70 سال کی ٹھیکیداری کیوں؟

محمد سعید آرائیں  اتوار 2 فروری 2020

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات نے کوئٹہ میں کہا ہے کہ 72 سالوں سے ملک کی جڑوں میں گھسے کرپشن کے گند کو صاف کرنے کے لیے 15 ماہ ناکافی ہیں ، تاہم حکومت کرپشن زدہ نظام اور کرپشن سے فائدہ اٹھانے والوں کو شکست دے گی۔ معاون خصوصی نے جس دن یہ بات کہی اسی روز بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ سال اس سلسلے میں اسکور 33 تھا جو رواں سال کم ہوکر 32 ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان میں سیاست میں پیسے کا اثر و رسوخ پر قابو پانے اور الیکٹورل ساکھ کو مضبوط بنانے کی سفارش بھی کی گئی۔ ایک وفاقی وزیر نے اس رپورٹ کو لمحہ فکریہ بھی قرار دیا اور رپورٹ کے مستند ہو جانے پر بھی شک کا اظہار کیا جب کہ رپورٹ 13 عالمی اداروں کی رپورٹوں کو دیکھ کر بنائی اور جاری کی گئی ہے اور ماضی میں یہی ادارہ جب مسلم لیگ (ن) کے دور میں کرپشن کی رپورٹیں جاری کرتا تھا تو عمران خان ان پر مکمل یقین کر لیا کرتے تھے اور انھیں مستند بھی قرار دیا کرتے تھے۔

وفاقی حکومت نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ پر سوال اٹھا دیے ہیں اور معاون خصوصی اطلاعات نے کہا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ جاری رپورٹ پر حکومت کو اعتماد نہیں۔ اس کے سربراہ کا تقرر نواز شریف دور میں ہوا تھا اس لیے یہ ادارہ پہلے اپنی ساکھ بہتر بنائے۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی ہر حکومت یہی کرتی آئی ہے کیونکہ رپورٹ اگر حکومت کے مفاد میں نہ ہو تو حکومت اسے مسترد کردیتی ہے اور موجودہ حکومت نے بھی اس سلسلے میں کوئی یوٹرن نہیں لیا بلکہ سابقہ حکومتوں جیسی پالیسی کو برقرار رکھا ہے۔

رپورٹ میں اسکور 33 سے 32 پر آنے کا ذکر ہے جو معمولی ہے اگر رپورٹ میں اسکور صرف ایک زیادہ یعنی 34 ہی ہوتا تو حکومت قوم کو مبارکبادیں دے رہی ہوتی اور معمولی سی بہتری پر خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہوتے۔ یہ کوئی نئی بات نہ ہوتی کیونکہ ماضی میں یہی ہوتا آیا ہے کیونکہ وہ پرانا پاکستان تھا جب کہ اب عمران خان کی حکومت اور نیا پاکستان ہے جس کے لیے عمران خان کا نعرہ کرپشن سے فری پاکستان تھا اور انھوں نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے سابق حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کو کرپٹ ترین قرار دیکر اپنی حکومت کو شفاف ترین اس روز بھی قرار دیا جس دن یہ رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے۔

اپوزیشن بھی معمولی تبدیلی پر بغلیں بجا رہی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت پر تنقید کر رہی ہے کیونکہ عمران خان نے کرپشن کے خلاف ایک موثر مہم چلا کر اقتدار حاصل کیا تھا مگر حالت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی رکن نے ہی ریلوے کی ملازمتوں میں رشوت کا اعلان کیا تھا مگر اس سلسلے میں ماضی کی حکومتوں میں کرپشن کا ڈھنڈورا بڑے زور شور سے پیٹنے والے وزیر ریلوے کا کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا اور روزانہ میڈیا پر نظر آنے والے وزیر کا پتہ نہیں چلا کہ کئی روز وہ اس مسئلے پر کیوں خاموش رہے۔

حکومتی حلیف مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا نے نہ صرف موجودہ حکومت میں کرپشن برقرار رہنے بلکہ اضافے کے بھی الزامات لگائے ہیں جب کہ حکومت کے حامی متعدد اینکروں نے بھی پنجاب حکومت میں ہونے والی کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔ وزیر اطلاعات پنجاب نے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا جب کہ وہ اپنے دوست وفاقی وزیر فواد چوہدری کی طرف سے شکایات پر ضرور برہم ہوئے ہیں اور انھوں نے بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو بھی غلط قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی سے اقتدار ملنے تک عمران خان نے ملک میں کرپشن کے خلاف بھرپور مہم چلائی جو درست بھی تھی اور ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ ماضی میں ہر سطح پر حکومت کرنے والی ہر جماعت میں کرپشن ہوئی تھی اور پی ٹی آئی کے نوے فیصد حکومت میں شامل افراد جو پہلے دوسری پارٹیوں میں تھے اور بعد میں پی ٹی آئی میں آئے ان پر بھی کرپشن کے الزامات تھے مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی اور پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت کے دو وزیروں کو نیب نے گرفتار کیا تھا جو ثبوت نہ ملنے پر ضمانت پر رہا بھی ہوگئے مگر پی ٹی آئی حکومت ضرور متاثر ہوئی۔ ان پر الزامات کا فیصلہ عدالتوں نے ہی کرنا ہے مگر دونوں رہنماؤں اور ان کی پارٹی کی بدنامی ضرور ہوگئی۔

حکومت کو اس سلسلے میں کچھ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ الزامات کی بازگشت زیادہ اہم ہوتی ہے اور اس سلسلے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو مسترد کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ مزید اچھالی جائے گی۔ موجودہ حکومت فرشتوں کی حکومت نہیں اور عمران خان کی ایمانداری کی شہرت ضرور ہے انھیں اس معمولی برتری کا بھی سخت ایکشن لینا ہوگا کیونکہ ان کے بقول اب نیا پاکستان ہے۔

مہنگائی میں غریبوں میں بچت کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے اس لیے وہ رشوت دینے کے لیے قرض لیتے ہیں زیور فروخت کرتے ہیں اس لیے ملازمت ملتے ہی ان کی ترجیح رشوت کا حصول بن جاتی ہے جو ان کی ضرورت سے زیادہ مجبوری بھی ہوتی ہے۔

معاون خصوصی اطلاعات 72سالوں کا گند صرف 15 ماہ میں صاف نہ کیے جانے کی بات کرتے ہوئے یہ بھول گئیں کہ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے 18 ویں ماہ میں ہے جس کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں جو اصلاحات کر رہے ہیں ایسی اصلاحات ماضی میں کبھی نہیں ہوئیں اور اصلاحات تکلیف دہ ہوتی ہیں اور ہم مشکل وقت سے نکل آئے ہیں اور اچھا وقت اب آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن جو وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں کہتی ہیں کہ حکومت کے تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ یہ حکومت کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے اور ہم لوگ پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت میں کرپشن بڑھی ہے جس کی تصدیق اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کردی گئی ہے اور ہماری بات سچ ثابت ہوگئی ہے۔

عمران خان نے اپنی سیاست میں کرپشن کے خاتمے کو اپنا منشور ضرور بنایا تھا جب کہ 72 سالوں سے ہونے والی کرپشن میں تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا دور بھی آجاتا ہے۔ 1988 تک کسی سابق صدر کی حکومت پر تو کرپشن کا الزام آج تک کسی نے نہیں لگایا تو حکومت 72 سالوں کا گند کیوں صاف کرنا چاہتی ہے۔ ملک میں کرپشن کی ابتدا وزیر اعظم زیڈ اے بھٹو کی حکومت سے شروع ہوئی جو 1977 میں ختم کردی گئی تھی جسے 42 سال گزر چکے ہیں اور کرپشن کا الزام عمران خان تین تین باریاں لینے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں پر لگاتے آ رہے ہیں تو 72 سال کی کرپشن تو کریدی ہی نہیں گئی۔ نیب کے مقدمات وہی ہیں جو پی پی اور (ن) لیگ نے ایک دوسرے پر بنائے تھے موجودہ دور کی کرپشن کا ذکر تو ان کے جانے کے بعد آئے گا اس لیے حکومت اب 72 سالوں کی بجائے اپنے دورکی فکر کرے جس کا ڈیڑھ سال مکمل ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔