مصباح کی ’’قربانی‘‘ بنتی ہے

ایاز خان  پير 18 نومبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

سانحہ پنڈی کے چند خوفناک حقائق میرے سامنے ہیں۔ میں اس کے پیچھے خفیہ چہروں کو بھی جانتا ہوں لیکن فساد خلق کے پیش نظر سچ کہنے سے ڈرتا ہوں‘ زندگی رہی تو پھر کسی وقت ضرور بیان کروں گا۔ فی الحال آپ کو متحدہ عرب امارات اور جنوبی افریقہ لے جانا چاہتا ہوں۔ پنڈی کی طرح متحدہ عرب امارات میں بھی بہت کچھ ہماری توقعات کے برعکس ہوا اور جنوبی افریقہ میں بھی کوئی توقع وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مصباح اور حفیظ الیون کی پرفارمنس نے شائقین کو مایوس کیا۔ ٹیسٹ سیریز ایک ایک سے برابر ہو گئی۔ ون ڈے سیریز جنوبی افریقہ نے چار ایک سے جیتی اور ٹی ٹوئنٹی کے دونوں میچ اپنے نام کر لیے۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے میں اس ’’سانحہ‘‘ کا ذکر کروں گا جو رونما ہوتے ہوتے رہ گیا۔ جس شام جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کو پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنا تھا اس دن نجی ٹی وی چینلز پر یہ بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی کہ مصباح الحق کو آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور دورہ جنوبی افریقہ میں ان کی جگہ محمد حفیظ کپتانی کریں گے۔ یہ نیوز دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ قومی کرکٹ کو پورے اعزاز کے ساتھ دفنانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ ایک بیٹسمین جس نے رواں سال اب تک 17 سو سے زائد رنز بنائے ہیں اسے آرام دینے کا مقصد تھا اس کا کرکٹ کیرئیر ختم کرنا۔

مصباح الحق نے بطور کپتان کچھ غلطیاں کی ہیں یا اس سے کرائی گئی ہیں۔ ایک تو ٹیم سلیکشن کا مسئلہ ہے اور دوسرا پلیئنگ الیون کا درست انتخاب نہ کیا جانا ہے۔ ون ڈے میچز میں اوپنر ناصر جمشید ناکام ہوئے تو ان کی جگہ لوئر مڈل آرڈر میں کھیلنے والے اسد شفیق کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ تب اسد شفیق کی جگہ صہیب مقصود کو ٹیم میں شامل کیا جاتا تو کہیں بہتر ہوتا۔ چوتھے اور پانچویں ایک روزہ میچوں میں ففٹیاں بنا کر صہیب نے ثابت کر دیا کہ انھیں پہلے ون ڈے سے ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ ہمارا عجیب وطیرہ ہے کہ ہم ینگسٹرز کو موقع دینے کے لیے ان کے بوڑھے ہونے کا انتظار کرتے ہیں‘ بلاول بھٹی کی مثال سامنے ہے‘ اس نوجوان کو ڈھائی تین سال پہلے قومی ٹیم میں شامل ہو جانا چاہیے تھا۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے‘ قومی ٹیم میں جگہ پانے والے اکثر کھلاڑیوں کی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز بنانے کی اوسط 32‘ 33 کے قریب ہے۔ محمد حفیظ ان میں سے ایک ہیں۔ 40 پلس کی ایوریج والے بیٹسمین ہمارے سلیکٹرز کو کیوں دکھائی نہیں دیتے‘ اس کا بہتر جواب وہی دے سکتے ہیں۔

مصباح الحق اور محمد حفیظ کی حالیہ پرفارمنس کا مختصر سا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ون ڈے میں اس سال مصباح الحق گیارہ سو سے زائد رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر ہیں۔ سنگا کارا‘ روہت شرما اور ویرات کوہلی جیسے ان فارم بیٹسمین بھی اس فہرست میں ان کے بعد آتے ہیں۔ ٹیسٹ میچوں میں رنز بنانے کی حیثیت سے ان کا نواں اور یونس خان کا گیارہواں نمبر ہے۔ اس فہرست میں حفیظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ابھی ختم ہونے والی سیریز میں محمد حفیظ کی پرفارمنس یوں رہی۔ 5 ون ڈے میچوں میں ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور 33 اور کم سے کم 6 رہا۔ ٹی ٹوئنٹی کے دونوں میچوں میں وہ کھاتا کھولے بغیر پویلین لوٹ گئے۔ بولنگ میں بھی کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ اس کے برعکس ون ڈے سیریز میں مصباح الحق کا زیادہ سے زیادہ اسکور 65 اور کم سے کم 18رہا۔ دو ٹیسٹ میچوں میں ایک سنچری بنائی اور دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 88 کی اننگز کھیلی۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ دونوں میں سے کس کو ریسٹ کرانا چاہیے تھے۔

سلیکٹرز کے قربان جاؤں کہ انھوں نے عبدالرزاق اور شعیب ملک کو دورہ جنوبی افریقہ کے لیے بھی ٹیم میں شامل کر لیا ہے۔ اب پتہ نہیں کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا ان دونوں کھلاڑیوں میں سے کیا نکالنا چاہتے ہیں۔ کیا ہماری ڈومیسٹک کرکٹ اتنی بانجھ ہو گئی ہے کہ دو ایسے نوجوان کھلاڑی نہیں دے سکتی جو ان کی جگہ لے سکیں۔ اگر دونوں کا کوئی متبادل موجود نہیں اور انھیں کھلانا مجبوری ہے تو محمد یوسف کو بھی قومی ٹیم میں واپس لے آئیں‘ کم از کم پلیئرز کے خلاف ان کے ’’فتوے‘‘ تو ختم ہو جائیں گے۔ عمر اکمل نے پروٹیز کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں49 رنز بنائے تھے جب کہ پوری ٹیم 98رنز بنا پائی تھی۔

تب موصوف نے فرمایا تھا کہ وہ عمر کو بیٹسمین ہی نہیں مانتے۔ مصباح کے بارے میں انھوں نے یہ تبصرہ فرمایا تھا کہ ان میں نیچرل ٹیلنٹ ہی نہیں ہے۔ مصباح ’’معمر‘‘ کپتان ہیں یہ ماننا پڑے گا لیکن انھیں اتنی دیر سے ٹیم میں لانے کا ذمے دار بھی ہمارا کرکٹ بورڈ ہے۔ ان کی نوجوانی کے ابتدائی سال ڈومیسٹک کرکٹ تک محدود کر دیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس وقت ہمارے نوجوانوں سے زیادہ فٹ ہیں۔ مصباح الحق زیادہ عرصہ کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے۔ انھیں ایک دن آرام کے لیے نہیں بلکہ مستقل گھر بھجوانا پڑے گا لیکن کیا اس وقت کی تیاری کر لی گئی ہے؟ ابھی سے کسی ینگسٹر کو تیار کیوں نہیں کیا جاتا کہ وہ مستقبل میں مصباح کی جگہ لے اور قومی ٹیم کا قائد بن جائے۔ عبدالرزاق اور شعیب ملک ٹیم میں واپس آ سکتے ہیں تو یونس خان ون ڈے اسکواڈ کا حصہ کیوں نہیں بن سکتے؟

قومی ٹیم سے ہمیشہ جیت کی امید کیوں؟ ایک ایسی ٹیم جسے انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے ہوم گراؤنڈ میں کھیلنا نصیب نہیں ہوتا وہ ہمیشہ بہترین پرفارمنس کیسے دے سکتی ہے۔ کھلاڑی جب تک اپنی ہوم گراؤنڈز پر انٹرنیشنل میچز نہیں کھیلتے ان میں اعتماد نہیں آتا۔ ہوم گراؤنڈ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے اس کا اندازہ سچن ٹنڈولکر کے آخری میچ سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ سچن کو خراج تحسین پھر کبھی پیش کروں گا۔ عمر اکمل اتنے میچ کھیل گئے لیکن انھوں نے اپنی ہوم گراؤنڈ پر تا حال کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟ جنوبی افریقہ کے مختصر دورے سے مجھے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ ٹیم نے ویسی ہی پرفارمنس دی جیسی امارات میں دی تو پھر سے مصباح کو ریسٹ دینے کی باتیں ہوں گی۔ مجھے ڈیل سٹین کی بات یاد آ رہی ہے جو انھوں نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ جیت کر کہی تھی۔ سٹین کا کہنا تھا ’’پاکستان کے جب چھ کھلاڑی آؤٹ ہو گئے تو میں حیران ہوا‘ مصباح الحق کہاں ہیں‘‘۔ مجھے ڈیل سٹین کے اس بیان پر حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اسے کیا پتہ کہ ہم کس قسم کی قوم ہیں‘ ہمارے لیڈر خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں وہ کیا کرتے ہیں۔ ہمارے ان لیڈروں کو جب کوئی عہدہ مل جاتا ہے تو وہ اسے بچانے کے لیے کسی کو بھی قربان کردیتے ہیں۔ مصباح الحق کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ ٹنڈولکر اگر پاکستان کی طرف سے کھیل رہا ہوتا تو کیا وہ اتنی کرکٹ کھیل جاتا اور اتنے پروٹوکول سے رخصت کیا جاتا؟ ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کیا کہتے ہیں اس بار مصباح کو قربان کر ہی نہ دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔