کیا کرکٹ کمیٹی ’’ربڑ اسٹیمپ‘‘ ہوگی؟

سلیم خالق  اتوار 2 فروری 2020
کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ اربوں روپے ڈومیسٹک کرکٹ میں پھونکنے سے کیا بہتری آئی؟ فوٹو: فائل

کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ اربوں روپے ڈومیسٹک کرکٹ میں پھونکنے سے کیا بہتری آئی؟ فوٹو: فائل

’’محسن خان نے کرکٹ کمیٹی کی سربراہی اسی لیے چھوڑی ہے کہ اب دوبارہ کوچنگ کرنا چاہتے ہیں،بورڈ سے انھیں اشارہ مل چکا اور انھوں نے درخواست بھی جمع کرا دی ہے‘‘میں نے کچھ عرصے قبل جب یہ بات سنی تو ان سے یہی کہا تھاکہ محسن بھائی آپ لکھ کر رکھ لیں کوچ یا چیف سلیکٹر کچھ نہیں بنیں گے۔

مصباح الحق کا نام فائنل ہو چکا ہے، یہ سن کر وہ تھوڑے خفا بھی ہوگئے تھے‘‘ ظاہر ہے میں نے محض اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی تھی کہ بورڈ نے اتنی مشکل سے استعفیٰ لے کر ان سے جان چھڑائی اب دوبارہ کیسے کوئی بڑی پوسٹ سونپ دے گا، مصباح کی تقرری کے اعلان سے ایک دن قبل تک محسن خان کو یہی لگتا تھا کہ یہ ذمہ داری ان کو ملنے والی ہے، میں اس وقت یہ سوچ کر حیران تھا کہ کوئی انسان اتنا زیادہ ’’سادہ‘‘ کیسے ہو سکتا ہے جو دیوار پر لکھی اتنی بڑی عبارت بھی نہ پڑھ سکے۔

ویسے اگر دیکھا جائے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا اور سہانے خواب دکھا کر تنہا چھوڑ دیا گیا، انھیں کراچی کرکٹ کی ایک شخصیت کے کہنے پر کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا جس پر بورڈ چیف کو ’’بیڈ چوائس‘‘ کا پیغام بھی موصول ہوا، پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ وسیم اکرم کو بھی ساتھ شامل کر لیا،محسن خان زندگی بھر ’’داغدار‘‘ کرکٹرز کے ساتھ کام نہ کرنے کے نعرے لگاتے رہے مگر عہدہ ملتے ہی جسٹس قیوم کی رپورٹ کو بھول گئے، چند منٹ میں چیئرمین احسان مانی نے ان کی برسوں کی ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کر دیں اور وسیم اکرم انھیں اچھے لگنے لگے۔

مگر جلد ہی بورڈ حکام کو اندازہ ہوگیا کہ وہ غلط شاٹ کھیل گئے ہیں، اب اگر محسن خان کو ہٹایا جاتا تو یوٹرن کی باتیں ہونے لگتیں اس لیے کمیٹی کو ہی غیرفعال کر دیا گیا، پھر مستقبل میں ’’بڑی پوسٹ‘‘کا یقین دلاکر ان سے استعفیٰ لے لیا گیا،حکام نے نعرہ لگایا تھا کہ پی سی بی کرکٹرز کا ارادہ ہے اور اس کے اہم فیصلے وہی کریں گے مگر مجھے اندازہ تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، پاور بڑی خطرناک چیز ہے کوئی بھی اسے کھونا نہیں چاہتا، بعد میں یہی ہوا محسن خان کو ہٹانے کے بعد عبوری طور پر وسیم خان نے سربراہی سنبھالی، اس دوران ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام تبدیل ہو گیا۔

مصباح الحق کو کمیٹی سے ہٹا کر چیف سلیکٹر و ہیڈ کوچ بنا دیا گیا، سرفراز احمد کو گھر بھیج دیا گیا، ویمنز کرکٹ کے بھی اہم فیصلے ہو گئے، جب بورڈ کو لگا کہ اب کوئی ایسا بڑا فیصلہ نہیں بچا جس میں اختلاف سے مسئلہ ہو تو نئے سربراہ کی تلاش شروع ہوئی، جس طرح شریف دولہا ڈھونڈا جاتا ہے یہاں شریف کرکٹ کمیٹی چیف کی تلاش ہونے لگی اور نگاہ اقبال قاسم پر جا کر ٹھہری، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ دیانتدار اور سادہ انسان ہیں، مگر بورڈ نے انھیں اسی لیے چنا ہے کہ وہ من پسند فیصلوں پر خاموش رہیں گے۔

اقبال بھائی کو یہ تاثر رد کرنا ہوگا، عمر گل کو جب احسان مانی نے اپنے کمرے میں بلاکر شیلڈ دی تب ہی واضح ہو گیا تھا کہ ’’بیٹا کرکٹ بہت کھیل لی اب کوئی اور کام تلاش کرو‘‘ جلد ہی کامران اکمل، عمران فرحت و دیگر عمر رسیدہکرکٹرز کیلیے بھی شیلڈز تیار کی جائیں گی،ہاں اگر کوئی 40 سالہ حفیظ کی طرح مصباح کا منظور نظر ہو تو 45 سال کی عمر میں بھی کھیل سکتا ہے۔

عمر گل موجودہ دور میں کرکٹ کھیلے ہوئے ہیں، ان کی شمولیت تو درست لیکن علی نقوی کہاں سے آ گئے، وہ میچ ریفری کی حیثیت سے پہلے ہی بورڈ سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں اب اپنے ادارے سے اختلاف کیسے کر سکیں گے، وہ یس مین اور ’’منی مصباح الحق‘‘ ہیں شاید یہی کوالٹی کام آ گئی،کیا 5،6 ٹیسٹ کھیلے ہوئے کرکٹرز کے سوا بورڈ کو کوئی اور نہیں مل سکتا، باقی عروج ممتاز کے سوا تو بورڈ حکام کو کوئی ویمن کرکٹر نظر ہی نہیں آتی، انھیں چیف سلیکٹر بنایا گیا، وہ کمنٹری بھی کر رہی ہیں اب کرکٹ کمیٹی میں بھی برقرار رکھا گیا۔

ثنا میر کو ٹیم سے ڈراپ کرنے پر وہ ویسے ہی تنقید کی زد میں ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کسی اور خاتون کرکٹر کو یہ عہدہ سونپ دیا جاتا، موجودہ بورڈ حکام ’’مفادات کے ٹکراؤ‘‘ نام کی کسی چڑیا سے واقف ہی نہیں اس کی سب سے بڑی مثال مصباح الحق ہیں، کمیٹی میں وسیم اکرم کو تو شاید نام کیلیے ہی لیا گیا ہے، وہ اب جس مقام پر موجود ہیں وہاں ایسی کمیٹیز کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں۔

خیر اب صاف ظاہر ہے کہ یہ’’ربڑ اسٹیمپ‘‘ کرکٹ کمیٹی ہے، پوری کوشش کی گئی کہ اپنے لوگ یا ایسی شخصیات لی جائیں جو کبھی کوئی فیصلہ ہو تو بغیر چوں چراں کیے اسے منظور کر لیں، مستقبل میں ان کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلائی جائے گی، بدقسمتی سے ان دنوں کرکٹ میں ہمیں کئی مسائل کا سامنا ہے مگر دکھایا ایسا جا رہا ہے جیسے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں۔

کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ اربوں روپے ڈومیسٹک کرکٹ میں پھونکنے سے کیا بہتری آئی؟ بے روزگار کرکٹرز، کوچز و سپورٹ اسٹاف کا کیا بنا؟ بورڈ والے خود لاکھوں روپے لے رہے ہیں مگر کھلاڑیوں کا چند ہزار میں کیسے گذارا ہو رہا ہوگا؟ پورے 2019میں ہم ہارتے رہے۔

آسٹریلیا میں بھی برا حال ہوا مگرکمزور ترین بنگلہ دیش سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں فتح کو ٹویٹر مافیا اور میڈیا کے دوستوں کی مدد سے ایسا بنا کر پیش کیا گیا جیسے ورلڈکپ جیت لیا ہو، افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی دانستہ ان چیزوں سے آنکھیں پھیر لی گئی ہیں، میرے جیسے ایک، دو لوگ آواز اٹھائیں تو انھیں منفی سوچ کا طعنہ دے کر خاموش کرانے کی کوشش ہوتی ہے، ایک دن یقیناً سب کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ ہماری کرکٹ کو کتنا نقصان ہو رہا ہے مگر شاید تب بہت دیر ہو چکی ہو۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کرسکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔