عمران فاروق قتل کیس میں مزید 2 گواہان کے بیانات قلمبند

ضیغم نقوی  بدھ 5 فروری 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 اسلام آباد: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں مزید 2 گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔

انسداد دہشتگردی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں مزید دو گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔ گواہ محمد اکبر نے ویڈیو لنک کے ذریعے  بیان دیا کہ ملزم معظم نے مجھے ای میل کی کہ وہ اپنی تین بیٹوں کے ہمراہ میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے، میں  نے چھوٹے مکان میں رہنے کی باعث ان کو ساتھ رہنے سے منع کردیا تاہم میں  نے ایک دوست کے ذریعے ان کو رہائش دلوائی میں  نے معظم کو ہیتھرو ائیرپورٹ سے پک کیا میں  معظم کو اپنے ایک دوست شہزاد کے ذریعے جانتا تھا۔

گواہ محمد اکبر نے بتایا کہ میرے کراچی کے ایک اچھے دوست اکبر نے درخواست کی کہ معظم کی دیکھ بال کرے، معظم پہلی بار لندن الطاف حسین کی شادی میں آئے، مجھے معظم کی پہلی بار لندن آنے کے سال کا نہیں پتہ تاہم وہ الطاف حسین کی شادی پر آئے تھے، پہلی بار لندن آنے کے بعد معظم تین چار مرتبہ پھر لندن آئے میں  نے بھی پاکستان کے اس دوران دو چکر لگا ئے۔

گواہ محمد اکبر سے وکیل صفائی نے سوال کیا کہ کیا آپ ان سے پاکستان میں ملے؟ اور کس طرح ملے؟ جس پر گواہ محمد اکبر نے جواب دیا کہ پاکستان کے پہلے دورے پر معظم مجھے لینے کراچی ائیرپورٹ پر آئے، دوسری مرتبہ میں  پاکستان  2012 میں آیا، معظم نے میرے دوست اکبر سے درخواست کی کہ مجھے ان کی جگہ پر لے آئیں۔

وکیل صفائی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں معظم نے آپ کو آنے کا کہا جس پر گواہ محمد اکبر نے کہا وہ جگہ شاید نائن زیرو تھی جب میں معظم سے ملنے وہاں گیا تو مجھ پر خوف طاری ہوگیا، اس جگہ پر چیک پوسٹ تھی اور بہت سے لوگوں کے پاس بندوقیں تھیں، یہ میرا ان کے پاس آخری دورہ تھا، میں  نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں ان کی طرح کا بندہ نہیں ہوں، مجھے یاد نہیں کہ آخری بار میں  نے معظم کو کب ائیرپورٹ سے پک کیا، میں  بہت خوفزدہ ہوں اور سوچتا ہوں کہ اس کیس کی بنا پر مستقبل میں  کبھی پاکستان نہ جا پاؤں گا، میں  لاہور میں  پیدا ہوا، اپنے تین بیٹوں کیساتھ لندن میں رہتا ہوں۔

وکیل صفائی نے پوچھا کہ آپ نے معظم کی لندن میں آپ کے ساتھ رہائش کا کوئی ثبوت نہیں دیا جس پر گواہ محمد اکبر نے کہا معظم میرے ساتھ کھیل رہا تھا، میں  کیسے ثبوت دیتا۔

دوسرے گواہ معین الدین شیخ نے بیان دیا کہ 2013 میں اس کیس سے متعلق پولیس کو بیان دیا تھا، محسن علی سید 2010 میں میرے گھر رہے،  محسن علی سید اسی دکان پر کام کررہے تھے جہاں میں بھی ملازم تھا، محسن رہائش کیلیے کمرہ کی تلاش میں تھا، میں  نے اس کو اپنے گھر میں  کمرہ دیا، محسن نے مجھے پاسپورٹ کی کاپی اور اسٹوڈنٹ کارڈ کی کاپی دی، میں محسن سے 40 پاؤنڈ فی ہفتہ کرایہ لیتا تھا۔

گواہ شیخ معین الدین نے کہا محسن سے کامران نامی شخص ملنے آیا اس کے کچھ عرصے بعد محسن منظر سے غائب ہوگیا، محسن ستمبر 2010 میں غائب ہوگیا، کالج فون کیا تاہم کالج والوں نے بتایا کہ وہ کئی دن سے کالج نہیں آیا، پولیس کو اس حوالے سے اطلاع دی، پولیس کو کامران کا حلیہ بتایا۔

گواہ شیخ معین الدین نے بیان دیا کہ خاتون پولیس اہلکار نے مجھے بتایا کہ محسن کو ڈی پورٹ کردیا گیا ہے، مجھے تاریخ یاد نہیں  کہ آخری بار محسن کو کب دیکھا، عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔