کہا ہے کہ ملک میں سیاسی حکومتوں سے ماضی میں فوج سے کشیدگی کی وجہ کرپشن تھی جب کہ موجودہ حکومت کو فوج سمیت تمام اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں اکنامسٹ ڈیموکریسی انڈیکس جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں جمہوریت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ادوار سے کم ہے۔

پاکستان میں جمہوریت 108 ویں نمبر پر ہے۔ اکنامسٹ ڈیموکریسی انڈیکس میں جمہوریت کا پیمانہ 5 عناصر پر مشتمل ہے اور 167 ممالک میں انتخابی عمل، تکثیریت، حکومت کے کام کرنے کے انداز، سیاسی عمل میں شرکت اور جمہوری سیاسی کلچر و شہری آزادیاں شامل ہیں۔

یہ سروے جو عالمی سطح پر جمہوری معاملات دیکھنے کے لیے 2006ء میں شروع ہوا تھا، جس میں اب کہا گیا ہے کہ یہ تمام عوامل زوال کا شکار ہیں اور دنیا میں صرف بائیس ممالک ایسے ہیں جن کے 43 کروڑ عوام جمہوریت کے مکمل ثمرات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں ملک میں جمہوریت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے مقابلے میں کم ہے۔

موجودہ حکومت ملک کی واحد جمہوریت ہے جس کے ڈیڑھ سالہ دور میں وزیر اعظم نے ملک کے اہم معاملات پر اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا کیا نہ ملکی حالات پر سیاسی جماعتوں کی کوئی اے پی سی بلائی۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے ماضی کے دعوؤں سے قبل نواز شریف پر یہ تنقید کرتے تھے کہ وہ پارلیمنٹ میں کم آتے ہیں۔ ان کا کہنا درست تھا مگر اپنے دعوے کے برعکس وہ بھی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں کم آئے اور انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقلید کی جن کا شرمناک ریکارڈ یہ بھی تھا کہ وہ وزیر اعظم بن کر ایک سال سے زائد عرصے تک ایوان بالا سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آئے تھے۔

پارلیمنٹ میں شرکت کا سب سے اچھا ریکارڈ پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا رہا ہے اور تینوں سابق وزرائے اعظم مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ایک کو سزا ہو چکی ہے دوسرا قید اور تیسرا نیب چیئرمین کی پالیسی کے تحت آزاد تو ہے مگر پی پی کے دو اور مسلم لیگ کا ایک سابق وزیر اعظم دنیا میں نہیں ہیں۔ ملک میں دو سابق نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد اور غلام مصطفیٰ جتوئی بھی فوت ہوچکے اور متعدد منتخب اور نگران وزرائے اعظم ملک سے باہر اور ملک میں موجود ہیں مگر ان میں کوئی ایک بھی نیب کے ریڈار پر خوش قسمتی سے نہیں ہے۔

ملک میں فوج کے ذریعے طویل اقتدار میں رہنے والے سابق غیر منتخب صدور جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تھے اور جنرل یحییٰ کا عرصہ اقتدار دوسرے جنرلوں سے کم تھا مگر چاروں میں کسی پر بھی کرپشن کا کوئی الزام لگا نہ کوئی گرفتار ہوا اور تین مرحوم فوجی صدور فوجی اعزاز سے دفنائے گئے جب کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف حیات اور دبئی میں علاج کرا رہے ہیں اور واحد زندہ فوجی حکمران رہے ہیں جن کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ذاتی عداوت کے باعث وزیر اعظم نواز شریف کو دھمکی دے کر آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ بنایا تھا۔ دوسرے چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے بھی مشہور ہے کہ انھوں نے بھی مبینہ طور پر ذاتی عداوت پر جی ٹی آئی بنوائی تھی اور انھی کی سربراہی میں پہلے نواز شریف برطرف ہوئے اور جے آئی ٹی کے الزامات پر انھیں احتساب عدالت سے سزا ہوئی تھی۔

جنرل پرویز مشرف کے سوا کسی بھی فوجی سربراہ پر کبھی کوئی مقدمہ نہیں بنا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بلا شبہ عدلیہ سے محاذ آرائی کی تھی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت متعدد ججوں کو برطرف کیا تھا مگر یہی جنرل پرویز مشرف ایک بار ریفرنڈم اور دوسری پر جمہوری اسمبلیوں سے صدر منتخب ہوئے تھے جب کہ جنرل ایوب خان نے بھی خود کو بی ڈی سسٹم کے تحت صدر منتخب کرایا تھا جب کہ جنرل ضیا بھی ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب ہوئے تھے اور ان کے تمام فیصلوں کی پارلیمنٹ نے توثیق کی تھی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا تھا اور مقررہ مدت میں عام انتخابات کرانے کا حکم بھی دیا تھا جو انھوں نے غیر جماعتی طور پر کرائے تھے۔ جنرل ضیا نے بھی 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے اور ملک کو ایک محب وطن اور اچھی شہرت والا وزیر اعظم محمد خان جونیجو دیا تھا جنھوں نے اپنا ایک وفاقی وزیر کرپشن کے الزام میں برطرف کیا تھا جب کہ آج تک کسی بھی جمہوری وزیر اعظم نے کرپشن کے الزام میں محمد خان جونیجو کی طرح فوری ایکشن لے کر اپنے کسی کرپٹ وزیر کو برطرف نہیں کیا۔

جمہوری کہلانے والی پی پی حکومت میں دفاعی امور کے وزیر عبدالقیوم جتوئی کو فوج سے متعلق غلط بیان پر فوری ہٹایا گیا تھا مگر موجودہ وزیر اعظم کی کابینہ میں ٹی وی ٹاک شو میں اچانک بیگ سے فوجی بوٹ نکال کر میز پر رکھنے اور اپنی یہ قابل اعتراض حرکت قوم کو دکھانے اور پاک فوج کو متنازعہ بناکر مسلم لیگ (ن) اور پی پی کو فوجی بوٹ چاٹنے کی بات کرنے والے وزیر اعظم کے قابل اعتماد فیصل واؤڈا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی کیونکہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت جمہوریت کی دعویدار ہے جس کے دعوے کو عالمی ادارے اکنامسٹ ڈیموکریسی انڈیکس نے پی پی اور (ن) لیگ کی جمہوریتوں سے کم قرار دیا ہے۔

موجودہ حکومت جو کرپشن ختم کرنے کے دعوے پر اقتدار میں آئی تھی مگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے سروے میں پی پی اور (ن) لیگی دور کی کرپشن سے موجودہ دور کی حکومت میں ہونے والی کرپشن کو زیادہ قرار دیا ہے۔

ماضی میں نواز شریف تین بار اسمبلیوں کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور خود کو وزیر اعظم سے زیادہ بادشاہ سلامت بن کر ملک میں حکومت کرتے تھے اور خود کو پاک فوج سے اوپر اور فوج کا سپریم کمانڈر سمجھتے تھے حالانکہ آئینی طور پر ملک کا صدر مملکت فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔ نواز شریف کی اپنے ہی لائے گئے فوجی سربراہوں سے کبھی نہیں بنی اور انھوں نے فوجی معاملات بھی اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی جس سے ان کے فوج سے اختلافات پیدا ہوئے۔

وزیر اعظم انتظامی سربراہ ہوتا ہے جب کہ فوج اور عدلیہ کے اپنے سربراہ ہوتے ہیں۔ چونکہ عدلیہ کے برعکس آرمی چیف کا تقرر وزیر اعظم کا اختیار ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو فوج کا اصل سربراہ سمجھتا ہے اور آرمی چیف کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔ آرمی چیف سیاسی عہدہ نہیں ہے۔ ایک فوجی افسر برسوں فوج میں گزار کر آرمی چیف وزیر اعظم کی مرضی سے ضرور بنتا ہے مگر وہ اپنی کمان میں کام لینے کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔

آرمی چیف فوج کے معاملات کا ذمے دار ہوتا ہے اور جو کچھ ملکی دفاع کے لیے بہتر سمجھتا ہے وہی کرتا ہے جب کہ وزیر اعظم کو اپنی سیاسی حکومت کے معاملات دیکھنا اور ملک کو قانون کے مطابق چلانا ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے مگر وزیر اعظم بنتے ہی سیاسی حکمران خود کو تمام اداروں سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے اداروں میں غیر قانونی مداخلت اور من مانی اپنا اختیار سمجھتا ہے۔

ملک میں گزشتہ تین عشروں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تین تین بار اقتدار میں آئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات میں مقدمات بنائے۔ دونوں کی حکومتوں میں بلاشبہ دل کھول کر بدعنوانیاں اور من مانیاں ہوئیں۔ دونوں پارٹیوں کے اقتدار کرپشن کے باعث چار بار ختم ہوئے مگر کسی نے کرپشن تسلیم نہیں کی اور مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیا۔ چار بار سیاسی حکومتوں کی برطرفیاں منتخب سویلین صدور کے ہاتھوں ہوئیں۔

پی پی اور مسلم لیگ کی جو دو حکومتیں فوجی جنرلوں نے برطرف کیں اس کے مطالبے سیاسی رہنماؤں نے ہی کیے تھے کیونکہ ملک میں سیاسی برداشت کا نہیں سیاسی انتقام ہی ہر پارٹی کی ترجیح رہا ہے۔ اگر بھٹو اور نواز شریف اپنے مخالفین کے دشمن نہ بنتے اور مخالفت برداشت کرتے تو ملک کو بچانے کے لیے فوجی مداخلت نہ ہوتی۔ فوج کی ترجیح اپنے معاملات رہی ہے مگر اسے سیاست میں گھسیٹا گیا۔ فوج اور عدلیہ میں کرپشن پر گرفت کا اپنا نظام ہے مگر سیاسی حکومتوں نے سیاسی انتقام کے لیے ایک دوسرے کا احتساب یکطرفہ کرا کر احتساب کو خود مذاق بنایا۔

جنرل پرویز مشرف کا احتساب کرانا بھی سیاسی اور انتقامی ضرور تھا مگر یہ موقعہ انھیں سیاستدانوں نے دیا تھا۔ جمہوریت کی شناخت پارلیمنٹ ہے جہاں وزیر اعظم ہی نہیں ان کے وزرا اور خود ارکان تک پابندی سے نہ آئیں، ایوان خالی نظر آئیں، قائمہ کمیٹیوں کو سرکاری افسران بھی اہمیت نہ دیں، سینیٹ میں کھڑے ہوکر تائید کرنے والے خفیہ رائے شماری میں منحرف ہو جائیں تو ایسی جمہوریت اس قابل ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی طاقت منوا سکے جو خود اس قابل نہ ہو وہ جمہوریت اپنے عوام کو کیسے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔