ریلوے میں کرپشن اور خسارہ کیوں؟

محمد سعید آرائیں  جمعـء 7 فروری 2020

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے دیے گئے ریمارکس کے بعد خود بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ریلوے ایک کرپٹ ادارہ ہے اور موجودہ دور میں ریلوے خسارہ ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔ وزیر ریلوے خسارے کی وجہ ریلوے کے ان ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کو قرار دیتے ہیں جو انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد سے دی جا رہی ہے اور ہر سرکاری ادارہ ہی اپنے ریٹائر ملازمین کو پنشن ادا کرتا ہے، ریلوے پنشن دے کر اپنے ملازمین پر احسان نہیں کر رہا۔

پنشن لینے والوں نے اپنی جوانی ، صلاحیت اور خدمات انجام دیں۔ ریلوے میں ملازمین کی زیادہ تر تعداد نچلے درجے کے ان ملازمین کی بھی ہے جو ریلوے لائن کی حفاظت اور مرمتی کاموں کے لیے مختص ہیں جب کہ ریلوے میں گریڈ بائیس تک کے اعلیٰ افسروں کی بھرمار بھی ہے جن کی ریلوے کے لیے کوئی قابل قدر خدمات نہیں اور ہرحکومت نے اپنوں کو نوازنے اور سفارشی وجوہات پر غیر ضروری طور پر اعلیٰ افسر رکھے ، جن کا کام ریلوے کی خصوصی بوگیوں میں شاہانہ سفرکرنا، رشوت کے حصول اور اپنے عزیزوں کو مختلف ٹھیکے دینا، اپنے جاننے والوں کوجگہ نہ ہونے کے باوجود بھرتی کرانا ، اپنے لوگوں کو بڑے درجے میں ریلوے میں مفت سفرکرانا ہی شامل رہا ہے اور اکثر یہی بڑے افسر ریلوے خسارے کا بڑا سبب ہیں جو لاکھوں روپے رشوت اور تنخواہ لینے کے بعد بھی ریلوے کو نچوڑ رہے ہیں۔

سخت موسم میں ریلوے لائنوں پر مرمتی کام کرنے ، دن رات ریلوے پھاٹکوں اور سگنلز پرکام کرنیوالے نچلے ملازمین کی تنخواہ اور مراعات بھی کم ہیں اور انھیں رشوت بھی نہیں ملتی اور انھیں اپنے جائزکاموں کے لیے اپنے اوپر والوں کو ضرور رشوت دینی پڑتی ہے۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر مختلف اشیا فروخت کرنے کے اسٹال ہیں اور ہر ٹرین میں مختلف اشیا فروخت کرنیوالے ٹھیکیداروں کے ملازمین ہیں جو ٹھیکیداروں کو منہ مانگی رقم دے کر اشیائے ضرورت فروخت کرتے ہیں اور زیادہ تر اشیائے خورونوش سب سے زیادہ مہنگی اور غیر معیاری ہوتی ہیں۔ دو نمبرکولڈ ڈرنکس، منرل واٹر، خراب انڈوں سے بنائے گئے کیک، پیسٹری وبسکٹ، غیر معیاری بازاری دودھ اور مضر صحت پتی سے بنی چائے۔ مضر صحت کھانے ریلوے اسٹیشنوں کے اسٹالوں اور ٹرینوں میں ہی ملتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ریلوے کے با اثر ٹھیکیدار یہ اشیا فروخت کرانے کے لیے بھاری کرائے طلب کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اشیا فروخت کرنیوالوں کو ہر چیز مہنگی اور غیر معیاری فروخت کرنا پڑتی ہے۔ ریلوے میں معیاری اور اچھی چیز ملنے کا تو تصور ہی نہیں ہے اور معیاری اشیائے خوردنی صرف ریلوے افسروں کو اور مفت دینا پڑتی ہیں ورنہ انھیں روزگار کمانے نہیں دیا جاتا۔ ریلوے ٹھیکے رشوت کے بغیر ملنا تو تقریباً ناممکن ہے۔

ریلوے سامان کی ہر ٹرین کی ضرورت ہے اور یہ مشینری اور آلات چلتی ٹرین میں کہیں بھی خراب ہو جاتے ہیں مگر ان کی خریداری ہر ریلوے ڈویژن میں نہیں ہوتی بلکہ بڑے ریلوے ڈویژنوں میں مخصوص پارٹیوں سے خریدے جاتے ہیں، جہاں سوکی چیز ہزار روپے میں فروخت کرانے کے لیے کمیشن طے ہوتا ہے۔ ریلوے سامان کی خریداری میں کرپشن ، گھوسٹ ملازمین اور ضرورت سے زیادہ ملازمین اور اعلیٰ افسران ریلوے خسارے کا اہم سبب ہیں۔

وزیر ریلوے پنشن کی ادائیگی کو خسارے کا بڑا سبب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق یہ خسارہ چالیس بلین سے 36 بلین پر اور ہم 32 بلین پر لائے ہیں اور ہم نے چھ ارب سے زائد کمائے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کو بند اور تباہ حال ریلوے ملی تھی جو انھوں نے نہ صرف مسافروں کا اعتماد حاصل کرکے بحال کی تھی اور ریلوے کے کرائے خاموشی سے بڑھانے کے بجائے اعلانیہ ریلوے کرائے کم کیے تھے اور آج جو ریلوے کما رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیڑھ سال میں متعدد بار خاموشی کے علاوہ اعلانیہ بھی کرائے بڑھائے گئے۔ نئی گاڑیاں چلا کر دکھانے اور وزیر اعظم کو جعلی کارکردگی دکھا کر مبارکباد لینے کے لیے پرانی گاڑیوں کی بوگیاں کم کر کے، پرانی بوگیوں کی مرمت کرا کر جو نئی گاڑیاں چلائی گئی ہیں ان کے لیے اضافی عملہ رکھا گیا۔ جو عملہ اٹھارہ بیس بوگیوں کو دیکھتا تھا وہ اب بارہ چودہ بوگیوں پر مشتمل ٹرینوں پر مامور ہے۔

ریلوے پر مسافروں کا اعتماد ضرور بحال ہوا ہے۔ ملک کی آبادی جس تیزی سے بڑھی ماضی میں ٹرینوں کی تعداد بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی اور بلور کی وزارت میں جان بوجھ کر ریلوے کو تباہ کیا گیا تھا۔ ٹرینیں بند کی گئی تھیں۔ متعدد ریلوے روٹس انجن ناکارہ ہونے سے بند کر دیے گئے تھے۔  گزشتہ چھ سالوں میں مسافروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ معمول کے حالات میں ٹرینیں زیادہ لیٹ نہیں ہو رہیں، گاڑیوں میں بے انتہا رش ہے۔ ہفتوں قبل سفر کے لیے بکنگ کرانی پڑتی ہے۔ شیخ رشید نے فریٹ ٹرینوں پر توجہ دی ہے اور تقریباً پندرہ تک فریٹ ٹرینیں چلنے سے ریلوے آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر چیف جسٹس پاکستان کا یہ کہنا درست ہے کہ شیخ رشید کی توجہ ریلوے سے زیادہ سیاست پر ہے وہ روزانہ حکومتی پیشگوئی کرتے رہتے ہیں۔

شیخ رشید حکومتی ترجمان نہیں ریلوے کے وزیر ہیں مگر وہ روز ہی میڈیا پر آنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے اور ان کی میڈیا ٹاک ریلوے معاملات کے بجائے سیاست خصوصاً شریفوں اور پیپلز پارٹی پر زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ان کی توجہ سیاست سے زیادہ ریلوے معاملات پر ہو تو ریلوے کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے اور وہ ریلوے کے مسائل پر زیادہ وقت دے کر مزید بہتری لا سکتے ہیں۔ شیخ رشید کے دور میں کراچی سے لاہور، راولپنڈی اور پشاور جانے والی گاڑیوں کے کرائے یکساں نہیں مختلف ہیں جب کہ ہر ٹرین کا روٹ اور فاصلہ ایک مگر کرائے زیادہ وصول کیے جا رہے ہیں۔ ریلوے میں ہر دور میں سیاست کا عمل دخل زیادہ اور سیاست زیادہ، کارکردگی کم رہی ہے۔ غیر سیاسی ریلوے وزیروں نے اپنے اپنے دور میں کرپشن اور کمیشن پر توجہ زیادہ دی ہے جب کہ سیاسی ریلوے وزیروں نے محکمے میں آسامیاں نہ ہونے کے باوجود اپنے علاقے کے لوگوں کو غیر ضروری طور بھرتی کرا کر اپنا ووٹ بینک بڑھایا۔

مسلم لیگ(ق) حکومت کے پہلے وزیر ریلوے غوث بخش مہر کے پاس راقم کی موجودگی میں عملے کی بریفنگ دی گئی تھی اس وقت سوا لاکھ تک عملہ اور اعلیٰ افسروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بعد میں شمیم حیدر وزیر ریلوے بنے تھے جنھوں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے پیش رو ریلوے میں تقریباً 8 ہزار اپنے لوگ بھرتی کر گئے ہیں مزید اپنے لوگوں کو کہاں کھپاؤں مجبور ہوں نوکریاں نہیں دے سکتا۔ ریلوے کے ریٹائرڈ ملازمین پنشن اور واجبات کے ریلوے کے چیک کیش نہ ہونے پر ریلوے ہیڈ کوارٹر پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ غیر ضروری افسروں کو فارغ ، مراعات میں کمی اور کرپشن کے خاتمے پر خصوصی توجہ دے کر ریلوے پر مزید خسارہ کم کیا جائے اور کرپشن کی رقم افسروں کی جیب میں جانے سے روکنے پر توجہ دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔