بنت حوا کی کہانی

شیریں حیدر  اتوار 2 فروری 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہر منظر مجھے بھی یونہی دکھائی دیتا ہے جیسے باقی بچوں کو، وہی ہوا ، وہی فضا، وہی آسمان زمین۔ پتوں اور پھولوں کے رنگ بھی مجھے باقی سب کی طرح ہی نظر آتے تھے مگر پھر بھی مجھ میں اوران میں کچھ مختلف تھا۔ حالات نے مجھے وقت سے پہلے میچور کر دیا۔

اسکول کے کھیل کے میدان میں ہی نہیں، میں خود کو اپنی کلاس میں، اپنے گھر پر، غرض ہر جگہ تنہاپاتی تھی ، مجھے لگتا کہ میرے جیسے بچوں کو پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا، ہماری پیدائش ایک ایسی غلطی ہے جس کا ذمے کوئی نہیں لیتا اور بھگتنا ہمیں ہی پڑتا ہے۔ میں جانتی ہوں، پیدا کرنے والی ذات تو وہ ذات باری تعالی ہے جو غلطیوں سے مبرا ہے، ضرور اس نے ہم جیسوں کی پیدائش بھی کسی مقصد کے تحت عمل میں لائی ہو گی۔

میں بھی جب پیدا ہوئی تو کسی نہ کسی کو خوشی تو ہوئی ہو گی، کم از کم ماں کو تو… مگر اس کی خوشی کی مدت بہت مختصر رہی ہو گی ۔میرے باپ کی شادی اس کی مرضی کے خلاف میری ماں سے کر دی گئی، اس نے کسی اور سے عہد و پیمان کر رکھے تھے۔ اپنے ماں باپ کی خوشی کی خاطر اس نے مجبور ہو کر میری ماں سے شادی کر لی۔

چند ماہ کے بعد علم ہوا کہ ایک اور حوا کی بیٹی وجود میں آنے والی تھی، میرے باپ کو وارث نہ دے سکنا ماں کا وہ جرم ٹھہرا کہ جس کی پاداش میںمیرے باپ نے فورا میری ماں سے کنارا کر لیا اور اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ ماں نے جیسے تیسے مجھے جنم دیا اور پھر میرے وجود سے اس طرح غافل ہو گئی گویا اس کی زندگی کے مسائل کا واحد سبب میں تھی۔ نانی جب تک زندہ تھیں انھوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔ ماں اورباپ دونوں نے اپنی اپنی مرضی کی شادی کر لی اور میں ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیم و یسیر ہو گئی۔

اللہ کومیری آزمائش منظور تھی کہ سات برس کے ہوتے ہی مجھے اپنی جان سے عزیز رکھنے والی نانی اماں اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔ میرے لیے سوچ کا رخ بدل گیا، پھولوں سے خوشبو ختم ہو گئی، موسموں میں تبدیلی کا احساس کم ہو گیا، میں اپنے خول میں بند ہو گئی۔ میرے ماموؤں نے میری ماں اور باپ دونوں سے رابطہ کیا، مگر ان کے دلوں میں تو کیا گھروں کے کسی کونے کھدرے میں بھی میری جگہ نہ نکلی۔

ماموؤں کے بچے مغرور، خود غرض، گھر بڑے اور ممانیوں کے دل چھوٹے۔ مگر اتنی چھوٹی سی بچی اور کہاں جا سکتی ہے۔ نانی جان کی وصیت کھلی تو علم ہوا کہ جس گھر میں ماموں لوگ رہتے تھے وہ گھر انھوں نے میرے نام کر دیا تھا اور اس شرط پر کہ اس میں وہ لوگ رہ سکتے ہیں جو مجھ سے چھت نہ چھنیں۔ دونوں ماموں مجھے اس گھر میں رکھنے پر مجبور تھے۔ نانی جان کے جس کمرے میں میرا ٹھکانہ تھا اس پر بڑی ممانی کی نظر تھی کہ ان کے بیٹے کو وہ کمرہ چاہیے تھا۔ میں اس کمرے سے اپنے سامان سمیت، اسٹور روم میں منتقل کر دی گئی، یہ کہہ کر کہ چند دنوں میں میرے لیے نئے کمرے کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔

ظاہر ہے کہ ایسا کبھی ہونا نہیں تھا۔ اس گھر اور اس کے مکینوں کے دلوں میں میرے لیے جگہ تنگ سے تنگ تر ہوتی گئی، مجھے طعنوں ، تشنوں اور بد زبانی سے اس حد تک مجبور کر دیا گیا اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں سے رابطہ کیا کہ میرے لیے کچھ کریں ۔ اپنے بہن بھائیوں سے میرے لیے ہمدردی حاصل کرنا نا ممکنات میں سے تھا۔ انھوں نے جانے کس طرح اپنے شوہر کو منایا کہ وہ مجھے اپنے گھرمیں رکھنے پر تیار ہو گئے۔

جوں جوں میری عمر اور اٹھان بڑھ رہی تھی، میری ماں کے ماتھے پر تفکر سے لکیریں بڑھ رہی تھیں۔ وہ کھل کر نہ کہتی تھی مگر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ میرا سامنا اپنے سوتیلے باپ سے نہ ہو۔ میرے گرد ہر وقت ان کی نظروں کے حصار کی دیوار تھی تو اس دیوار کے پار سے بھی مجھے اپنے وجود کو چیرتی ہوئی وہ نظریں محسوس ہونے لگیں، جن کے خلاف میری ماں نے حصار باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ایسی مجبور بیوی بھی تھی جو کچھ کہہ نہ سکتی تھی مگر ایک ماں بھی تھی، جس کا روپ مرغی کا بھی ہو تو اپنے بچوں کو اپنے پروں تلے چھپا کر محفوظ کرتی ہے۔

میری ماں اپنے نئے گھر میں بھی بچوں کی ایک ایسی زنجیر میں جکڑی ہوئی مجبور عورت تھی، مجھے بچانے کو گھر چھوڑتی تو اس میں بھی اس کے وجود کے ٹکڑے رہ جاتے ۔ میری طرف وہ بے بس نظروں سے دیکھتیں مگر مجھے دل میں ان سے نفرت محسوس ہوتی۔ جو وہ دونوں میاں بیوی، جو کہ میرے ماں اور باپ تھے، میرے دنیامیں آنے کے بعد، میری خاطر اپنے اختلافات کو بھلا کر یا پس پشت ڈال کر میرے لیے اکٹھے رہنے کی قربانی دیتے۔

اگر وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے تو علیحدہ ہو کر کم از کم میری پرورش کر لیتے… نئی شادیاں نہ کرتے، دونوں نہ بھی سہی تو کوئی ایک فریق میری خاطر اپنی خوشیوں کی قربانی دے دیتا اور میں کسی ایک کی کمی کے بغیر بھی اچھی پرورش پا جاتی۔ میری ماں نے سر پر کسی چھت کی خاطر شادی کی، کاش اپنی زندگی میں ہی نانی جان یہ گھر میری امی کے نام کر دیتیں تو شاید وہ کسی اور کا آسرا نہ ڈھونڈتیں ۔ اتنے کاش…

ہر وقت میرا پہرہ دینے والی ماں کی بھی اپنی زندگی تھی، اس کی ضرورتیں اور مصروفیات بھی۔ اسے کھانا پکانا ہوتا تھا، اسے باتھ روم جانا ہوتا تھا، وہ بیمار بھی پڑ جاتی تھی، کبھی اس کا آرام کرنے کو بھی دل چاہتا تھا۔ گھر میں ہر ایسے وقت میں، جب میں چند لمحوںکے لیے بھی ماں کی نظروں کے حصار میں نہیں ہوتی تھی، وہ گندی نظریں میرے جسم کو چھیدتی رہتیں ۔ میں بچی تھی مگر میری بھی حسیات تھیں اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ان نظروں میں میرے لیے نرمی، شرافت اور پیار نہیں ہوتا تھا، وہ کھوٹی نظریں۔

نظروں کی جسارت سے بڑھ کر موقع بے موقع جب ان ہاتھوں نے دراز ہونا شروع کیا تو میں نے اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ کر اسے ان خطرات کے بارے میں بتا دیا۔ میںنے انھیں خطرات اس لیے کہا ہے کہ میری ماں نے مجھے پہلے سے ہی بتا رکھا تھا کہ اس دنیا میں معصوم بچیوں کے لیے کس کس نوعیت کی چیزیں، نظریں اور حرکتیں خطرہ ہو سکتی تھیں ۔انتہا اس وقت ہوئی جب اسے میرے ایک اور بھائی کی پیدائش کے سلسلے میں اسپتال جانا پڑا ۔

ماں کا اسپتال جانا اور ایک رات کا قیام… اس کے خدشات کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا تھا۔ اسپتال سے لوٹ کر، چند دن کے بعد، اس نے اپنے تھکے ہوئے اور میرے پامال وجود کو سمیٹا اور مجھے لے کر اس گھر سے کبھی واپس نہ جانے کے لیے نکل آئی۔ اس کے اندر اب ایک نئی توانائی آ گئی تھی ۔ اس نے میرے ماموؤں کو مقدمہ کر کے اس گھر سے نکلوایا، اس گھر کے ساتھ چند مرلوں کا صحن تھا، اسے ایک پلاٹ بنا کر ماں نے بیچا اور اس رقم کو مقدمے کے لیے ، مستعار لی گئی رقم واپس کی ۔ چند برس اور سرکے اور ماں نے میرے لیے ایک مناسب رشتہ دیکھ کر میری شادی کر دی۔

ہم نے وہ گھر بیچا اور اب میں اور میرا شوہر اس نئے گھر میں رہتے ہیں ۔ ’’ اور تمہاری ماں تمہارے ساتھ نہیں رہتیں؟ ‘‘ میںنے سوال کیا۔’’ وہ قتل کے جرم میںجیل میں ہیں! ‘‘ اس کے انکشاف پر کئی ٹوٹے ہوئے سرے خود ہی جڑ گئے تھے، ’’ عمر قید! ‘‘ میںنے یہی سنا تھا کہ اس لڑکی کی ماں جیل میں ہے۔ ’’ میری بربادی کا انتقام لیے بغیر اسے سکون کیونکر آتا، ماں تھی نا آخر… میرا تحفظ اس کی اولین ذمے داری تھی، مجھے میری زندگی میں سیٹ کر کے اسے اس سے انتقام لینا تھا جس نے مجھے پامال کیا تھا۔ ‘‘

’’ اوہو… اور اس کے بچے؟ ‘‘ میںنے سوال کیا۔

’’ وہ دونوں میر ے پاس ہیں… ان کا تو کوئی قصور نہیں، وہ میری ماں کے بچے ہی تو ہیں، میںنے سب کچھ اپنے شوہر کو بتا دیا تھا، اگرچہ ماں نے مجھے منع کیا تھا۔ ہم دونوں اولاد کی نعمت سے محروم تھے تو ہم نے ان بچوں کو ہی اپنے بچے سمجھ لیا ہے… ‘‘ اس نے اطمینان سے بتایا۔’’ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کروں ، افسوس کروں یا خوشی کا اظہار کہ تم سکون سے اچھی زندگی گزار رہی ہو۔ اگرچہ ماں کی طرف سے یقیناتکلیف میں ہو گی! ‘‘

’’ میں سکون میں ہوں … ماں بھی چندسال میں لوٹ آئیں گی۔ جو کچھ وہ بھگت رہی ہیں، وہ اس کی مستحق نہیں تھیں مگر کم از کم وہ اپنی باقی زندگی سکون سے گزاریں گی کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی معصومیت کے قاتل سے انتقام لے لیا تھا ۔ میرے شوہر کوشش کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ان کی سزا میں کمی ہو جائے اور وہ جلد لوٹ آئیں!‘‘’’ انشاء اللہ ‘‘ میںنے اٹھتے ہوئے کہا۔

’’ اب آپ پر ایک ذمے داری عائد ہو گئی ہے ‘‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔ میںنے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا، ’’ آپ اس پر ایک کالم تو لکھیں گی نا، شاید کوئی اور جوڑا اپنے بچے کو رلنے کے لیے نہ چھوڑے، شاید کوئی اور بچی اپنے کسی قریبی رشتے کے ہاتھوں پامال نہ ہو ‘‘ میںنے سر ہلاکر اس سے وعدہ کیا۔ دل میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ بنت خوا کی کہانی بہت صدیوں سے ایسی ہی ہے اور میرے ایک کالم لکھ دینے سے بھی تبدیل ہونے والی نہیں ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔