عورت کا خناس اور مرد کی خباثت

شاہد سردار  اتوار 2 فروری 2020

خوبصورت، جاذب نظر یا خوبرو شخصیت ہمارے نزدیک اللہ کی دی ہوئی نعمت ہوتی ہے اور یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن اسے شیرینی کی طرح بانٹنا یا بہت ہی سستے پن سے اس کا استعمال کرنا اسے بیچنے کے مترادف ہی سمجھا جاتا ہے، اور آج کل یہ کاروبار ہمارے ملک میں بہت تیزی سے پھیل کر اپنی جڑیں مضبوط اور گھروں کوکمزور اور بالآخر تباہ کرنے کے کام آرہا ہے۔

سالہا سال سے ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں، اخبارات میں یا لوگوں کے منہ سے، پڑھنے، سننے اور دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ ایک ہنستے بستے گھرکو ایک عورت کی وجہ سے آنسوؤں، دکھوں اور افسوس و ندامت کے سمندر میں غرق ہونا پڑنا۔ شادی شدہ خواتین اپنے چھوٹے چھوٹے یا نوعمر بچوں کو چھوڑ کر اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوتی چلی جا رہی ہیں، یا بیرون ملک اپنے بیوی بچوں کا بہتر مستقبل بنانے کے لیے جانے والے شوہروں کی بیویاں کسی غیر مرد کے ہاتھوں کا کھلونا بننا پسند کرلیتی ہیں۔

ایسی دل پھینک یا انجوائے کرنے والیاں بھی ہیں جن کے دل میں کوئی ہوتا ہے، دماغ میں کوئی، نظر میں کوئی۔ بعض گھر سے باہر ملازمت کرنے والیاں ملازمت کی جگہ سے لے کر دکاندار اور محلے دار سبھی کا دل راضی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہیں۔ حال ہی میں ہمارے پڑوس میں شوہر نے پہلے اپنی بیوی کو شوٹ کیا اور پھر ایک گولی خود کو مار کر کام تمام کرلیا، وجہ اس کی بھی عورت بلکہ ’’ دوسری عورت‘‘ بتائی گئی۔ ہم ایک ایسے گھر سے واقف ہیں جہاں عورت اپنے دو بچوں کو چھوڑ کر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اور ایسا وہ اپنے شوہر کے ملازم کے لیے کر رہی ہے جو اسے پسند آگیا ہے۔

ہمارے اکثر ٹی وی ڈراموں میں ہونے والی ’’ ڈرامے بازیاں‘‘ اب ہماری سوسائٹی کے بیشتر گھروں، محلوں اور گلیوں میں دیکھنے اور سننے میں آ رہی ہیں اور یہ سب کا سب ہمارے معاشرتی ڈھانچے کے تابوت میں آخری کیل کے مترادف ہی گردانا جاسکتا ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ نہ سبھی مرد خراب ہوتے ہیں اور نہ ہی سبھی عورتیں بری، لیکن عورت اور مرد کے درمیان ہمیشہ ہی سے کسی دوسرے مرد اور کسی دوسری عورت ہی کی وجہ سے بے وفائی، گھروں کی تباہی، ذلالت، ندامت، خوں ریزی وغیرہ پر اختتام پذیر ہوتی چلی آ رہی ہے اور برسہا برس سے مردوں کا معاشرہ ہونے کی وجہ سے مرد کی خباثت اور عورت کے اس خناس کے تذکرے دونوں کے وجود کی طرح بہت پرانے ہوچکے ہیں لیکن یہ بھی ایک تسلیم شدہ سچائی ہے کہ اس سب میں سب سے زیادہ قصوروار عورت ہی کو سمجھا جاتا ہے شاید ٹیڑھی پسلی سے بنی عورت کے بارے میں ٹیڑھا ہی سوچا اور سمجھا جاتا ہے؟

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مرد ہونا یا عورت ہونا بڑی چھوٹی سی بات ہے انسان ہونے کے سامنے۔ اس لیے بھی کہ انسانیت کی کوئی جنس نہیں ہوتی، اس کا تعلق صرف روح اور دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مرد عام طور پر ہوشیار اور ذہین ہوتے ہیں لیکن عورت کی صرف ایک نگاہ ان کی ہوشیاری اور ذہانت کو کھا جاتی ہے، اسی طرح سمجھ دار اور ذہین یا معاملہ فہم خواتین لمحوں میں اپنی ذہانت دوسرے مردوں کے قدموں میں ڈھیر کرکے اپنے وجود کو مٹی کی نذر کر دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرد ہمیشہ عورت کی پہلی محبت یا توجہ بننا چاہتا ہے جب کہ عورت اس کی آخری محبت بننے کی خواہش رکھتی ہے اور یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ مردوں میں ساری خوبیاں ہوتی ہیں ماسوائے عورت سے وفاداری کے۔

ایک عورت پر قناعت کرنا ان کی فطرت میں نہیں ہوتا۔ اکثر ہینڈسم یا خوبصورت مرد خود کو امریکا اور مختلف عورتوں کو کولمبس سمجھتے ہیں۔ گھر میں وفادار بیوی ان کا گھر سنبھال کر بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں لگی ہوتی ہے اور وہ خود مختلف خواتین کے چکر میں گھن چکر بنے رہتے ہیں اور ایسا بھی ہمارے معاشرتی منظرنامے میں دیکھنے کو ملتا آیا ہے کہ ایماندار، مخلص (بیوی بچوں اور گھر سے) شوہر اپنی غیرت اپنی عزت اپنے گھر کی سالمیت اپنی بیوی کی مٹھی میں بند کرکے روزی کمانے گھر سے نکلتا ہے لیکن عورت وہ مٹھی کسی اور کے لیے کھول دیتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عورت فطرتاً بے وفا نہیں ہوتی اور اگر وہ ایسی ہو تو فطرتاً عورت نہیں ہوتی۔ بیشتر مرد اور بیشتر عورتیں اپنے کردارکی بدبو کو پرفیوم کی خوشبو سے چھپا لیتے ہیں لیکن حال کی خوشبو میں کمال کیسا بھی ہو وہ ماضی کی بدبو کو مار نہیں سکتی۔

یوں اپنے اپنے کردار کو خراب یا آلودہ کرنے میں عورتوں کے خناس کے ساتھ مردوں کی خباثت سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔ کیونکہ زندگی میں کئی چیزیں ہو جاتی ہیں جن کا جواز نہیں ہوتا لیکن وہ ہو جاتی ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ دل کے ہاتھوں مجبور و لاچار ہونے والے اپنا دل اپنے پاس رہنے ہی نہیں دیتے، دل کو وہ جتنا راضی کرتے ہیں اتنا ہی وہ ڈنک مارتا رہتا ہے اس لیے کہ خواہشوں کا چہرہ کبھی اجلا نہیں بلکہ کرخت اور دھندلا ہوتا ہے۔ گو کسی ایک رشتے سے نکل کر دوسرے رشتے میں جانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کم بخت دل کے بعد موبائل، ماحول اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اب یہ بہت سہل یا آسان ہو گیا ہے بیشتر خواتین اور بیشتر حضرات کے لیے۔

آفاقی سچائی ہے کہ جس نے اپنے نفس اور اپنی تنہائی یا خلوت کو پاک کر لیا وہ دنیا اور دین دونوں جگہ سرخرو رہے گا لیکن نگاہ غلط ، زیادہ اپنائیت یا لچھے دارگفتگو دونوں ہی مرد و زن کو گناہ کی طرف لے جانے والی چیزیں بن جاتی ہیں اور تمام برائیاں انھی دروازوں سے گزرنے سے شروع ہوتی ہیں۔ اور ہر ذی شعور اس حقیقت کو جانتا ہے کہ بے حیائی ہر چیزکو داغدار بنا دیتی ہے اور شرم و حیا اسے زینت عطا کرتی ہے۔ جس طرح احسان کی خوبصورتی احسان نہ جتلانے میں ہوتی ہے اسی طرح حسن و زیبائش کی دلکشی یا خوبصورتی بھی اسے پوشیدہ یا سنبھال کر رکھنے میں ہی پنہاں ہے۔

کڑوی یا تکلیف دہ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ کسی عورت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب بڑے سے بڑے آدمی کو دھتکار دے اور کسی دوسرے، چھوٹے یا کھوٹے آدمی پر مر مٹے، وہ جب دل پھینکنے پر آتی ہے تو کسی کے بھی قدموں میں گر جاتی ہے لیکن خود جب وہ دھتکاری جاتی ہے تو عزت اور توجہ کی آخری سیڑھی سے نیچے گرتی ہے اور اتنی بلندی سے گرنے والی کوئی بھی جاندار چیز زندہ نہیں بچتی۔ بالکل اسی طرح مرد بھی اپنی وفادار ہستی کو نظر انداز کرکے جب کسی دوسری کو اپنی منظور نظر بنا لیتا ہے تو نظروں سے گر جاتا ہے اور نظروں سے گرنے والوں کو کبھی زمین میسر نہیں آتی وہ بگولوں کی شکل میں گرد میں اٹے ہوا میں معلق رہتے ہیں، جیتے جی مر کر بھی وہ مردہ نہیں کہلاتے۔

درویشوں یا ولیوں پیغمبروں کی نظر میں عورت مرد کا امتحان اور مرد عورت کی آزمائش ہوتا ہے اور یہ مقولہ بھی زبان زد عام ہے کہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘۔ تو پھر ہر بے وفا عورت کے پیچھے بھی ایک ورغلانے والے مرد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ عورت کو قدرت نے بہت اونچا مقام بخشا ہے اور عورت جس کلاس کی بھی ہو اس کی سب سے اہم ترجیح اس کا گھر ہوتا ہے لیکن افسوس ہمارے اطراف کی کچھ خواتین کو اس ترجیح کا احساس نہیں رہا، اور نہ ہی بہت سے مردوں کو اس کا ادراک ہے۔

کون نہیں جانتا انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کے رشتے اور ان رشتوں پر ان کا اعتبار اور مان ہوتا ہے اور مان اعتبار گم کردینے والے بھی اپنی روحوں کو ہمیشہ کے لیے لاپتہ کرلیتے ہیں۔ مرد و زن کی وفاداری اور بے وفائی دونوں کی پیمائش کرنا ہو تو زمین سے آسمان تک کے فیتے کی ضرورت پڑتی ہے اور ایسا کوئی فیتہ سرِ دست کسی بازار میں دستیاب بھی نہیں ہے۔ ذہن میں ان سب کے ساتھ ایک سوال یہ چل رہا ہے کہ عورت کا خناس اور مرد کی خباثت آخر کیوں معرض وجود میں آتے ہیں؟

کہتے ہیں دنیا میں بعض ایسے سوال ہوتے ہیں جن کے جواب کسی بھی زبان میں نہیں ہوتے، ویسے بھی کچھ سچ بولنے کے لیے نہیں صرف کڑھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اور ایک دکھی کر دینے والی بات یہ بھی ہے کہ کسی کو اپنے دل سے نکالنے اور کسی کی زندگی سے نکل جانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وجود کے کرچی کرچی ہونے، ٹوٹنے یا بکھرنے کی خبر ہی ہماری دانست میں بریکنگ نیوز ہو کر باہر جاتی ہے، جڑنے کی خبر تو لوگ سنی، ان سنی کر دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔