انسانی عزّت و وقار کی تجارت

مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی  جمعـء 31 جنوری 2020
 کیا لڑکی والوں سے تحائف کے نام پر رقم اور جہیز کا مطالبہ تجارت اور اپنے لڑکے کی قیمت لگانا نہیں ہے؟ فوٹو : فائل

کیا لڑکی والوں سے تحائف کے نام پر رقم اور جہیز کا مطالبہ تجارت اور اپنے لڑکے کی قیمت لگانا نہیں ہے؟ فوٹو : فائل

دنیا میں کتنی ہی چیزوں کی تجارت ہوا کرتی ہے، معمولی اور قیمتی ہیرے موتی سے لے کر ریت اور مٹی کے ڈھیر، بل کہ غلاظتوں تک کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔

کسی زمانے میں انسان کی بھی تجارت ہوا کرتی تھی، اب بھی سنا ہے کہ افریقا کے بعض غریب ممالک میں انسان خریدے اور بیچے جاتے ہیں، گاہے گاہے مسلم ممالک میں بھی ایسی خبریں منظر عام پر آجاتی ہیں کہ غریب اور فاقہ کش ماں باپ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کچھ پیسوں کے عوض فروخت کر دیا۔ یقینا خونِ جگر پلا کر اپنے بچوں کی پروَرِش کرنے والے ماں باپ ایسے موقعوں پر خون کے آنسو روتے اور اشک ِحسرت ان بچوں کے قدموں پر نچھاور کرتے ہوئے انہیں رخصت کرتے ہوں گے۔

لیکن انسانی تجارت کی ایک اور قبیح صورت ہے، جو اِس وقت سماج کے مہذب لوگوں کے درمیان رائج ہے، جس میں انسان اپنے لڑکوں کو آپ فروخت کرتا ہے اور فروخت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں حسرت و افسوس کے نہیں، بل کہ خوشی کے آنسو ہوتے ہیں۔ دل حسرت و یاس کی تپش سے ابلتا نہیں، بل کہ حسین آرزوؤں کے تصور سے اچھلتا اور کودتا ہے، یہ عجب منڈی ہے جہاں پڑھے لکھے، اہل دانش، اصحابِ ثروت، اعلیٰ عہدوں پر فائز خوشی سے اپنے لڑکوں کا سودا لے کر آتے ہیں اور اس کی تعلیم، معاشی امکانات، خاندانی پس منظر، یہاں تک کہ شکل و صورت اور آباء و اجداد کی شرافت کی دہائی دے کر ڈاکا ڈالتے اور زیادہ سے زیادہ قیمت کے خواست گار ہوتے ہیں، انہیں اپنے لڑکوں کو فروخت کرنے اور ان کی جوانی کی قیمت لگانے میں نہ شرم ہوتی ہے، نہ کوئی عار!

آپ سوچیں گے یہ کون سی منڈی ہے ۔۔۔ ؟ کیا کوئی ماں باپ اپنے لڑکوں کو بیچ بھی سکتا ہے، کہیں انسانوں کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے، کیا عہد غلامی پھر واپس لوٹ آیا ہے ۔۔۔ ؟

لیکن آپ کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا پورا سماج انسانی تجارت کا مرکز بنا ہوا ہے، ہر گھر میں ایک دکان ہے، اور ہر خاندان میں کچھ تاجر اور کچھ گاہک ہیں۔ کیا لڑکی والوں سے کسی عنوان سے رقم وصول کرنا، ان سے جہیز کا مطالبہ کرنا، اپنے مہمانوں کو ان کے سر تھوپ دینا اور ان سے من پسند کھانا طلب کرنا، تجارت اور اپنے لڑکے کی قیمت لگانا نہیں ہے ۔۔۔ ؟ قیمت روپوں میں بھی ادا کی جاتی ہے، سامان و اسباب کے ذریعے بھی اور ہوٹلوں میں شکم پروَرِی کے ذریعے بھی، یہ سب قیمت کے مختلف عنوان اور الگ انداز ہیں۔ لڑکا اور اس کے والدین ان تمام طریقوں سے اپنی قیمت وصول کرتے ہیں اور لڑکے کی جوانی کا منہ مانگا دام پاتے ہیں، اس کے تجارت ہونے میں کیا شبہ ہے ۔۔۔ ؟

اﷲ تعالیٰ نے ایک ہی ماں باپ سے مرد و عورت دونوں کو پیدا کیا ہے، جیسے مردوں کے حقوق ہیں، ویسے ہی عورتوں کے، بل کہ قرآن نے کہا ہے کہ اُصولی طور پر مرد و عورت دونوں حقوق میں برابر ہیں البتہ صلاحیتوں کے تفاوت کے اعتبار سے تقسیم کار ہے اور بعض ذمے داریوں میں مرد و عورت کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔

مرد کو سربراہِ خاندان قرار دیا گیا اور مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ فوقیت دی گئی لیکن یہ فوقیت محض مرد ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، بل کہ مردانہ فرائض اور بہ حیثیت سربراہِ خاندان خرچ کرنے کی وجہ سے ہے۔ غرض مرد کو جو فضیلت و برتری دی گئی ہے وہ اس وجہ سے کہ وہی مالی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھاتا ہے، اسی لیے کسب ِمعاش کی ذمے داری مرد کے سپرد کی گئی۔ اور اُمورِ خانہ داری کو عورتوں سے متعلق کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ گھر میں رہا کریں کہ ان کی عزت شمع خانہ بن کر رہنے میں ہے، نہ کہ شمع محفل بننے میں۔ اسی لیے ساری مالی ذمے داریاں مردوں ہی سے متعلق رکھی گئی ہیں، مہر اسے ادا کرنا ہے، دعوتِ ولیمہ اس کی ذمے داری ہے، پھر نکاح کے بابت لڑکی کی تمام ضروریات اس سے متعلق ہیں۔

اگر کوئی شخص اپنی ان مالی ذمے داریوں سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے اور الٹے لڑکی اور اس کے اولیاء سے اپنی قیمت وصول کرتا ہے، تو یہ نہایت ہی شرم ناک بات ہے۔ جوانی کی قیمت تو جانوروں کی لگائی جاتی ہے اور اعلیٰ نسل کے جانور حاصل کیے جاتے ہیں، کیا شادی کے موقع پر لڑکے والوں کی جانب سے مطالبہ اس حیوانی کردار کی پیروی نہیں ہے ۔۔۔ ؟ اور جو لوگ پیسے لے کر شادی کرتے ہیں، کیا وہ مردانہ تعظیم و وقار اور بہ حیثیت شوہر تکریم و توقیر کے مستحق ہیں ۔۔۔ ؟ جب کہ قرآن نے مردوں کو بلند رتبہ اس بنیاد پر دیا تھا کہ وہ خرچ کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’ اُونچا یعنی دینے والا ہاتھ نچلے یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری) تو جو شوہر اپنا ہاتھ نیچے رکھتا ہو اور اپنی بیوی اور اس کے اولیاء کو اپنا ہاتھ اُونچا رکھنے پر مجبور کرتا ہو، وہ کیسے اپنی بیوی سے بلند رتبہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ ؟ اگر دولت مند خود فقیر کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگے اور بادشاہ درویش کے سامنے اپنی کشکول رکھ دے، تو وہ فقیر و درویش بلند مرتبہ ہوگا، یا بادشاہ و غنی ؟

یہ ایک چبھتا ہوا ناگوارِ خاطر، لیکن برحقیقت سوال ہے اور جن لوگوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی قیمت لگا رکھی ہے، انہیں کبھی تنہائی میں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے۔ حقیقتیں تلخ ہوتی ہیں، لیکن دانا وہی ہوتا ہے جو حقیقت کے تلخ گھونٹ کو اپنے حلق سے اُتار لے! افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکیوں کی شادی کے وقت تو شریعت کی دہائی دیتے ہیں، لیکن لڑکوں کی شادی کے وقت شریعت کو بُھول جاتے ہیں، بل کہ شریعت کا ذکر بھی گراں خاطر ہوتا ہے۔

گویا شریعت پر عمل کرنا مقصود نہیں ہے، اصل مقصود نفس کے عفریت کا پیٹ بھرنا ہے۔ اس لیے کبھی پیسے بٹورنے کے غرض سے شریعت کے نام سے گریز کیا جاتا ہے، اور کبھی پیسا بچانے کے لیے شریعت کا نام استعمال کیا جاتا ہے، مقصود دونوں صورتوں میں اپنے مالی مفادات کو حاصل کرنا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سماج کے مزاج میں کتنا بگاڑ آچکا ہے، اور شریعت اور دین کو کس قدر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو مطالبات کیے جاتے ہیں، وہ رشوت کے زمرے میں آتے ہیں، رشوت کا لینا تو حرام ہے ہی، شدید ضرورت کے بغیر رشوت کا دینا بھی حرام ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت بھیجی ہے۔ (سنن ترمذی) آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ دونوں جہنمی ہیں۔ (مسند البزار) اس طرح نکاح کے موقع پر مطالبہ کرنے والے تو اپنے لیے جہنم خریدتے ہی ہیں، اور اﷲ کی لعنت کا طوق اپنے گلے میں لٹکاتے ہی ہیں، جو لوگ دینے پر مجبور نہ ہوں وہ بھی اپنے لیے جہنم اور خدا کی لعنت خرید رہے ہیں۔

سب سے زیادہ افسوس لڑکے کے بوڑھے والدین اور دوسرے اعزہ کی کم بختی پر ہوتا ہے کہ زیادہ تر وہی مطالبات کی فہرست بتاتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ حالاںکہ جب یہ سامان گھر میں آتا ہے، یا رقم لڑکوں کے ہاتھوں ملتی ہے، تو خود ان کو بہت کم اس سے استفادے کا موقع بہم پہنچتا ہے، زیادہ تر گھر میں آنے والی بہو اور اُس کا شوہر ہی نفع اندوز ہوتا ہے لیکن قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے والدین اپنے عمر کے آخری لمحات میں جس کو توبہ و استغفار کے لیے وقف ہونا چاہیے تھا، دوزخ اور لعنت خداوندی بہ صد مسرت اور بہ ہزارِ شوق خریدتے ہیں، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی کم نصیبی، بل کہ بدنصیبی ہوسکتی ہے؟

اگر کسی شخص نے رشوت لی ہو تو اب اس کی تلافی کی یہی صورت ہے کہ وہ اسے واپس کردے، اس لیے جن لوگوں نے مطالبے کے ذریعے کوئی رقم یا سامان حاصل کیا ہے، تو اس کا یا اس کی قیمت کا واپس کرنا شرعاً واجب ہے۔ مانگنا چاہے صراحتاً ہو یا اشارتاً، بہ راہِ راست ہو یا بالواسطہ سب کا ایک ہی حکم ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مطالبہ تو نہیں کیا اور سامان کی فہرست تو پیش نہیں کی لیکن کسی دولت مند گھرانے میں یہ سمجھ کر رشتہ طے کیا کہ اگر دس نہیں تو پانچ لاکھ تو کہیں نہیں جائیں گے، اتنا تو وہ بغیر مانگے ہی دے دیں گے، یہ بھی رشوت کے ہی حکم میں ہے۔ کیوں کہ فقہاء نے ایک اُصول مقرر کیا ہے کہ جو چیز بہ طورِ شرط کے طے نہ کی جائے لیکن عرف و رواج کے تحت لی جائے، تو وہ بھی شرط لگانے کے ہی درجے میں ہوگا۔ ہاں! اگر انکار و نفی کے باوجود لڑکی والے اپنی طرف سے دے دیں تو یہ یقینا اس دائرے میں نہیں آئے گا۔

اگر نکاح کی تقریب مسجدوں، دینی جلسوں اور مذہبی اجتماعات میں رکھی جائے، علماء اور اہل دین سے نکاح کے خطبات پڑھوائے جائیں، مجلس نکاح میں ایمان افروز اور رُوح پروَر بیان رکھے جائیں لیکن اندرونی طور پر سودا بازی بھی کی جائے اور چھپے ہاتھوں لین دین کا معاملہ بھی طے کیا جائے، تو یہ تو نفاق اور گناہ پر ظاہری نیکی کا دبیز غلاف چڑھانا اور دین کے پردے میں بے دینی کو چھپانا ہے، جو یقینا کھلی ہوئی بے دینی سے بھی زیادہ مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔

لین دین کا ایک نفسیاتی اثر یہ پڑتا ہے کہ اگر کوئی لڑکی مسنون طریقۂ عقد کے ذریعے نکاح میں لائی جائے، تو لڑکی اور اُس کے والدین کے اندر احسان مندی اور احسان شناسی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، وہ اپنے سسرال کو اپنا محسن تصور کرتی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ وہ ایک ماں باپ سے جدا ہو کر دوسرے ماں باپ کے گھر پہنچی ہے، اس میں اپنے شوہر، ساس، سسر اور سسرال کے بزرگوں کے تئیں محبت اور خدمت کے جذبات ہوتے ہیں اور جب لڑکے اور اس کے والدین لڑکی والوں کا خونِ جگر اور آخری قطرۂ لہو نچوڑ کر اسے اپنے گھر لاتے ہیں، اس بہو میں احسان مندی اور جاں نثاری کے بہ جائے نفرت اور خود غرضی کے جذبات پنہاں ہوتے ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے۔

اگر کوئی شخص آپ کو پانچ روپے ہی کی کوئی چیز تحفتاً پیش کرے، تو آپ یقینا اس کے شکر گذار ہوں گے، اور آپ کے دل میں قدر دانی کا جذبہ پیدا ہوگا اور اگر آپ کسی سے پانچ روپے میں کوئی چیز خریدیں تو آپ اسے محسن تصور کرنے کے بہ جائے اپنے آپ کو محسن سمجھیں گے، اس لیے کہ تاجر خریدار کا احسان مند ہوتا ہے نہ کہ خریدار تاجر کا۔ اس لیے جس لڑکی اور اس کے سرپرست نے دُولہا کی قیمت ادا کی ہے، آخر وہ اس مرد یا اس کے اہل خانہ کے احسان مند کیوں کر ہوں، جس کی قیمت ان لوگوں نے اپنا خونِ جگر بیچ کر ادا کی ہو! اسی لیے آج کل یہ شکایت عام ہے کہ جب بہو گھر میں آتی ہے وہ خدمت و اطاعت کے جذبے سے خالی و عاری ہوتی ہے اور گھر سے متعلق فرائض اور اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہ !

باری تعالی ہمیں صحیح دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور دور جدید کی اس لعنت سے محفوظ رکھے، ہمیں اپنے حبیب ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔