عالمی برداری کشمیرمیں بھارتی مظالم کے خاتمے کیلئے اپنا کردارادا کرے!!

مشکل گھڑی میں پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑاہے اور ہمیشہ رہے گا: شرکاء کا یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ‘‘ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال ۔  فوٹو : ظفر اسلم راجہ

مشکل گھڑی میں پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑاہے اور ہمیشہ رہے گا: شرکاء کا یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ‘‘ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : ظفر اسلم راجہ

5 فروری کو پاکستان میں کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی برادری کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان مشکل گھڑی میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو مانتا ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ یہ عزم رکھتا ہے کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو ان کا حق دلوانے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

پاکستان کایہ رویہ کشمیریوں کو ان کی آزادی کی جدوجہد میں توانائی مہیا کرتا ہے کیونکہ اسباب کی اس دنیا میں کشمیریوں کی امید اور وابستگی پاکستان کے ساتھ ہے۔ ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اپوزیشن اور حریت رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

علی امین خان گنڈاپور

(وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان)

بھارت مقبوضہ وادی میں ظلم و جبر کی المناک مثالیں قائم کر رہا ہے اور وہاں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف مقبوضہ وادی میں جاری کرفیو سے کشمیریوں کا معاشی اور نسلی قتل کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں موجود بچوں کی عقوبت خانوں میں موجودگی کی خبروں سے بھارت کی حکومت کی پست ذہنیت اور درندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بھارت اوچھے اور انسانیت سوز ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے جذبے کو کچلنا چاہتا ہے جس میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیور اور بہادر کشمیریوں نے پچھلے ستر برسوں سے اپنے جذبہ حریت کو زندہ رکھا ہے ، آج بھی کشمیر ی نوجوان جذبہ حریت سے سرشار ہو کر بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔پوری پاکستانی قوم اور حکومت اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہے۔ پاکستان دنیا کے تمام فورمز پر مسئلہ کشمیر بھرپور انداز امیں اٹھا رہا ہے۔ حال ہی میں مسئلہ کشمیر کا ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث آنا پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا کی دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں متواتر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ دنیا اور انصاف کے عالمی اداروں کو آگے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور بھارت کی جانب سے آر ایس ایس کے ہندو انتہا پسند ایجنڈے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔نریندر مودی اور آر ایس ایس جس انتہا پسند ہندو ایجنڈے پر گامزن ہیں اس سے پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے علاقائی اور عالمی امن پر بڑے خطرناک نتائج ہوں گے۔ پاکستان، بھارت کی ہر قسم کی ہرزہ سرائی کی پرواہ کیے بغیر کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گا۔

بھارت کو پاکستان کے خلاف کارروائی کی دھمکیوں سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ گزشتہ سال پاکستان کے خلاف جارحیت کا نتیجہ کیا نکلا۔ پاکستانی، کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور تمام تر حالات میں کشمیریوں کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے۔ حکومت اور پوری پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر اس عزم کے ساتھ منائے گی کہ حق خوداردیت کے حصول کے لیے آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک کشمیریوں کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔اس موقع پر دنیا بھر میں موجود پاکستانی اپنے کشمیری بہن اور بھائیوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان کشمیر کا مقدمہ دنیا کے ہر فورم پر بھرپور انداز سے لڑ رہے ہیں اور ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرنپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی ایک بارپھر پیشکش خوش آئند ہے۔ حکومت کی سفارتی کوششوں کے باعث مسئلہ کشمیر گزشتہ چند عرصے کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دو مرتبہ زیر بحث آچکا ہے۔ تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مسئلہ کشمیر کو تمام عالمی فورمز پر بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے اور اب جس قسم کی متحرک سفارتکاری کی جارہی ہے اگر گزشتہ حکومتیں بھی اس دیرینہ مسئلے کو ایسی ہی اہمیت دیتیں تو آج کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت کاعظیم مقصد حاصل کر چکے ہوتے۔پاکستان کشمیریوں کے حقوق کے لیے دنیا کا ضمیر جگانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گا اور کسی بھی صورت  اپنے کشمیری بھائیوں کو انتہا پسند آر ایس ایس ہندوؤں کا نشانہ نہیں بننے دے گا۔ دنیا کو اپنے ذاتی سیاسی و معاشی مفادات سے بالا تر کر انسانی اور اخلاقی اقدار کو ترجیح دینا ہوگی۔

نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پورے بھارت میں اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف قابل ِ مذمت امتیازی کارروائیاں کی جا رہی ہیں جس سے خطے کی سلامتی اور استحکام پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر بھارت کی ہندو فاشسٹ پالیسیوںکا نوٹس لے اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عمران خان کے ویژن کے مطابق مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے ہر سطح پر اجاگر کر رہی ہے اور اپنے مقبوضہ کشمیر کے بہن ،بھائیوں کی اس وقت تک سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گی جب تک ان کو حق خود ارادیت نہیں مل جاتا۔

سردار عتیق احمد خان

(سابق وزیراعظم آزاد کشمیر)

مسئلہ کشمیر دنیا کا پیچیدہ ترین مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے اس کی سنجیدگی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک اجلاس، ریلی، احتجاج اور تقریر سے حل نہیں ہوسکتابلکہ اس کے لیے ہمہ جہت و مسلسل کاوشیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان ہرروز ایک نئی چال چل رہا ہے اور کشمیر پر اپنے ناجائز قبضہ کو جائز ثابت کرنے کی نئی حکمت عملی پر کاربند ہے۔

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر حل کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا تاہم ان کے جانے کے بعد سے یہ معاملہ بدترین تعطل کا شکار رہا ۔اب ایک بار پھر مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک کشمیری عوام کی قربانیاں اور دوسری نریندرمودی کی نااہلی و پے درپے غلط اقدامات ہیں۔ ان دو وجوہات کے باعث سلامتی کونسل، اسلامی تعاون تنظیم ، امریکی ایوان نمائندگان، کانگریس، برطانیہ، یورپی یونین سمیت کئی اسلامی ممالک کے ایوانوں میں کشمیر پر بحث ہوئی اور عالمی میڈیا میں یہ مسئلہ اجاگر ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ڈیوس میں تقاریر نے اس مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا اور بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیالہٰذا اب وزیراعظم کی تقاریر کی روشنی میں پالیسی وضع کیا جائے جو ابھی تک نہیں ہوسکی۔ اس وقت کشمیر پر قومی پالیسی کی تشکیل اہم ترین ضرورت ہے۔

پالیسی سازی کیلئے کشمیری قیادت و حریت نمائندوں سے مشاورت پہلا قدم ہوگا۔کشمیر پر1965ء کے بعد یکے بعد دیگرے سلامتی کونسل کے اجلاس ہونا، بہت بڑی پیشرفت ہے۔ اس میں چین کا کلیدی کردار رہا ہے تاہم امریکی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اگر امریکہ نہ چاہتا تو سلامتی کونسل کا اجلاس کسی صورت نہیں ہوسکتا تھا۔ روس نے بھی پہلی مرتبہ کھل کر مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا جو بڑی بات ہے۔اس وقت دنیابھر میں بھارت کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں ہمدردی کے جذبات موجود ہیں ، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس سازگار عالمی ماحول سے استفادہ کرے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر 6 مرتبہ ثالثی کی پیشکش بھی بہت بڑی بات ہے۔

آج اگر ڈیوس اکنامک فورم میں مودی نے شرکت نہیں کی ہے تو اس کی وجہ مسئلہ کشمیر اور شہریت بل پر عالمی دباؤ کا خوف ہے کیونکہ امریکہ، برطانیہ و یورپی یونین کے ایوانوں میں بھارت کے اندرونی حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے کشمیر میں لاک ڈاؤن کے ذریعے اپنی آخری قوت کا مظاہرہ کیا جبکہ کشمیریوں نے اس کے نتیجے میں نئے سفر کا آغاز کیاہے۔ پونے دوسو روزہ لاک ڈاؤن کے دوران کشمیریوں پر ہر قسم کے مظالم و جبر کے باوجود اگر کشمیری زندہ ہیں تو اب ہندوستان کے پاس مزید کیا راستہ بچا ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ 10 لاکھ کی بھارتی فوج بھی کشمیریوں کو نہ دبا سکی۔

ہندوستان میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کیلئے بہت حوصلہ افزاء ہے۔ہندوستان نے کشمیر میں لاک ڈاؤن کے ذریعے ان کی معیشت تباہ کی ہے، وہاںجاری لاک ڈاؤن سے سیب، اخروٹ ، زعفران اور سیاحت کے شعبے کو 25 ارب ڈالر کا نقصان پہنچاہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ حریت رہنماؤں سمیت تمام کشمیری قیادت کے بچاؤ و رہائی کیلئے ہنگامی اقدامات کرے۔ کشمیر میں ذرائع ابلاغ و خوراک کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت پاکستا ن عالمی برادری کو مجبور کرے اور ہندوستان کے مسلمانوں کی نسل کشی و متنازعہ شہریت بل کے خلاف موثر آواز بلند کرے۔

دوست ممالک کے ذریعے خود ہندوستان کی سول سوسائٹی کے ساتھ روابط بڑھا کر اسے متحرک کیاجائے۔ففتھ جنریشن وار کے مقابلے کیلئے پوری قوم کو سوشل میڈیا کے محاذ پر کمر بستہ ہونا چاہیے اور کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے تک اس مشن پر کاربند رہنے کا عہد کرنا چاہیے ۔پاکستانی عوام و افواج پاکستان نے جموں کشمیر کے عوام کو کبھی مایوس نہیں کیا ، اب یہ موجودہ حکومت کیلئے کڑا امتحان ہے کہ وہ کشمیریوں کی کشتی کو پار لگانے کیلئے ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے یا انہیں مایوس کرتی ہے۔

مشعال ملک

(اہلیہ حریت رہنما یاسین ملک)

مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور اس کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جنگی بنیادوں پر عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ چھ ماہ قبل بھارت میں ایک صدارتی حکم کے تحت کشمیری قوم کے حقوق سلب کر لیے گئے اور ملکیتی حقوق بھی ختم کر دیے گئے۔ پہلے کشمیری عوام کو بھارت کی سات لاکھ فوج کا سامنا تھا، اب نہ صرف وادی میں دس لاکھ قابض فوج کو کشمیریوں پر مسلط کیا گیا ہے بلکہ پورے بھارت سے ہندوؤں کو وہاں لے جاکر آباداور کشمیریوں کو ان کی املاک و جائیداد سے بے دخل کیا جا رہا ہے، دنیا کو کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر توجہ دینی چاہیے۔

اس وقت بھارت میں نیو کلیئر کمانڈ دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ پوری دنیا کا امن نیوکلیئر ہتھیاروں کی بھینٹ چڑھ جائے۔ 5 اگست کو بھارتی اقدامات کے خلاف بھارت میں موجود دیگر اقلیتیں خاموش نہ رہتیں تو آج بھارت ’سول وار‘ کا شکار نہ ہو تا۔ آج کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں۔

خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ نوجوانوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کشمیریوں کے تجارت و کاروبار کو تباہ کیا جارہا ہے، نسل کشی کی جارہی ہے اور مقبوضہ وادی کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کیا جا رہا ہے، حریت قیادت جیلوں میں قید ہے، میرے شوہر یاسین ملک گزشتہ ایک سال سے ڈیتھ سیل میں بند ہیں، ان کے مقدمات کی بھی شنوائی نہیں ہو رہی اور نہ ہی انہیں فیملی سے ملنے دیا جا رہاہے ، ان کی زندگی کو شدید خطرات لا حق ہیں کیونکہ انہیں طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جارہی۔ حکومت پاکستان اور عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ یاسین ملک جن پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے کی رہائی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

یاسین ملک کی صحت تیزی سے گر رہی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود انہیں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی۔ انہیں جس ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے اس کے ارد گرد 32 سیل ایسے ہیں جن میں کوئی قیدی نہیں ہے۔ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور مظالم کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی دورپورٹس میں  آشکار کیا ہے جس سے دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی یہ دونوں رپورٹس نہایت اہم اور مستند دستاویز ہیں جنہیں بھارت کے خلاف بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ کشمیری پچھلے ستر سال سے دنیا کو پکار رہے ہیں مگر کوئی انہیں سننے والا نہیں ہے۔ کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں جبکہ سلامتی کونسل کا یکے بعد دیگرے بند کمرہ اجلاس ہونا بھی بہت بڑی پیشرفت ہے تاہم اس کے باوجود پانچ مہینے سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے مگر کشمیر سے کرفیو ختم نہیں ہوا۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ سے مطالبہ ہے کہ وہ کشمیر میں کرفیو ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ حریت قیادت سمیت کئی ہزار نوجوان بھارتی قید میں ہیں، عالمی برداری کو قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھارتی بربریت کے خلاف آواز بلند کریں۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک مستقل پالیسی ترتیب دینی چاہیے ، یہ پالیسی کم از پچاس سالہ پالیسی ہونی چاہیے، جب تک کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت نہیں ملتا، حکومت پاکستان کو اس پالیسی پر کاربند رہنا چاہیے۔ کشمیریوں نے آج تک بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم نہیں کیا، انسانی تاریخ کے بدترین ظلم کے باوجودبھارتی افواج کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو دبانے میں ناکام ہو چکی ہیں، کشمیری عوام کے صبر کی بدولت آج پوری دنیا کے سامنے نام نہادسیکولر بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام اپنا حق آزادی حاصل کر لیں گے۔ مظلوم کشمیری عوام کی بد دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ شہریت کے متنازعہ قانون کی وجہ سے پورے بھارت میں آگ لگ چکی ہے اور ہر ریاست کے عوام مودی سرکار کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

پرویز احمد ایڈووکیٹ

(رہنما حریت کانفرنس)

مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی بقاء و سالمیت کا معاملہ بھی ہے۔ کشمیریوں کا پاکستان سے تعلق چند برسوں کا نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔ آج بھی چودہ اگست کو ہر کشمیری پاکستان کا سبز پرچم لہراتا ہے اور جب کوئی کشمیری شہید ہوتا ہے تو اس کو پاکستانی پرچم میں دفنایا جاتا ہے۔ کشمیریوں نے آج تک کشمیر پر ہندوستانی قبضے کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ بھارت نے کشمیریوں کو دبانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ کبھی 9 لاکھ فوجیوں کے جبر کے ذریعے اور کبھی پیکجز کے ذریعے رکھی۔

کشمیریوں کو خریدنے کی کوشش کی لیکن آج تک کشمیری اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ کشمیریوں کا بنیادی موقف یہ ہے کہ کشمیر، کشمیریوں کا ہے اور اس پر بھارتی قبضہ و تسلط غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ ہندوستان کو پانچ اگست سے قبل تک یہ گمان تھا کہ کشمیریوں کو خریدا جا سکے گا لیکن تمام حربے ناکام ہونے کے بعد مودی سرکار نے پانچ اگست کا اقدام اٹھایا ، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور تقسیم کشمیر کی بنیاد رکھی۔

ہندوستان نے اس دوران کشمیر کا مکمل لاک ڈاؤن کیا۔ ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی، ادویات و خوراک تک رسائی روک دی اور کشمیریوں کی تجارت و کاروبار کو تباہ کردیا۔ ہندوستان کی خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات کے ذریعے جموں سے وزیر اعلیٰ لایا جائے جو ہندوستان کے ان اقدامات کی توثیق کرے۔حریت کانفرنس ہندوستانی آئین کے تحت کسی الیکشن کو نہیں مانتی۔ 1987ء میں کشمیری قیادت سیاسی انداز میں اپنا مقدمہ لڑنے کیلئے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ہندوستان نے حریت لیڈران کو الیکشن سے قبل گرفتار کیا تاکہ کسی صورت حریت و کشمیری قیادت کو انتخابات کے ذریعے کامیاب ہونے سے روکا جائے، جس کے باعث یہ مذاہمتی تحریک کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔

حریت کانفرنس اب بھی بھارتی آئین کے تحت کسی الیکشن کو تسلیم نہیں کرے گی تاہم اگر مستقبل میں اقوام متحدہ کے مبصرین کے ماتحت الیکشن کرائے گئے تو ان میں شرکت کے حوالے سے غور کیا جاسکتا ہے۔حریت کانفرنس وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور ڈیوس میں کشمیر کے بارے میں تقریر کو سراہتی ہے۔

جمعہ کے روز کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے ’کشمیر آور‘ منانا بھی اچھا اقدام تھا۔ حکومت پاکستان نے کشمیر ایشوپر پی فائیو ممالک پر اکتفاء کیا جو اچھی بات ہے لیکن حکومت پاکستان کو دنیا کے تمام ممالک کے دارالحکومت سے رابطہ کرنا چاہے تھا تاکہ ہر جگہ سے کشمیر کیلئے آواز بلند ہو۔پانچ اگست کے بعد بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستانی ردعمل متاثر کن نہیں تھا شاید اس سے مزید بہتر ردعمل دینے کی ضرورت تھی۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ مودی نے پانچ اگست کو یکطرفہ طور پر کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کر دی، سوال یہ ہے کہ کیا شملہ معاہدے کے ہوتے ہوئے ہندوستان ایسا کرسکتا ہے؟ ہندوستان نے تو شملہ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر دی۔ اگر ہندوستان نے یہ قدم اٹھایا ہے تو شملہ معاہدے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔اب کس حیثیت میں ہندوستان اور پاکستان کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔کشمیر میں پانچ اگست سے اب تک لاک ڈاؤن جاری ہے۔

حریت کانفرنس کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کو انٹرنیشنل پروٹیکٹڈ پرسنز قرار دلوانے کیلئے کردار ادا کرے۔ کشمیر کی ڈیمو گرافی میں تبدیلی اور نسل کشی کو روکنے کیلئے عالمی برادری کے ذریعے کردارادا کیا جائے۔حکومت پاکستان کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس بلائے جس میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تجاویز و آراء پیش کی جائیں اور ان کی  روشنی میں کشمیر پالیسی تشکیل دے۔یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تمام سفارتخانوں میں کشمیر ڈے منائے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے ساتھ بھارت کے مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔

راجہ شجاعت

(رہنما تحریک انصاف آزادکشمیر)

کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے حالیہ اقدامات سے نہ صرف اس خطے کی صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے بلکہ خود ہندوستان میں عدم استحکام کی فضا ء پیداہوئی ہے۔ مودی کے اقدامات کے باعث دنیا میں ایک بار پھر مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی و اخلاقی حمایت کی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور حکومت نے دنیا کے سامنے نہ صرف موثر انداز میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا ہے بلکہ بھارت کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس انداز میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا، اس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ملکی تاریخ میں تحریک انصاف کی حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے اور دنیا میں اس ایشو کو اجاگر کیا ہے۔

حکومتی سفارتی کوششوں اور چین کے تعاون سے54 برس بعد سلامتی کونسل میں کشمیر کا مقدمہ سناگیا۔ عالمی ایوانوں میں کشمیر پر بحث ہوئی اورکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹس شائع ہوئیں اور پہلی مرتبہ عالمی میڈیا میں کشمیریوں کے حق میں رپورٹنگ ہوئی۔ مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور کشمیری عوام اس اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

دوسری طرف شہریت ایکٹ کی تبدیلی کے خلاف ہندوستان بھر میں لوگ سڑکوں پر ہیں۔ مودی کے ان اقدامات کے باعث خود ہندوستان میں عدم استحکام کی صورتحال پیداہوچکی ہے اور اب دنیا بھی اس بات کو سمجھ رہی ہے۔ بھارت نے 5اگست کے اقدام کے بعد مقبوضہ علاقے میں بڑی تعداد میں فوج تعینات کر کے عملاً فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ دنیا کو کشمیر کی صورتحال سے بے خبر رکھنے کیلئے نہ صرف الیکٹرانک میڈیا بلکہ پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا گیا۔

قابض انتظامیہ نے کشمیر کی حریت پسند قیادت کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا ، تلاشی، محاصرے اور کریک ڈاؤنز کی کارروائیو ں کے دوران لاتعداد کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گیا جبکہ بے شمار نوجوانوں کوگرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے اور کشمیر ڈیموگرافی تبدیل کرنے کیلئے نت نئے حربے استعمال کئے مگر غیور کشمیریوں نے بھارت کے تمام حربے ناکام بنانے کا عزم کررکھا ہے اور وہ بھارت سے مکمل آزادی حاصل کرنے کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریںگے۔

حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ کشمیر کی پالیسی کو موجودہ صورتحال کے مطابق بنائیں تاکہ کشمیری عوام کو بھارت کے ظلم و ستم سے نجات حاصل ہوسکے۔ بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیے کہ کشمیری حق خود ارادیت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ کشمیریوں نے آزادی کی خاطر بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں جنہیں رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں فوجی پالیسی کو ترک کرکے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔