پشاور کی تاریخی درس گاہیں

نوید جان  اتوار 2 فروری 2020
 یہ تعلیمی ادارے آج بھی علم کے دیے فروزاں کیے ہوئے ہیں

 یہ تعلیمی ادارے آج بھی علم کے دیے فروزاں کیے ہوئے ہیں

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی جہاں اور بہت سی خصوصیات ہیں وہیں اس شہر کا اعزاز ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو ایک زمانے سے تعلیم کو فروغ دینے میں مصروف اور ذہنوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔ آئیے ہم آپ کو ان تاریخی اور یادگار اداروں کے بارے میں بتاتے ہیں۔

٭ معروف اورتاریخی ایڈورڈز کالج پشاور

پاکستان کے معروف تاریخی تعلیمی ادارے ایڈورڈز کالج پشاور کو صوبے کا سب سے پہلا میڈیکل کالج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ادارہ 1855ء میں چرچ مشنری اسکول کی حیثیت سے اندرون شہرکوہاٹی گیٹ کے قریب قائم ہوا جو ابتدا میں پرائمری تعلیم تک محدود تھا۔ سربرٹ ایڈورڈز کے سی بی (جی ایس سی آئی)1853ء سے1858ء تک پشاور کے کمشنر رہے۔ انہوں نے پشاور میں تعلیم اور صحت کے کاموں کا آغاز کیا۔ اسی لیے چرچ مشنری سوسائٹی نے جب اسکول کو کالج کا درجہ دیا تو اسے ان کے نام سے منسوب کرکے اس کا نام ایڈورڈزمشن کالج رکھا گیا جو بعد میں ایڈورڈزکالج پشاور کہلایا۔ یہ کالج اس وقت پنجاب یونی ورسٹی سے منسلک تھا۔

یکم مئی 1900ء کو کالج کی کلاسز ایڈورڈزہائی اسکول میں شروع کی گئیں۔ کئی سال تک کالج ایڈورڈزہائی اسکول کا حصہ رہا جو چرچ مشنری سوسائٹی لندن کے زیراہتمام تھا۔ اس کا نام بھی چرچ مشنری اسکول تھا، کالج کا نام ایڈورڈز سے موسوم کرنے کے ساتھ اسکول کا نام بھی ایڈورڈز ہائی اسکول رکھا گیا۔ اس وقت کالج کے حصے میں صرف 30 طلبا زیرتعلیم تھا۔1910ء میں کالج پشاور صدرشفٹ کیا گیا جو نہایت ہی تاریخی اہمیت کا حامل علی مردان خان باغ کا حصہ تھا۔ کالج کی عمارت کی جگہ پر اس سے قبل علی مردان خان کی شہزادی کی رہائش گاہ تھی۔

ایڈورڈزکالج پشاور چھاؤنی کی مرکزی شاہراہ مال روڈ پر تعمیرکیا گیا۔ اس کے چاروں اطراف میں سڑکیں تھیں، پشت پر فورٹ روڈ جب کہ دائیں بائیں جھیل روڈ اورول کاکس روڈ تھے۔ کالج کے احاطے میں نظر آنے والے شیشم اور پیپل کے چند قدیم درخت علی مردان خان کے باغ کا حصہ تھے۔ کالج کی نئی اور خوب صورت عمارت کا افتتاح بشپ آف لاہور رائٹ ریورنڈ نے سات جنوری1910ء کو کیا۔ اس وقت یہاں طلبا کی تعداد صرف 65 تھی۔

ایڈورڈزکالج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تین مرتبہ یہاں کا دورہ کیا اور طلباء سے خطاب کیا۔ دو مرتبہ 1936ء اور1946 میں تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم یہاں تشریف لائے اور آخری مرتبہ1948ء میں گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے انہوں نے یہاں کا دورہ کیا۔ ایڈورڈز کالج کے طلبا نے قائداعظم کی ہدایت پر تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔1947ء کے ریفرنڈم کو کام یاب کروانے میں بھی ایڈورڈز کالج کے طلبا نے دن رات کام کیا۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد پندرہ اگست1947ء کو رائل پاکستان ایئرفورس کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کا ہیڈکوارٹر پشاورچھاؤنی میں قائم کیا گیا۔ یہاں پر جب پاکستان کی دوسری فضائی تربیتی کور بنائی گئی تو اس میں ایڈورڈزکالج کے طلبا کو بھی شامل کیا گیا۔

 ٭ خالصہ ہائی اسکول (گورنمنٹ شہید مبین آفریدی ہائیرسیکنڈری اسکول نمبرون پشاور صدر)

خالصہ ہائی اسکول کو1930ء کے عشرے میں پشاور صدر کی سِکھ کمیونٹی نے چرچ مشنری اسکول کی طرز پر قائم کیا۔ یہاں پر تعلیم حاصل کرنے والوں میں تمام مذاہب کے (سکھ، ہندو، مسلمان) طالب علم شامل تھے۔ مسلمان طلبا کی تعداد سب سے کم ہوتی تھی۔ سکھ کمیونٹی کے قائدین نے صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی شان دار تعلیمی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکول کا سنگ بنیاد رکھنے کی دعوت دی اور اس اسکول کی سب سے پہلی اینٹ ان کے ہاتھوں لگوائی۔

قیام پاکستان کے بعد جب انگریز راج ختم ہوا اور آزادی کی صبح طلوع ہوئی اور سکھوں کی بہت بڑی تعداد یہاں سے چلی گئی تو خالصہ اسکول کا انتظام پشاور صدر کے چند معززین نے سنبھال لیا اور اسے اپنی مدد آپ کے تحت چلانے لگے۔ اس وقت اس اسکول کا نام مسلم ماڈل اسکول رکھ دیا گیا۔

1950ء کے عشرے میں حکومت نے اس اسکول کو قومیالیا اور اس کا نیا نام گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر4 رکھا گیا۔ 1960ء کے عشرے میں اس کا نام ایک مرتبہ پھر تبدیل کرکے گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر1پشاور صدر رکھ دیا گیا۔ اس اسکول کا نتیجہ ہر سال سو فی صد آتا تھا۔ ان شان دار تعلیمی کام یابیوں کی بنا پر اس وقت کی صوبائی حکومت نے اس اسکول کا درجہ بڑھاکر ہائیرسیکنڈری اسکول کردیا۔ اسی سال یہاں ایف اے کی کلاسز شروع ہوگئیں اور یوں اس کا نام ایک مرتبہ پھر تبدیل کرکے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر1 پشاور قرار پایا۔

٭فرنٹیئر ہائی اسکول (گورنمنٹ شہید ثاقب غنی ہائیرسیکنڈری اسکول نمبر 2 پشاور صدر)

گورنمنٹ شہید ثاقب غنی ہائیرسیکنڈری اسکول نمبر 2 پشاورصدر کا پرانا نام فرنٹیئر ہائی اسکول ہے جو گذشتہ صدی کے آغاز میں تعمیر کیا گیا۔ یہ اسکول ایک کمیٹی کے زیرانتظام چلایا جاتا تھا۔ کمیٹی کے ممبران پشاور صدر کے سول باشندے ہوتے تھے جب کہ ڈپٹی کمشنر پشاور اس کمیٹی کے صدر تھے۔

1931ء میں یہاں 459 طلبا زیرتعلیم تھے۔ چودہ اگست 1947ء کے بعد بھی یہ اسکول اسی پوزیشن میں رہا۔ 1950ء کے عشرے میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے اسے قومیالیا اور1960ء کے عشرے میں اس کا نام گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 2 پشاور صدر رکھ دیا گیا۔ 1980ء کے عشرےمیں سول کوارٹر کے نزدیک اس کی اپنی عمارت بنائی گئی اور یہ اسکول وہاں شفٹ کیا گیا۔

 ٭سلوان پرائمری اسکول

 (گورنمنٹ شہید وہاب دین ہائی اسکول پشاور صدر)

پشاور کی مشہور ترین سنہری مسجد کے پہلو میں واقع گورنمنٹ شہید وہاب دین ہائی اسکول پشاور صدر کے ایک ہندو سیٹھ پی ٹی گردھاری لال سلوان نے اپنے والد پی ٹی مول راج سلوان آف کرتارپور کی یاد میں 1895ء میں پرائمری اسکول کی حیثیت سے قائم کیا، جو مشنری طرز کا اسکول تھا اور یہاں ہر قومیت کے بچے پڑھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اس اسکول کو قومیالیا اور1962ء میں اس کا درجہ بڑھا کر مڈل کردیا گیا۔ یہ ادارہ وطن عزیز کو ہزاروں کی تعداد میں قابل سپوت فراہم کرچکا ہے۔ اس اسکول کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سابق صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق اس اسکول کے طالب علم رہے ہیں۔ انہوں نے پرائمری کا امتحان یہیں سے پاس کیا، جب کہ اس اسکول کے دیگر شہرت حاصل کرنے والے طالب علموں میں اسکواش کے سابق نمبرون کھلاڑی جان شیر خان اور پرائیڈ آف پرفارمنس فن کار محمد قوی خان شامل ہیں۔

1982ء میں اس اسکول کے طالب علم اور سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے خصوصی فنڈ سے سلوان اسکول کے لیے ایک نئی دو منزلہ عمارت تعمیر کروائی۔

٭اسلامیہ ہائی اسکول (گورنمنٹ شہید سید آفاق احمد ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر3 پشاور صدر)

انجمن حمایت اسلام کی پشاورشاخ نے پشاور شہر کے بچوں کو جدید تعلیم سے روشناس کروانے کے لیے1890ء میںایک پرائمری اسکول شروع کیا جس کا نام اسلامیہ ہائی اسکول رکھا گیا۔ یہ اسکول ابتدا سے اندرون شہر ایک کرائے کی عمارت میں شروع کیا گیا۔ اپنی اچھی کارکردگی کی بنا پر اسے جلد ہی مڈل اسکول کا درجہ مل گیا اور1905ء میں یہ کابلی دروازے کے باہر عمارت میں منتقل ہوگیا۔

اس اسکول کا انتظام انجمن حمایت اسلام کی ایک کمیٹی کے سپرد تھا۔ نئی ضروریات کے تحت اس کی نئی عمارت1936ء میں تعمیر کی گئی جس کا سنگ بنیاد اس وقت کے گورنر سر رالف گرفتھ نے رکھا۔ اسے تعمیر کرنے کا ٹھیکا ایک ہندو ٹھیکے دار کو 32 ہزار روپے میں دیا گیا۔ یہ اسکول تعلیمی ادارہ ہونے کے ساتھ سماجی تقریبات کا بھی مرکز تھا جن میں مشاعرے قابل ذکر تھے۔ اس کا ایک گیٹ سنیما روڈ کی طرف بھی ہے۔

اسلامیہ اسکول کابلی اور بجوڑی دروازوں کے باہر درمیان میں تعمیر کیا گیا جس کا بنیادی مقصد پشاور شہر کے بچوں کے اذہان کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد جب پشاور شہر اور صدر کی نئے سرے سے حدبندی ہوئی تو خیبربازار پشاورکنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آنے کی وجہ سے یہ اسکول بھی صدر کی حدود میں آگیا۔ آزادی کے بعد1950ء کے عشرے میں حکومت نے اسے قومیالیا اور اس کا نام اسلامیہ ہائی اسکول پشاور سے بدل کر گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 3 کردیا گیا۔ 1987ء میں اسے ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیدے دیا گیا۔

٭الزبتھ ہائیر سیکنڈری اسکول ڈبگری گارڈن، پشاور

1901ء میں خیبرپختون خوا (صوبہ سرحد) کے قیام کے بعد بیسویں صدی کے آغاز تک پورے صوبے میں لڑکیوں کا کوئی اسکول نہیں تھا، جب کہ یہاں کے لوگ عورتوں کے گھروں سے نکلنے کے بھی مخالف تھے۔ لڑکیوں کو صرف دینی تعلیم گھروں پر ہی دی جاتی تھی۔ انگریز جب یہاں آئے تو فتوحات اور بغاوتوں سے نمٹنے میں مصروف رہے۔ انہوں نے لڑکیوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو کافی دیر سے محسوس کیا۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈبگری گارڈن کے ایک بڑے حصے میں جہاں مشن اسپتال موجود ہے، 1908ء میں الزبتھ اسکول فارگرلز کا قیام عمل میں لایا گیا۔

یہ صوبے کا سب سے پہلا لڑکیوں کا اسکول تھا جو ابتدا میں صرف پرائمری لیول تک تھا۔ مسزڈیوڈسن اس اسکول کی پہلی ہیڈمسٹریس مقرر ہوئیں جو1922ء تک یہاں اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ یہ اسکول چرچ مشنری سوسائٹی نے شروع کیا جس کی شاخیں انگلستان کے دارالحکومت لندن تک پھیلی ہوئی تھیں اور وہی اس کی نگراں تھی۔

قیام پاکستان تک یہ اسکول پرائمری سطح تک تھا، بعد میں اسے ترقی دے کر مڈل کا درجہ دے دیا گیا۔ اسی طرح بعد میں اسے ہائی اسکول کا درجہ دے کر الزبتھ ہائی اسکول کا نام دیا گیا۔ حالیہ چند سال قبل جب پشاور میں گرلز کالجوں کی کمی کے باعث لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم ہونے لگیں تو اس اسکول میں ہائیر سیکنڈری کلاسز کا اجراء کیا گیا۔

اس اسکول کی پہلی ہیڈمسٹریس طالبات کو گھروں سے بلواتی تھیں۔ لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے انہوں نے پشاور شہر، چھاؤنی اور مضافات میں گھر گھر کا دورہ کیا اور عوام کو لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

٭پریزنٹیشن کانونٹ ہائی اسکول

پشاور چھاؤنی میں متعین انگریز فوجی افسروں کے بچوں کے لیے چرچ سوسائٹی نے کانونٹ ہائی اسکول لوئر مڈل اسکول کی حیثیت سے1913ء میں شروع کیا۔ یہ ابتدا ہی سے انگلش میڈیم رہا جو لڑکیوں کے لیے تھا مگر پرائمری حصے میں لڑکوں کو بھی داخلہ دیا جاتا صرف انگریز افسروں کے بچے یہاں پڑھ سکتے تھے اور تمام تعلیم عیسائیت پر مبنی تھی۔

یہ اسکول لندن کے تعلیمی اداروں سے منسلک تھا۔ یہاں پہلے صرف جونئیرکیمرج تک تعلیم تھی جو بعد میں سنیئر کیمرج تک بڑھا دی گئی۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد کانونٹ اسکول میں انگریز فوج میں شامل انڈین فوجیوں اور دیگر مقامی لوگوں کے بچوں کے لیے بھی یہاں تعلیم کا آغازکیا گیا، اس کی عمارت میں ایک اسکول قائم کیا گیا، جسے فرنٹیئر انڈین اسکول کہا جاتا تھا۔ اسکول میں مقامی لوگوں کے بچے زیرتعلیم تھے اور اسے پنجاب یونی ورسٹی سے منسلک کیا گیا۔

جب کانونٹ اسکول میں انڈین اسکول کا آغاز کیا گیا تو یہاں کا برطانوی تدریسی عملہ بہت خوش ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں کے لوگ بہت ضدی اور لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور اب گرلز اسکول بننے کے بعد ہم اپنے مقصد یعنی تعلیم کی روشنی پھیلانے میں کام یاب ہورہے ہیں۔ 1938ء میں یہ اسکول سیکنڈری تک ترقی کرگیا۔ اسے صوبے کا پہلا گرلزکالج ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کانونٹ اسکول کرسچین مشنریز کی سرپرست سینٹ فرانس کے پیش کردہ خاکے پر بنایا گیا۔

تقسیم ہند کے وقت کانونٹ پریذنٹیشن ہائی اسکول ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کی صورت اپنے جوہر دکھا رہا تھا جس میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انگلش میڈیم حصے اور مقامی بچوں کے لیے علیحدہ اسکول اور ایک سیکنڈری حصہ کالج کی شکل میں شامل تھا۔ انگریزوں کے بعد جب 1952ء میں کنٹونمنٹ بورڈ پشاور نے کنٹونمنٹ پبلک اسکول قائم کیے تو کانونٹ اسکول سے لوکل اسکول ختم کردیا گیا اور صرف موجودہ کانونٹ اسکول اور سیکنڈری حصہ رہ گیا جو 1965ء میں کنٹونمنٹ کالج فارگرلز کی صورت میں سامنے آیا اور آج کل ایف جی کالج فاروویمن کے نام سے ہے، کانونٹ اسکول کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے تعلیمی معیار کی لندن میں بھی تعریف ہوئی ہے۔

 ٭سینٹ جانز کیتھڈرل اسکول

پشاورچھاؤنی میں جب لال کرتیوں کے قیام سے باشندوں کی رہائش کا آغاز ہوا تو ان علاقوں میں انگریزوں کی خدمت گار عملے کے بچوں کے لیے دونوں چھوٹی اور بڑی لال کرتی میں چرچ مشنری سوسائٹی نے تعلیم کا آغاز کیا اور اسکول قائم کیے جو کسی عمارت کے نہ ہونے کے باعث یہاں موجود گھنے درختوں کے نیچے کھلی جگہ اسکولوں کی صورت میں کئی حصوں میں بکھرے ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتارہا اور بچوں کی تعلیم اس طرح جاری رہی جو درخت کے ساتھ ایک تختۂ سیاہ اور زمین پر بچھے ہوئے ٹاٹوں کی شکل میں اسکول کی صورت تھی۔

1904ء میں موجودہ ایڈورڈزکالج کے نواح میں موجود اسکول ’’ول کاکس‘‘ کی جگہ پر چھوٹی اور بڑی لال کرتی کے اسکولوں کو یکجا کرکے شفٹ کیا گیا اور اس کا نیا نام نیوول کاکس اسکول رکھ دیا گیا جب کہ ول کاکس اسکول کو سینٹ جانز چرچ کے احاطے میں منتقل کردیا گیا۔ اس وقت سینٹ جانز چرچ کا نام گیریژن چرچ تھا، گیریژن چرچ میں گرجے کی عمارت کے ساتھ ایک بڑا کمرہ موجود تھا، جسے ٹفن روم کہا جاتا تھا۔ اس کمرے میں چرچ میں آنے والے عبادت گزار اپنے بچوں کو ان کی آیاؤں سمیت چھوڑ جاتے اور عبادت سے واپسی پر اپنے ساتھ لے جاتے، ول کاکس اسکول نے اس بڑے کمرے میں تعلیم شروع کردی۔

سینٹ جانزکیتھڈرل اپنے قیام سے لے کر انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے تک پرائمری حالت میں تھا اور اسے لاہور ڈیوائس کے زیراہتمام چلایا جاتا تھا۔ سینٹ جانزکیتھڈرل اسکول نے مسیحی برادری میں تعلیم عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سینٹ جانز اسکول کو1965ء میں لوئرمڈل اسکول کا درجہ دیا گیا، جو چند سال بعد بڑھاکر مڈل اسکول کردیا گیا، ماسٹرفضل مسیح پادری اور غلام الدین یہاں کے استاد تھے۔ اس دوران مسز کے ڈی جوزف اس اسکول کی ہیڈمسٹریس اور بعدازاں پرنسپل رہیں،1983ء میں اس اسکول کو اپ گریڈ کرکے ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا اور اس کا نام سینٹ جانز کیتھڈرل ہائی اسکول رکھا گیا۔

 ٭سینٹ مائیکل ورنیکلر اسکول
 (سینٹ مائیکل ہائی سکول)

سینٹ مائیکل ورینکلر اسکول چرچ مشنری سوسائٹی نے1938ء میں انگریز فوجی اور سول افسروں کے خدمت گاروں اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے دیگر چھوٹے درجے کے ملازمین کی بچیوں کے لیے پرائمری اسکول کی حیثیت سے قائم کیا۔ اس اسکول سے پشاور چھاؤنی میں رہنے والی سول آبادی نے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ یہاں پر رہنے والی تمام اقوام مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائیوں کی بچیاں زیرتعلیم تھیں، قیام پاکستان کے بعد اسے مڈل کا درجہ دیا گیا جب کہ اسے صوبائی نظامت تعلیم کے پاس ہائی اسکول کی حیثیت سے رجسٹر کیا گیا۔ اس دوران سینٹ مائیکل ورینکلر اسکول کا نام بدل کر سینٹ مائیکل کانونٹ ہائی اسکو ل رکھا گیا۔

 ٭ایف جی کالج فاروویمن پشاورکینٹ

مال روڈ پر واقع ایف جی کالج فار ویمن کی تاریخ بہت دل چسپ ہے۔ تعمیر کے بعد سے یہ کالج کئی اداروں کے ماتحت رہ چکا ہے۔ یہ کالج 1938ء میں کرسچین مشنریز کی سرپرست سینٹ فرانس کے پیش کردہ خاکہ پر بنایا گیا اور یہ صوبے میں خواتین کا سب سے پہلا کالج ہے، اس سے قبل صوبے میں لڑکیوں کا کوئی کالج موجود نہیں تھا۔ ایف جی ویمن کالج شروع میں کانونٹ ہائی اسکول کا انٹرمیڈیٹ حصہ تھا۔1965ء تک یہ مشنری کے تحت رہا، 1966ء میں کنٹونمنٹ بورڈ پشاورنے کالج کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کا نام کنٹونمنٹ کالج رکھا گیا۔1975ء میں وفاقی حکومت نے اسے قومیالیا، 1977ء میں ایک بار پھر اس کا قبلہ تبدیل ہوا اور آرمی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن جی ایچ کیو راولپنڈی کے ماتحت لے لیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔