بھارت میں ہندو اکثریت کا دعویٰ! ایک بڑا فراڈ

محمد عاطف شیخ  اتوار 9 فروری 2020
مردم شماری میں ہندوؤں کی اکثریت ثابت کرنے کے لیے اُن لوگوں کو بھی ہندوشمار کیا جاتا ہے جو اِس دھرم سے انکاری ہیں، بھارت میں اقلیتوں کے المیے کی حقیقت آشکار کرتی چشم ُکشا تجزیاتی رپورٹ

مردم شماری میں ہندوؤں کی اکثریت ثابت کرنے کے لیے اُن لوگوں کو بھی ہندوشمار کیا جاتا ہے جو اِس دھرم سے انکاری ہیں، بھارت میں اقلیتوں کے المیے کی حقیقت آشکار کرتی چشم ُکشا تجزیاتی رپورٹ

25 اگست2015ء منگل کے روز  شام 5 بجکر38 منٹ پر بھارت کا پریس انفارمیشن بیورو اپنی وزارتِ داخلہ کی جانب سے ایک مفصل پریس ریلیز جاری کرتا ہے۔ جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آج رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر انڈیا نے 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے اُن نتائج کا اعلان کردیا ہے جو ملک کی چھ مذہبی کمیونٹیز یعنی ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین مذاہب سے تعلق رکھنے والی آبادی سے متعلق ہیں۔

پریس ریلیز کے مطابق ’’2011 میں بھارت کی کل آبادی ایک ارب 21 کروڑ 9 لاکھ تھی۔ جس کا 79.8 فیصد ہندوں، 14.2 فیصد مسلمانوں، 2.3 فیصد عیسائیوں ، 1.7 فیصد سکھوں، صفر عشاریہ سات (0.7) فیصد بدھ مت ،صفر عشاریہ چار (0.4) فیصدجین مذہب، صفر عشاریہ سات(0.7)فیصد، دیگر مذاہب کو ماننے والوں اور جنھوں نے اپنا کوئی مذہب ظاہر نہیں کیا تھا وہ بھارت کی کل آبادی کا صفر عشاریہ دو (0.2) فیصد پر مشتمل تھے‘‘۔ پریس ریلیز میں مختلف مذاہب کے حوالے سے اس صدی کے پہلے عشرے کے دوران آبادی کے تناسب میں اضافہ اور کمی کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق’’ 2001 اور2010 میں ہونے والی مردم شماریوں کے دوران بھارت میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ سات (0.7 ) فیصد پوائینٹ(Percentage Point) کمی واقع ہوئی ۔

سکھوں کی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ دو (0.2 ) فیصد پوائینٹ اور بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ ایک (0.1 ) فیصد پوائینٹ کمی آئی ہے۔جبکہ مسلمانوںکی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ آٹھ (0.8 ) فیصد پوائینٹ (Percentage Point)اضافہ ہوا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ پریس ریلیز میں ایک اور پہلو کو بھی شامل کیا گیا جو 2001 سے2011 کے دوران مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی آبادی میںمجموعی فیصد اضافہ پر مشتمل تھا۔ اسکے مطابق ’’اِن دس سالوں کے دوران بھارت کی آبادی میں 17.7 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ ہندوں کی آبادی میں یہ اضافہ 16.8 فیصدہوا۔ جبکہ عیسائیوں کی آبادی میں15.5 فیصد، سکھوں کی آبادی میں 8.4 فیصد ، بدھ مت کے ماننے والوں کی آبادی میں 6.1 فیصد اور جین مذہب کے پیروکاروں کی تعداد میں 5.4 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 24.6 فیصدمجموعی اضافہ ہوا۔ ‘‘

یہ پریس ریلیزدرحقیقت کسی خبر کے طور پر جاری نہیں کیا گیا تھا  بلکہ اس سے کچھ عزائم حاصل کرنا مقصود تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے ہمیں پریس ریلیز کو دو پہلوؤں سے دیکھنا ہوگا۔ اول مردم شماری 2011 میں ہوتی ہے اور مذہبی وابستگی کے حوالے سے آبادی کے اعدادوشمار چار سال بعد کیوں جاری کیے جاتے ہیں؟ دوم اس زاویہ کو کیوں پریس ریلیز میں نمایاں کیا گیا کہ ہندوں کی آبادی میں کمی اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور ایسا ثابت کرنے کے لیے ایک نہیں بلکہ دو پیمانے استعمال کیے گئے؟

پہلے پہلو کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ بھارت کی سولہویں لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات 7 اپریل سے 12 مئی2014 تک 9 فیزز میں ہوئے اور نتائج کا اعلان الیکشن کمشن آف انڈیا نے16 مئی 2014 کو کیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے543 میں سے 282 نشستیں حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اور نریندر مودی نے انڈیا کے 14 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے26 مئی 2014 کو اپنے عہدہ کا حلف اُٹھایا۔ کامیاب ہونے والی یہ جماعت جہاں بھارت میں اقلیت مخالف خصوصاً مسلمان مخالف پالیسیوں کے بنانے اور اُن کے اطلاق کے حوالے سے بہت جارحانہ رویہ کی حامل ہے وہیںاس کے انتہا پسند اور شدت پسند ہندو تنظیموں اور جماعتوں سے بھی بہت گہرے مراسم ہیں۔جبکہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ تو گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے ہی رنگے ہوئے ہیں۔جب سے یہ جماعت برسر اقتدارآئی ہے ان کے پیش نظر دو بنیادی کام ہیں۔ ایک تو اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا جائے دوسرا ہندوتوا کے اپنے نظریہ کو عملی جامعہ پہنایا جائے۔

اب اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پریس ریلیز کے جاری ہونے کا وقت اور اُ س کے مندرجات کودیکھا جائے تو بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ مذہبی وابستگی پر مبنی اعداوشماراور اُنھیں ایک خاص زویہ سے اجاگر بھارتی جنتا پارٹی نے اپنے اقتدار میں آنے کے سال بعد 2015 میں ایک سیاسی اور مذہبی کارڈ کی شکل میںسرکاری طور پر کیا تاکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط اور دوام دیا جاسکے اور ہندوتوا کے نظریہ پر عمل درآمد کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے۔ اس کے لیے بی جی پی نے اس پریس ریلیز کے ذریعے انڈین میڈیا کے توسط سے ملک میں یہ نام نہاد خوف پیدا کیا کے ہندوں کی آبادی کم ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھ رہی ہے۔

جبکہ درحقیقت مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی رفتار میں نمایاںکمی آئی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 1991 سے2001 تک انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں مجموعی طور پر29.52 فیصد اضافہ ہوا تھا جو 2001 سے2011 کے دوران کم ہوکر24.60 فیصدرہا۔ یعنی آبادی کے تناسب میں کمی یا اضافہ کا جو پیمانہ(Percentage Point) پریس ریلیز میں استعمال کیا گیا ہے اگر ہم اُس کا اطلاق ان اعداوشمار پر کریں تو 1991 سے 2011 تک انڈین مسلمانوں کی آبادی کے مجموعی اضافہ میں 4.92 فیصد پوائنٹ(Percentage Point) کمی واقع ہوئی۔

اس نام نہاد خوف کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ بی جی پی نے 17 ویں لوک سبھا انتخابات منعقدہ 11 اپریل تا19 مئی 2019 میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے 543 کے ایوان میں 303 نشستیں حاصل کر لیں ۔ دوم پورے ملک میں ایسے قوانین اور اقدامات کے اطلاق کا جواز پیدا کر لیا گیا جس کے تحت بھارت کی انتہا پسند اور شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کے دیرینہ خواب ہندوتوا کی تکمیل ہوسکے۔ اس کے لیے سب سے اہم جو قدم اٹھایا گیا وہ ملک میں ہندو آبادی کے اعدادو شمار کو بڑھانا، برقرار کھنا اور منظم کرنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت کی مردم شماری رپورٹ یہ بتا رہی ہے کہ ملک کی 79.8 فیصد آبادی ہندو ہے اور اقلیتوں کی آبادی کا تناسب 20.2 فیصد ہے تو پھر ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ ۔اس سوال کا جواب وضاحت طلب ہے۔جس کے لیے مختلف پس مناظر کوملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آغاز بھارت کے اُس بنیادی دعویٰ سے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی فروری 2017 میں جاری شدہ رپورٹ ’’ Constitutional and Legal Challenges Faced by Religious Minorities in India‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ ’’بھارت خود کو ایک “سیکولر” ملک قرار دیتا ہے۔ تاہم اس کی اس اصطلاح کا تصور امریکی نظریہ سیکولرازم سے بالکل مختلف ہے۔ جسکے مطابق چرچ اور ریاست کو مکمل طور پر الگ کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح فرانسیسی ماڈل لاکیٹی (laïcité) سے بھی یہ مختلف ہے جو مذہبی عقائد کے تئیں ریاست کی غیرجانبداری اور مذہبی اور عوامی شعبوں کی مکمل علیحدگی کی ضمانت دیتا ہے۔بھارتی آئین ایک مذہبی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ریاست کو کسی خاص مذہب کے ساتھ اپنی شناخت ، یا دوسری صورت میں اس کی حمایت کرنے سے روکتا ہے۔

مزید برآںآئین میں متعددایسی دفعات شامل ہیں جو اپنے شہریوں کے مذہب اور مسلک سے قطع نظر مکمل قانونی مساوات پر زور دیتی ہیں اور ان کے مابین کسی بھی قسم کے مذہب پر مبنی امتیازات کی ممانعت کرتی ہیں۔ لیکن نہ ہی قوانین میں اور نہ ہی عملی طور پر مذہب اور ریاست کے مابین کوئی علیحدگی موجود ہے ‘‘۔ رپورٹ کے اس اقتباس اورموجودہ بھارتی حکومت کے ہندوتوا کے عزائم نے انڈیا کے سیکولر ملک ہونے کے نام نہاد بھرم کو بالکل ختم کردیا ہے۔کیونکہ بھارت کی حکومت فعال طریقے سے نہ صرف مندرں کو چلا رہی ہے بلکہ ہندو مذہب کے فروغ کے بارے میں فیصلے بھی کر رہی ہے۔

دوسرا پس منظر بھارتی آئین میں موجود تضادات کو مدنظر رکھنے پر مبنی ہے۔ آئین کی دفعہ 25 کی ذیلی شق 1 اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ’’ تمام افراد ضمیر کی آزادی کے مساوی حقوق،مذہب کے اقرار ،عمل اور تبلیغ کے آزادانہ حق کے مستحق ہیں‘‘ ۔ تاہم اس کی ذیلی شق 2 (بی) کی وضاحت اس آئینی حق کی خود ہی نفی کر رہی ہے جس کے مطابق ’’سکھ ، جین یا بدھ مذہب کے بارے میں دعویٰ کرنے والے افرادکو ہندو ہی سمجھا جائے گا ــ‘‘۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ 2017 میںکہا ہے کہ ’’اس کے نتیجے میں اِن عقائد کے ماننے والے ہندو ذاتی حیثیت کے قوانین(پرسنل اسٹیٹس لا) کے تحت ہیں۔ اور انھیں دوسری اقلیتوں کو حاصل سماجی خدمات، روزگاراور تعلیمی ترجیحات تک رسائی حاصل نہیں۔

اب ایک اور نفی ملاحظہ ہو کہ انڈین آئین کے آرٹیکل 29 ، 30 ، 350 اے ، اور 350 بی میں لفظ “اقلیت” اور اس کی جمع اشکال کا استعمال کیا گیا ہے ، لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ مزید آئینی نفی یہ بھی ہے کہ آئین جہاں واضح طور پر سکھ، جین اور بدھ مذہب کو ہندو اقرار دیتا ہے وہیں وزارت اقلیتی امورجو حکومت ہند کی ایک وزارت ہے جس کا قیام 2006 میںعمل میں لایا گیا۔ یہ بھارت میں مذہبی اقلیتی کمیونٹیز کے لئے مرکزی حکومت کے ریگولیٹری اور ترقیاتی پروگراموں کے لئے ایک اعلی ادارہ ہے اس نے مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، بدھ مت ، زرتشتی (پارسیوں) اور جینوں کومذہبی اقلیتوںکی حیثیت سے بھارتی حکومت کے جانب سے قومی کمیشن برائے اقلیتی ایکٹ1992 کے سیکشن 2 (سی) کے تحت دی گزٹ آف انڈیا میں27 جنوری 2014 کونوٹیفائیڈکیا ہے۔اس کے علاوہ 2011بھارتی مردم شماری میں بھی اُن چھ مذہبی اقلیتوں کے علیحدہ علیحدہ اعدادوشمار  جاری کیئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ بھارتی آئینی آرڈر 1950 کے تحت جس میں 1990 میں ترمیم کی گئی ۔ ملک میں شیڈول کاسٹس یعنی دلت صرف ہندوؤں، سکھوں اور بدھ مت کو منانے والوں پر ہی مشتمل ہوگی۔

تیسرا پس منظربھارتی آئین میں مو جوداورپروٹیکٹڈ بھارت کی آبادی کے تین بڑے گروہ شیڈول قبائل (جنہیں آدی واسی بھی کہتے ہیں) ، شیڈول کاسٹس   ( جنہیں دلت ، اچھوت اور Untouchables بھی کہتے ہیں) اور او بی سیز Other backward classes  کی آبادیوں کا حجم بھارت کے اس دعویٰ کی قلعی کھول دیتا ہے کہ بھارت ہندو اکثریت کا حامل ملک ہے۔کیونکہ 2011 کی بھارتی مردم شماری  کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت شیڈول قبائل کی آبادی دس کروڑ 45 لاکھ45 ہزار سے زائد تھی جو ملکی آبادی کا 8.63 فیصد تھی۔اسی طرح شیڈول کاسٹس کی آبادی بھارت کی آبادی کا 16.63 فیصدیعنی 20 کروڑ 13 لاکھ 78 ہزار تھی۔اس کے علاوہ گورنمنٹ آف انڈیا کی منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ کی ستمبر2018 میں جاری شدہ رپورٹ’’ ہینڈ بک آن سوشل ویلفیئر اسٹیٹسٹکس ـ‘‘ کے مطابق 2011-12 کے دوران Other backward classes  ملک کی 44 فیصد آبادی پر مشتمل تھی۔جبکہ مذہبی اقلیتوں کی آبادی کا تناسب ملکی آبادی کا 20.2 فیصد تھا۔

اس تمام پس منظر میں بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہندو انتہا پسند سوچ کی حامل قوتوں کی زیادہ اکثریت آئین میں اپنے مطلب کی ترامیم اور اُس کا نام نہاد سیکولر تشخص کو ختم کرکے اسے ایک ہندو ریاست کی حیثیت دینے کے لیے ضروری ہے۔ جس کے لیے آئین میں کچھ باتوں کی مزید شمولیت، کچھ کی اپنی پسند کی وضاحت اور کچھ کو حذف کرنا ضروری ہے۔ اس کی واضح مثال شیڈول قبائل کے حوالے سے ہی لے لیں۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی نظام کے تحت ہونے والی تقریباً تمام مردم شماریوں میں شیڈول قبائل کو کبھی بھی ہندو مذہب میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ علیحدہ شناخت کے تحت اُن کی آبادی پر مبنی اعدادوشمار کو علیحدہ کالم میں پیش کیا جاتا تھا۔ 1941 ء کی مردم شماری کے نتائج ویب سائٹ پر آسانی سے دستیاب ہیں جس میں امر کو باخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن اب یو ایس آئی آر ایف کی 2016 کے لئے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق ’’وزارت قبائلی امور سرکاری طور پر ذات پات کے نظام سے باہر 104 ملین سے زیادہ افراد کو شیڈول قبائل  indigenous groups  کو طور پرتسلیم کرتی ہے۔ جو اکثر animism مذہب اوردیگر آبائی مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہیں۔لیکن حکومتی اعدادوشمار میںانھیں ہندو قرار دیا گیا ہے‘‘۔جس کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ شیڈول قبائل کی 80.39 فیصد آبادی کو 2011 میں مردم شماری میںہندو، 9.92 فیصد کو عیسائی اور1.79 فیصد کو مسلمان ظاہر کیا گیا اس کے علاوہ سکھ، بدھ مت، جین مذہب کو ماننے والوں کا تناسب بھی شیڈول قبائل میں موجود ہے لیکن اُن کے اپنے پرانے animism مذہب کا  واضح طور پرذکر تک موجود نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام شیڈول قبائل کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت اپنے آباواجداد کے مذہب کو چھوڑ کر ہندو ہوگئی؟ جو کہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے۔

چلیںایک لمحہ کے لیے مان لیتے ہیں کہ ایسا ہو بھی گیاہے توانڈیا کی 29 ریاستوں میں سے سات ، گجرات (2003) ، ارناچل پردیش (1978) ، راجستھان (2006) ، مدھیہ پردیش (1968) ، ہماچل پردیش (2006) ، اڑیسہ (1967) ، اور چھتیس گڑھ (1968)نے مذہب کی آزادی کا ایک قانون اپنایا ہے جسے عام طور پر مذہب کی تبدیلی کی روک تھام کے قانون کے طور پر جانا جاتا ہے۔جس کے تحت یہ قوانین عام طور پر جھوٹ / غلط بیانی، طاقت ، لالچ یا کسی بھی جعل سازی کے ذریعہ مذہبی تبدیلی پرپابندی عائد کرتے ہیں۔ اورکسی کو بھی شخص کے اس طرح تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔تو پھران شیڈول قبائل کے اپنے آبائی مذہب کی تبدیلی ان قوانین کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟اورہندو آبادی کی جعلی عددی برتری کو ظاہر کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر ہونے والی مذہب کی تبدیلی کے اس گھپلے کی کیا آئینی حیثیت ہے؟

اب تبدیلی مذہب کا ایک اور رخ ملاحظہ ہو۔ آئینی آرڈر 1950 کے مطابق’ جس میں 1990 میں ترمیم کی گئی‘  ملک میں شیڈول کاسٹس یعنی دلت صرف ہندؤں، سکھوں اور بدھ مت کو ماننے والوں پر مشتمل ہوں گے۔اور آئین کے آرٹیکل 341 کے تحت 26 اکتوبر 2017 تک ملک میں شیڈول ذاتوں کی تعداد1284 بتائی گئی۔ان ذاتوں کو تبدیلی مذہب سے بچانے کے لیے جو نام نہاد مراعات کا لالچ انڈین قانون فراہم کرتا ہے ( شیڈول کاسٹس کو سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا 15 فیصد کوٹہ دیا گیا ہے)اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں تو وہ ان تمام مراعات (کوٹہ)سے مستفید نہیں ہو سکتے اور اگر وہ تبدیلی مذہب کے بعد دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیتے ہیں تو وہ دوبارہ سے اُن نام نہاد مراعات کے حق دار ہوں گے۔ یہاں نام نہاد مراعات کی اصطلاح کا استعمال اس لیے کیا گیا کہ وہ معاشرہ جو دلت ہونے کی وجہ سے کسی انسان کو انسان ماننے کو ہی تیار نہ ہو ،جس کے نزدیک وہ ناپاک ہیں اورذات پات کے شکنجے میں جکڑے ہندوں کا دھرم دلتوں سے میل ملاپ، اُنکو چھونے اور اُن کے استعمال شدہ کسی چیز کو استعمال کرنے سے بھرشٹ ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر کسی مخصوص جگہ پر کسی دلت کا آنا جانا چاہے وہ ہندوں کے نزدیک کتنی ہی پاکیزہ حتیٰ کے مندرہی کیوں نہ ہو ناپاک ہو جاتی ہے۔

ایسے میںوہ کیونکر اُنھیں وہ مراعاتی حقوق دیں گے۔ ذات پات کا مو جودہ نظام ہندؤں کو چار درجات برہمن، کشتریوں، ویش اور شودر میں تقسیم کرتا ہے۔ جو 3 ہزاراہم ذاتوں کو مزید25 ہزار ذیلی ذاتوں میں تقسیم کرتا ہے۔لیکن ہندو ذات پات کے باہر دلت اچھوت ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات کے 1655 دیہاتوںکے 98 ہزار دلتوں سے کئے جانے والے اپنی نوعیت کے پہلے وسیع مطالعہ کے مطابق ’’ 97 فیصد جواب دہندگان نے اس بات کا اظہار کیا کہ اُنھیں اپنے دیہہ میں ایسی مخصوص جگہوں’ جن میں مندر یا کوئی ا یسی جگہ جہاں کوئی مذہبی تقریب ہورہی ہو‘ وہاں داخلہ کی اجازت نہیں‘‘۔ یعنی دلتوں کو مذہبی مقامات پر اچھوت پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ زمینی حقیقت ہے۔امتیازی سلوک، غربت اور پُر تشدد حملوں نے اُن کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔

امریکہ کے کمشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر ہفتے 13 دلتوں کو قتل کیا جاتا ہے اور پانچ دلت گھر تباہ کردیئے جاتے ہیں۔ ہر دن تین دلت خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور گیارہ دلتوں پر ہر روز حملہ کیا جاتا ہے۔ ہر اٹھارہ منٹ پر دلت کے خلاف جرم کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں دلت آبادی بڑی تعداد میں اپنے مذہب کو تبدیل کر رہی ہے۔

مذہبی تبدیلی اقلیتوں کے مخالف جذبات میں نمایاں کردار ادا کرتی رہتی ہے اور اسے مذہبی اقلیتیں اپنے خلاف امتیازی قانون سازی اور تشدد کے خلاف ایک ڈھال کے طورپر استعمال کرتی ہیں۔بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہندو دلتوں کا دوسرے مذاہب میں تبدیل ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دلت ایک عرصے سے اسلام، عیسائیت اور کبیر پنتھ جیسے دوسرے برہمن مخالف فرقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔اور انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک کے مطابق بھارت میںمسلمان دلتوں کی تعداد کا اندازہ 10کروڑ سے زائدہے۔ تبدیلی کی تحریکوں کی تاریخ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ دلت صرف اس لئے دوسرے مذاہب میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں کہ وہ ایک مختلف عقیدہ کے نظام پر عمل پیرا ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔بلکہ وہ مذہب اس لیے تبدیل کرتے ہیں کیونکہ وہ ہندو مذہب کومکمل طور پرمسترد کرتے ہیں۔ ہندو مت کو مسترد کرنے کا خیال ہندو قوم پرستوں کے “ہندو راشٹر” کے خواب کے خلاف ہے ، جو بنیادی طور پر اعلی ذات کی بالادستی پر مبنی ایک تصور ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو ہندو قوم پرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں سے قریبی نظریاتی اور تنظیمی روابط رکھنے والی دائیں بازو کی جماعت ہے ۔دلتوں کے مذہب تبدیلی کو روکنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اگرچہ انڈین آئین بھارتی شہریوں کے کسی بھی مذہب کے انتخاب اور اس پر عمل کرنے کے حق کی حفاظت کرتا ہے ۔لیکن بی جے پی نے مختلف ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون نافذ کیا ہے کیونکہ بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی قوتوں کے لیے کسی بھی فرد کا ہندو مذہب کوچھوڑنا اخلاقی اور سیاسی طور پر ناقابل قبول ہے ۔2013 میں گجرات کے جوناگڑھ میں جب60 ہزار کے قریب دلت اور دیگر نچلی ذات کے ممبروں نے بدھ مذہب اختیار کیاتوگجرات کی بی جے پی حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا اور مقامی دلت بدھ مت رہنماؤں کو گرفتار کیا۔

جبکہ آئین بدھ مت کو بھی دلت کے مذہب کے طور پر مانتا ہے۔اسی طرح مدھیہ پردیش میں 2014 میں جب ذات پات اور جبر کی وجہ سے چار دلتوں نے اسلام قبول کیاتو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔دلت مذاہب کی تبدیلی کو ناانصافی کے خلاف احتجاج کے طور پر کسی دوسرے مذہب میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر جولائی 2016 میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ تمل ناڈو میں سینکڑوں دلت دیہاتی ذات پات کے نظام کا سہارا لینے والے ہندوؤں کی جانب سے مقامی مندروں تک رسائی نہ دینے کے بعد اسلام قبول کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ جس پر دائیں بازو کے کارکنوں نے مقامی مسلمانوں پر اس رحجان کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ 2015 ء کے اوائل میںاسی طرح ایک مقامی مندر سے خارج کیے جانے کے بعد والمیکی کمیونٹی کے ایک فرد نے اسلام قبول کرلیا جسے پولیس نے “امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تہہ و بالا کرنے” کے الزام میں مبینہ طور پر گرفتار کرلیا۔ عیسائیوں پر بھی دلتوں کے زبردستی تبدیلی مذہب کے الزامات اکثر لگائے جاتے رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر اپریل 2017 میں اتر پردیش میں پولیس نے دائیں بازو کے ہندو یووا واہینی (right-wing Hindu Yuva Vahini) سے مبینہ طور پر  مذہب کی تبدیلی کی اطلاعات موصول ہونے پر ایک چرچ میںعیسائیوں کو عبادت سے روک دیا۔

انڈیا کے معاشرتی ڈھانچے کا بغور مطالعہ ہمیں دلتوں کی مذہبی تنظیم کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے پہیے کے اندر پہیے کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جہاں ہر ذات سماجی ، مذہبی اور دیگر ذمہ داریوں سے منسلک ہے۔ تحقیقی مطالعات اور تحریروں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ایک عقیدہ نظام کی حیثیت سے دلت مذہبی روایت مرکزی دھارے کے ہندومت سے بہت مختلف ہے۔ ہندو مذہب کے اندر مذہبی اخراج اور معمولی جگہ نے بیشتر دلتوں کو متبادل مذہبی شناختوں کو تلاش کرنے پر مجبور کیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی ، وشو ہندو پریشد ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ، بھارت سادھو سماج وغیرہ جیسی ہندو سیاسی اورانتہا پسند تنظیمیں دلت آبادی کو ہندو طبقے میں رکھنے کی خواہاں ہیں کیونکہ اِن کے عددی وزن کی وجہ سے ہندو برادری میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن جب تک ہندو مذہبیات ، عبادت کے طریقوں اور پجاری کی نوعیت میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہیں لائی جاتیںدلتوں کے لئے ہندو مذہب کے اندر اپنے انسانی وقار کو بحال کرنا ناممکن ہے۔

اگرچہ قوانین مذہبی اقلیتوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے سے بچاتے ہیں۔لیکن بھارت میں مذہب کی آزادی کے اصولوں کو عام طور پر “مذہب کی تبدیلی کی روک تھام کے قوانین” کے نام سے جانا جاتا ہے اور حکمران پارٹی بی جے پی کی طرف سے ملک بھر میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔

برطانوی حکومت کے انڈیپنڈنٹ ایڈوائزری گروپ آن کنٹری انفارمیشن کی ’’کنٹری پالیسی اینڈ انفارمیشن نوٹ انڈیا: ریلیجیس مینارٹیز‘‘ نامی  رپورٹ کے مطابق ’’یہ یکطرفہ ہیںجو صرف ہندو مذہب کو ترک کر کے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے والوں کے بارے میں فکر مند ہیں لیکن ہندومذہب میں شامل ہونے والوں سے نہیں۔بی جے پی کے صدر امِت شاہ مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون سازی کی قومی سطح پر موجودگی کی وکالت کرتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ اپریل 2015 میںبی جے پی کے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی نام نہاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے قومی سطح پرتبدیلی مذہب کے انسداد قانون کا مطالبہ کیا تھا۔  جسے نقادوں نے بنیادی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ قوانین جو شیڈول کاسٹ اور شیڈول قبائل کو امتیازی سلوک اور مظالم سے بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں انہیں کبھی بھی کامیاب قانون سازی نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ بے گناہ افراد کے خلاف ایکٹ کی دفعات کے غلط استعمال کی روش موجود ہے جس کا اقرار بھارتی سپریم کورٹ خود کرچکی ہے کہ ’’ ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ ’ بلیک میلنگ‘ کا ایک ذریعہ بن گیا ہے اور اسے کچھ لوگوں نے انتقام لینے اور ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے‘‘۔

اسی طرح لو جہاد(love jihad ) منصوبے کے نام پر مسلمان مردوں اور ہندوں لڑکیوں کی شادی کو روکا جا رہا ہے۔اور جو شادیاں ہو چکی ہیں ان میں علیحدگی طاقت اورعدالت دونوں ذرائع سے کرائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں عدالتوں میں خصوصی طور پر اُن افراد کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں جو انتہا پسند ہندوں کو ایسی شادیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ ہندو قوم پرست گروہوں خاص طور پر آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) یہ پروپگینڈا کر رہے ہیں کہ مسلمان مرد ایک حکمت عملی کے تحت ہندو خواتین کو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اُنھیں اپنے مذہب میں شامل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کی عددی تعداد کو بڑھایا اور ہندوں کی تعداد کو کم کیا جاسکے۔اس کے مقابلے میں اُنھوں نے ’’ بیٹی بچائو۔۔بہو لائو‘‘ تحریک کا آغاز کیا ہے جس کے تحت مسلمان مرد سے کسی ہندو لڑکی کی شادی کی مکمل حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور اس کے برعکس ہندو مردوں کو یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے شادی کر کے انھیںہندو مذہب میں شامل کریں۔

اگلا پس منظربھارت کی44 فیصد آبادی پرمشتمل دیگر پسماندہ طبقات ( Other backward classes) ہیں ۔ان طبقات کومنڈال کمشن1991 کی سفارشات کے تحت اعلیٰ تعلیمی اداروںاور سرکای ملازمتوں میں 27 فیصد کوٹہ حاصل ہے۔اور اس کوٹہ پر او بی سیز کے علاوہ کوئی اور بھرتی یا داخلہ حاصل نہیں کر سکتا۔ دیگر پسماندہ طبقات کی یہ اصطلاح ان ذاتوں کے لیے مخصوص ہے جوسماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ ہندو ذات پات کے نظام کی سب سے نچلی سطح شودر کی زیادہ ترآبادی اس میں شامل ہے (دلت ہندو ذات پات کے نظام کاحصہ نہیں ہیں)۔اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی کل ہندو آبادی کا 42.8 فیصد، عیسائیوں کی مجموعی آبادی کا41.3 فیصد اور مسلمانوں کی تمام آبادی کا 39.2 فیصد اور زرتشت کی ساری آبادی کا 13.7 فیصد او بی سیز پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ دیگر مذاہب کی بھی کچھ آبادی دیگر پسماندہ طبقات یعنی او بی سیز میں شامل ہیں۔ یہاں دو باتیں اہم ہیں۔

ایک تو یہ کہ کوٹہ تمام او بی سیز کے لیے ہے ناکہ مذہبی اقلیتوں کو اس کوٹہ میں سے کوئی کوٹہ حاصل ہے۔ اس لیے کوٹہ کوہندومت کو اپنائے رکھنے کی ترغیب اور دیگر او بی سی کو ہندو مت میں شامل ہونے کی لالچ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری بات ان طبقات کی بنیادی تعریف ہی سماجی اور تعلیمی پسماندگی ہے۔ ایسی صورت میں لالچ، دھونس دھمکی اور کئی ایک دیگر ہتھکنڈے جس میں سے ایک سیاسی حکمت عملی جوہندو کہلانے یا ہندو مت میں شامل ہونے کے لیے نمایاں کام کرتی شامل ہے۔ مثلاً ہندو وقوم پرست و بنیاد پرست پارٹیوں آر ایس ایس اور وی ایچ پیِ ، او بی سیز کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کی ایک واضح حکمت عملی پرعمل پیرا ہے جس کے تحت اوبی سی کی زیر قیادت بجرنگ دل کی حکمت عملی ہے ، جس کے تحت مقامی سطح پرہندو توا کے گھنائونے کاموں کے لیے بے گھر اور بے وسیلہ گروہوں کو بھرتی اوران کی جسمانی طاقت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بی جی پی پارٹی جو اب اقتدار میں اکثریتی جماعت ہے اُس نے بڑی کامیابی کے ساتھ او بی سی کو اپنی قیادت کی صفوں میں شامل کیا۔ جس کی واضح مثال بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔

اب ایک اور رخ بھی دیکھ لیجیے جو ہندو مذہب سے جداگانہ حیثیت دیئے جانے کے مطالبہ پر مبنی ہے۔بھارت میں ایک کمیونٹی آباد ہے لنگایت، جسے شیڈول قبائل کی طرح برطانوی راج میں کبھی بھی ہندوں میں شامل نہیں کیا گیا لیکن آزادی کے بعدسے اسے بھی سرکاری دستاویزات میں ہندو مت کی ایک شاخ کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے۔ جب کہ وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ انڈیا کے اخبار دی اکنامک ٹائمزمیں 19 مارچ 2018 کو چھپنے والی ایک خبر کے مطابق’’ کرناٹک کی حکومت نے بھارت میں ایک اور مذہبی اقلیت یعنی لنگایت کو تسلیم کرنے کے حق میں فیصلہ کیا ہے ۔

اس سلسلے میں ریاستی اقلیتی کمشن ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کے تحت ناگا موہن کمیٹی کی تجاویز کو قبول کرلیا ہے ۔اب اس تجویز کو حتمی منظوری کے لیے مرکز کو بھیجا جائے گا‘‘۔پھرانڈیا ٹو ڈے میں 12 دسمبر 2018 کو یہ خبرچھپی کہ ’’مرکز نے لنگایت کو علیحدہ مذہبی اقلیت ماننے سے انکار کر دیا ہے‘‘۔اس کمیونٹی کی بھارتی اسٹیٹ کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کی 224 نشستوں میں سے100 نشستیںہوتی ہیں۔خالی کرناٹکا کی17 سے20 فیصد آبادی لنگایت پر مشتمل ہے۔ جبکہ یہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی آباد ہیں۔ دی ٹائمز آف انڈیا کی 10 اکتوبر2013 کی ایک اسٹوری کے مطابق جس میں مہاسبھا کے سنیئر نائب صدر اور کرناٹک یونٹ کے سربراہ این تھپپناکے مطابق پورے انڈیا میں لنگایت کی آبادی4 کروڑ ہے (جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی کا 3.3 فیصد بنتی تھی )ہے۔ اس طرح بھارت کے طول و عرض میں موجود دیگرکئی کمیونٹیز اپنے زبردستی کے ہندو تشخص سے نالاں ہیں اور اپنا علیحدہ مذہبی اقلیتی تشخص چاہتے ہیں ۔ اسی طرح1881 میں کبیرپنتی اور ستنامی (Kabirpanthi and Satnami )کو ہندو مذہب سے الگ مذہب کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ بعد میں اُنھیںبھی ہندوؤں کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔

اب ایک نظر اس جانب بھی ہو کہ بھارت میںہر مذہبی اقلیت کی آبادی میں 2001 سے2011 تک کے دوران ہونے والے انفرادی مجموعی اضافہ کو پیمانہ بناتے ہوئے 2021 میں ہونے والی بھارتی مردم شماری میں مذہبی اکثریت اور اقلیتوں کی آبادی کا جوممکنہ منظر نامہ بن سکتا ہے وہ کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ 2021 میں بھارت کی 21.3 فیصد آبادی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہوگی۔

جو2001 میں20.2 فیصد تھی۔یعنی مذہبی اقلیتوں کی آبادی کے تناسب میں اس عرصہ کے دوران 1.1 فیصد پوائینٹ (پیرسنٹیج پوائینٹ)اضافہ ہو جائے گا۔ 2021 میں صورتحال کچھ یوں ہو گی کہ ملک کی 79.2 فیصد آبادی کا تعلق ہندو مذہب سے ہو گا۔مسلمان15.1 فیصد اور عیسائیوں کی آبادی 2.3 فیصد ہوگی۔ 2011 میں یہ تناسب بالترتیب 79.8 فیصد ، 14.2 فیصداور 2.3 فیصد تھا۔اسی طرح 2001 سے2011 کے دوران شیڈول کاسٹ کی آبادی میں 20.8 اور شیڈول قبائل کے باسیوں کی تعداد میں24 فیصد اضافہ ہوا ۔

اگر اس اضافہ کو پیمانہ مان لیاجائے تو 2021 کی مردم شماری کے وقت بھارت میں شیڈول کاسٹ کی آبادی 24 کروڑ 33 لاکھ64 ہزار اور شیڈول قبائل کی 12 کروڑ 96 لاکھ 13 ہزار ہوجائے گی۔ جو اُس وقت ملک کی مجموعی آبادی کا بالترتیب17.1 اور9.1 فیصد ہوگا۔ جو 2011 میں اول الذکر 16.6 فیصد اور بعدالذکر8.6 فیصد تھا۔ یعنی شیدول کاسٹ کی آبادی کے تناسب میں صفر عشاریہ پانچ(0.5) اور شیڈول قبائل کی آبادی کے تناسب میں بھی صفر عشاریہ پانچ(0.5) فیصد پوائینٹ (پیرسنٹیج پوائینٹ) اضافہ ہوگا۔ ماضی میں اور مستقبل میں ہندو آبادی کے تناسب میں کمی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے تناسب میں اضافہ کی دو بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان دونوں اقلیتوں کی آبادی میں قدرتی اضافہ ہے اور دوسری بڑی اور نمایاں وجہ بھارت کے ذات پات کے نظام میں پسے ہوئے طبقات کی ہندو مذہب کو خیر باد کہنا ہے۔ ان دونوں وجوہات کو روکنے کے حوالے سے کام کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔

1951 میں آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ این آر سی تمام رجسٹرڈ ہندوستانی شہریوں کا سراغ لگانے کا ایک طریقہ تھا ۔ کیونکہ آسام ایک سرحدی ریاست ہے جس میں تارکین وطن کی نمایاںآبادی ہے۔ 2015 میں پہلی بار NRC کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے ایک عمل شروع ہوا۔جس کے تحت 24 مارچ 1971 کے بعد پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کوبھارتی شہریت کی دستاویزات فراہم کرنا پڑیں۔ جولائی 2018 میںانڈین حکومت نے این آر سی کے تحت تقریبا 40 لاکھ افراد کو اس طرح کی دستاویزات فراہم کرنے میں مبینہ طور پر ناکامی کی وجہ سے رجسٹر سے خارج کردیا ۔اب یہ تعداد31 اگست 2019 کو جاری ہونے والی فائنل لسٹ کے مطابق19 لاکھ ہے۔

اور کہا یہ جارہا ہے کہ کوئی بھی شخص جو این آر سی کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے وہ 120 دن کے اندر غیر ملکیوں کے ٹربیونلز کے سامنے اپیل دائر کرسکتا ہے۔ آسام حکومت کے مطابق جب تک غیر ملکی ٹریبونلز نے انہیں غیر ملکی قرار نہ دیا اس وقت تک این آر سی سے باہر رہنے والوں کو کسی بھی حالت میں حراست میں نہیں لیا جائے گا۔اگر کوئی غیر ملکیوں کے ٹربیونل کے فیصلے سے ناخوش ہے تو وہ گوہاٹی ہائی کورٹ اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرسکتا ہے۔دریں اثنا جن کو غیر ملکی ٹربیونلز کے ذریعہ غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جاتا ہے۔اور اُن کی ملک بدری تک انہیں حراستی کیمپوں میں بند کردیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یہ حراستی کیمپ غیر انسانی زندگی کے حالات کے لئے بدنام ہیں۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فہرست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکن اس کو ریاست کی بنگالی برادری کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھ رہے ہیںجن میں سے ایک بڑا حصہ مسلمان ہیں۔تاہم بنگالی بولنے والے ہندوؤں کی کافی تعداد کو بھی شہریت کی فہرست سے ہٹادیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے چار اسپیشل رپورٹرزجن میں مذہب یا عقیدے کے بارے میںآزادی کا خصوصی نمائندہ بھی شامل ہے ۔انھوں نے جون 2018 کو اپنے ایک مشترکہ خط میںاس امر کا اظہار کیا ہے کہ’’ شہریت کی رجسٹری نے آسام میں بنگالی مسلم اقلیت میں تشویش اور خدشات کو جنم دیا ہے۔ جو طویل عرصے سے شہریت کی ضروری دستاویزات ہونے کے باوجود غیر ملکی سمجھے جاتے ہیں‘‘۔

آسام بھارت کی ایک کثیر النسل ریاست ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی پانچویں بڑی اکثریت آسام میں رہائش پذیر ہے۔اس کے علاوہ اس کے باشندوں میں بنگالی اور آسامی زبان بولنے والے ہندو اور قبائلی بھی شامل ہیں۔آسام میں جن کے نام این آر سی میں ظاہر نہیں ہوتے ہیں ثبوت کا بوجھ ان پر ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ شہری ہیں۔ لیکن بہت سے باشندوں کے پاس خصوصاً دیہی افراد کے پاس پیدائشی سند یا دیگر کاغذات نہیں ہیںچونکہ اُن کی نمایاں تعداد اَن پڑھ ہے ۔ یہ بات مد نظر رہے کہ بھارت میں کم شرح خواندگی کے حوالے تمام ریاستوں میں آسام 10 ویں نمبر پر ہے۔ اور ریاست کی ایک چوتھائی آبادی ناخواندہ ہے ۔

ایسی صورتحال میں بے شک اُن کے آبائو اجداد تقسیم سے قبل یا بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہی کیوں نہ نقل مکانی کر کے آسام آئے ہوں۔اپنی جہالت اور غربت کی وجہ سے وہ رہائشی دستاویز کی اہمیت سے بے خبری کے باعث اُن کے لیے اب اپنی شہریت ثابت کرنا بہت مشکل ہوگی ہے۔ان 19 لاکھ کو عدالت کے ذریعے اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع اگرچہ دیا گیا ہے جو فارن ٹریبونلز سے سپریم کورٹ تک ہے۔ لیکن غربت کے مارے یہ بیچارے عدالتی جنگ کو کس حد تک لڑ پائیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ نتیجتاً اکثریت کا مستقبل کا ٹھکانہ حراستی مراکز (detention centres) ہیں۔

جہاں اُنھیں دنیا سے الگ تھلگ رکھا جائے گا ۔انڈین پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ امورنے انکشاف کیا ہے کہ 28 نومبر 2019 تک آسام میں چھ آپریشنل حراستی مراکز موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہلی، گوا،راجھستان اور پنجاب میں بھی یہ ہیں۔ یعنی انڈیا میں اس وقت 10 ایسے مراکز فعال ہیں۔ اس کے علاوہ مزید تین کی بھارت کے مختلف مقامات پر تعمیر کی منظوری دی جاچکی ہے اور تین کے لیے جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ آسام گولپارہ ضلع میںایک بڑا نظربند مرکز جس میں تین ہزار افراد رہائش پزیرہوسکتے ہیں 2.5 ہیکٹر رقبے پر تعمیر کیا جارہا ہے ، جس کا سائز تقریبا سات فٹ بال کے میدانوں کے برابر ہے۔

آسام میں کی جانے والی این آر سی کی سرگرمی سے متاثرہ افراد جن کے بارے میں کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ۔بس اُن کے بارے میں زیادہ تر اتنا ہی کہا جارہا ہے کہ اُن کی واپسی کے لیے اُنکے ملک سے کہا جائے گا۔ تو کیا بنگلہ دیش ان 19 لاکھ افراد کو واپس لے لے گا؟ پڑوسی بنگلہ دیش پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اِن کو نہیں لے گا۔ تو اِن بے ریاست افراد کا کیا مستقبل ہوگا جو شہریت ہی نہیں قومیت اور ریاست سے بھی محروم ہو جائیں گے؟۔مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کہا ہے کہ وہ NRC کے عمل کو پورے ملک میں بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امِت شاہ نے راجیہ سبھا کو 20 نومبر2019 ء کو بتایا تھا کہ’’ ملک بھر میں شہریوں کی قومی رجسٹری (این آر سی)نافذ کی جائے گی‘‘۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور جو کام شروع ہونے جا رہا ہے وہ نیشنل پاپولیشن رجسٹر (NPR ) کو اپ ڈیٹ کرناہے۔ رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر کے دفتر کی ویب سائٹ کے مطابق آسام کے سوا تمام ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں این پی آر کی مشق اپریل سے ستمبر 2020 تک کی جائے گی۔این پی آر کا بنیادی مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش اور اُن کی غیر ملکی شہریوں کے طور پر شناخت کرنا ہے۔ این پی آر میں ہر وہ غیر ملکی شامل گا جو چھ ماہ یا اُس سے زیادہ عرصے سے کسی علاقے میں رہ رہا ہو یا رہنا چاہتا ہو۔ این پی آر کی یہ حالیہ مشق مردم شماری 2021 سے منسلک ہے ۔

نیشنل پاپولیشن رجسٹر یو آئی ڈی اے آئی(Unique Identification Authority of India ) سے بائیو میٹرک تفصیلات کی تصدیق کرے گا۔ لیکن اپنی 15 ڈیموگرافک معلومات سب کو فراہم کرنا ہوں گی۔(بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق اب ان کی تعداد بڑھا کر21 کر دی گئی ہے) یہ بات برملا پورے بھارت میں کہی جارہی ہے کہ این پی آر ملک گیر این آر سی کی جانب پہلا قدم ہے۔اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ ایک بار جب این پی آر مکمل اور شائع ہوجائے گی تو یہ آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی طرز پر بھارتی شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر آئی سی) کی تیاری کی بنیاد ہوگی۔

علاوہ ازیں شہریت ترمیم ایکٹ 2019 بھی میدانِ عمل میں آچکا ہے۔ جس کی مخالفت میں انڈیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ مذہب) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔ ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جو مہاجر 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے تھے انہیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11 سال رہنے کی شرط کو نرم کرتے ہوئے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔

اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دی جائے گی۔بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل نے بی بی سی اردوکو اپنے ایک انٹرویو میں بتایاکہ مودی کے پہلے دور حکومت میں پاسپورٹ کے قانون میں ترمیم کی گئی اور پھر اسی سال انھوں نے فارنرز ایکٹ میں ترمیم کی۔ فوزیہ کا کہنا ہے کہ سی اے اے میں جن چھ مذہبی اقلیتوں کا ذکر ہے اُنھیں ہی پاسپورٹ قانون میں تبدیلی لاکر پہلے انڈیا میں داخلے کی سطح پر چھوٹ فراہم کی گئی کہ وہ بغیر درست دستاویزات یا پاسپورٹ کے انڈیا میں داخل ہو سکتے ہیں اور اگر وہ ویزا کی مدت کے بعد بھی چاہیں تو رک سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فارنرز قانون میں ترمیم کرکے یہ سہولت فراہم کی گئی کہ آپ انھیں حراست میں نہیں لے سکتے گرفتار نہیں کر سکتے اور اب وہ ایک قدم آگے آگئے ہیں کہ یہ لوگ اب شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

اب اس تمام پس منظر اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کا جائزہ لیںتوتمام چیزیں ایک دوسرے سے کڑیوں کی صورت میں واضح طور پر ملی ہوئیں نظر آتی ہیں۔لیکن ممکنہ امکانی پیش منظر کو بیان کرنے سے پہلے بھارت حکومت کا وہی مقصد قابل توجہ ر ہناچاہئے کہ ہندو توا کے نظریہ کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں ہندو مذہب کی واضح منظم عددی برتری کو قائم کیا جائے ۔بی جے پی کی حکومت کا یہ خیال ہے کہ وہ شہریت کے بل کے ذریعے خصوصاً ملکی اور غیر ملکی ہندوؤں کو شہریت دے سکے گی۔

اور دیگر بھارتی ہندو مذہب کے نام پرشہریت پانے والے ہندوں کو قبول کرلیں گے۔جس سے اُن کی عددی برتری میں اضافہ اور ملک میں ہندو اکثریت کی آبادی کے اعدادوشمار منظم ہوں گے (لیکن بھارت کی کئی ایک ریاستوں میں ہندوئوں کی جانب سے بھی اس ایکٹ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے مقامی ہندو اقلیت میں اور باہر کے ہندو اکثریت میں ہو جائیں گے اور اُس سے مقامی ہندوئوں کے حقوق متاثر ہوں گے) ۔ اس کے ساتھ ممکنہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن قرار پانے والے لاکھوں مسلمانوں کو وہ شہریت سے ہی نہیں بلکہ تمام بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دے گی۔جس سے وہ (نعوذباللہ) دوبارہ ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یعنی یہ سب بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی (Mass Conversion)کے لیے سوانگ رچایا جارہا ہے۔

اس کے لیے بھارتی حکومت کی حکمت عملی کیا ہے اس کے چند واضح اشارہ بی جے پی کے صدر امِت شاہ کے بیانات سے ملتے ہیں۔ مثلاً 22اپریل2019 کو اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ پہلے ہم شہریت ترمیمی بل لائیں گے اور ہمسایہ ممالک کے مذہبی اقلیتوں ، ہندو ، بدھ ، سکھ ، جین اور عیسائی مہاجرین کو شہریت دیں گے۔تب ہم اپنے ملک سے دراندازوں کو نکالنے کے لئے این آر سی نافذ کریں گیــ‘‘۔ کچھ عرصہ قبل بنگال میں منعقد ہوئی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ’’آسام کے غیر قانونی بنگالی ہندو تارکین وطن کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی۔ انہیں شہریت دی جائے گی‘‘۔اب ان اعلانات کی روشنی میں صورتحال کو یوں دیکھیں کہ پورے انڈیا میںشہریت ترمیمی بل اور این آر سی کولاگو کر دیا جائے تو کیا شیڈول قبائل، شیڈول کاسٹ اور او بی سی جو کہ ملک کی آبادی کا70 فیصد ہے کیا ان کی اکثریت کے پاس بھارت کی شہریت کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہوں گے؟۔ جس کا معروضی جواب نہیں میں ہے ۔تو کیا پھر بھارت اپنی اتنی بڑی آبادی کو شہریت سے محروم کر دے گا؟ نہیں کبھی نہیں۔ تو پھر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟

ایسا اس لیے کیا جارہا ہے کہ شیڈول قبائل باقاعدہ ہندو آبادی میں شامل ہی نہیںکیونکہ برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی نظام کے تحت ہونے والی تقریباً تمام مردم شماریوں میں شیڈول قبائل کو کبھی بھی ہندو مذہب میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ علیحدہ شناخت کے تحت اُن کی آبادی پر مبنی اعدادوشمار کو علیحدہ کالم میں پیش کیا جاتا تھا۔لیکن اب حکومتی اعدادوشمار میںانھیں ہندو قرار دیا گیا ہے۔ این آر سی کے تحت اُن کی اکثریت کو دستاویزی ثبوت کی عدم فراہمی کی بنیاد پر پہلے شہریت سے بے دخل کیا جائے گا اور بعد میںانھیں بطور ہندوبھارتی شہریت آفر کی جائے گی۔ اسی طرح او بی سی جو ہے ہی تعلیمی اور سماجی طور پرپسماندہ طبقات پر مشتمل کمیونٹی ان کے پاس شہریت کے دستاویزی ثبوت کی قلت اکثریت کے اخراج کا باعث بنے گی۔ لیکن ان پسماندہ طبقات میں سے اُن کو تو دوبارہ شہریت دے دی جائے گی جو اپنے آپ کو ہندو مذہب کے پیروکار بتائیں گے۔

اورباقی اخراج شدگان کی بھی اکثریت جو ہندو نہیں ہیں اپنی جہالت اور پسماندگی کی وجہ سے اس ناگہانی مصیبت سے بچنے کے لیے ہندو مت کے ماننے والے بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذات پات کے شکنجے میں جکڑی شیڈول کاسٹ(دلت) جسے ہندو مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ہی حاصل نہیںجو تیزی سے مذہب تبدیل کر رہی ہے۔

دستاویزی ثبوت کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کی بھی بڑی کثیر تعداد بھارتی شہریت سے نکال دی جائے گی۔ جن دلتوں نے ابھی اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا انھیں NRC کے خوف میں جکڑ کر باندھ لیا جائے گا اور جنہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے اِنھیں گھر واپسی پروگرام کے تحت واپس ہندو مت کو اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اسی طرح لنگایت اور اِن کی طرح دوسری کمیونٹیز جنہیں زبردستی ہندو شمار کیا جاتا ہے اور وہ اپنے جدگانہ مذہبی تشخص کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں اور آواز بلند کررہے ہیں۔ اُنھیں بھی این آر سی کے تحت گھیرا جائے گا اور شہریت ترمیمی بل کے ذریعے جس میں اُن کی کمیونٹی کو شہریت ہندو مت سے علیحدہ شناخت کے طور پر دینے کی کوئی صورت ہی موجود نہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو مذہب کو اپنی مذہبی شناخت کے طور پر تسلیم کر لیں گے۔ اور اُن کی عددی قوت کو توڑ دیا جائے گا۔

اب بات کرتے ہیں اس پوری مشق کے اصل ہدف مسلمانوں کی۔جن کے لئے بھارت میںعرصہ حیات کو تنگ کیا جارہا ہے اور ان کی واضح اقلیتی عددی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شہریت کے دستاویزی ثبوت ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کو مختلف حیلوں بہانوں سے شہریت سے محروم کر کے حراستی مراکز (detention centres) میں مقید کردیا جائے گا۔کیونکہ دی نیو انڈین ایکسپریس کی 21 دسمبر 2019 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اعلی سرکاری عہدیداروں نے واضح کیا ہے کہ آدھار(شناختی نمبر) ، ووٹر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ شہریت کے دستاویزات نہیں ہیں۔

امِت شاہ نے بھی17 دسمبر2019 کو Times Now کو اپنے ایک انٹرویو میں یہی کہا تھا۔پھر مسلمان کیسے ثابت کریں گے اپنی بھارتی شہریت؟۔ تو بھارت سرکار پھر کس ملک سے بات کرے گی کہ یہ قید شدہ مسلمان اُن کے شہری ہیں اور وہ اُنھیں واپس لے لے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ انڈیا ہی کے شہری ہیں اُن کے آبائو اجدادکی قبریں تک وہاں موجود ہیں۔ہاں ان میں سے کچھ جو بنگالی مسلمان یا میانمار کے مسلمان ہیں اورعرصہ دراز سے انڈیا میں آباد ہیں ان کی حکومتیں تو اُن کو واپس لینے پر تیار نہیں ہوںگی۔ توپھر اِن سب مسلمانوں کا کیا ہوگا؟۔جن حراستی مراکز میںاُنھیں رکھا جائے گا۔ اُس میں اُن پر زندگی کو اتنا تنگ کر دیا جائے گا کہ وہ اُس سے متنفر ہوجائیں گے ۔پھر اُنھیں گھر واپسی پروگرام کے ذریعہ ہندو مذہب اختیار کرنے کی دھمکی ،ترغیب اور لالچ دیا جائے گا۔ یوں یہ (Mass Conversion) پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔

اس کے علاوہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوںکی آبادی میں کمی کے لیے جبری طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس مطالبے سے تنازعہ کھڑا کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کردیا جائے شیو سینا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوںکے لئے لازمی خاندانی منصوبہ بندی جیسے اقدامات کے ذریعہ ملک میں ان کی آبادی کی نمو کو روکیں۔یہ بات مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حلیف پارٹی شیو سیناکے ترجمان ’’سامانا‘‘ کے ایک اداریے میں کہی گئی۔

اداریہ میں مزید لکھا گیا کہ ’’صرف آبادی میں اضافہ کرکے کوئی بھی شخص ملک کو پاکستان میں تبدیل کرسکنے کی کوشش کر سکتا ہے‘‘۔ اسی طرح آل انڈیا ہندو مہا سبھاکے نائب صدر سدھوی دیوا ٹھاکر (Sadhvi Deva Thakur) نے ایک اور ایمرجنسی کا مطابہ کیا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائی کمیونٹی پر نس بندی کو لاگو کیا جائے اور ہندو آبادی کو بڑھانے کے لیے مہم چلائی جائے۔اس کے علاوہ بھارت کی مسلم آبادی کے حجم کے بارے میں نہ صرف انتہائی بیان بازی بلکہ نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیںاور یہ تک کہا جاتا ہے کہ مسلمان بھارت چھوڑ دیں۔یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ 2017 کے مطابق بی جے پی کے ممبران جن کے ہندو قوم پرست گروہوں کے ساتھ معروف تعلقات ہیں اُنھوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مذہبی تناؤ میں اضافہ کیا ہے کہ مسلم آبادی میں اضافہ ہندو اکثریت کو کم کرنے کی کوشش ہے۔

2016 میں یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے اعلی اراکین پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے قوانین کا مطالبہ کیا تھا۔ اپریل2016 میں یوگی آدتیہ ناتھ نے عوام الناس کے سامنے مسلمانوں کوبھارت چھوڑنے کی تاکید کی اورکہا کہ وہ وہاں چلے جائیںجہاں شریعت کے قانون پر عمل کیا جاتا ہے۔بات صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں عیسائی بھی اس کی زد میں ہیں۔ شدت پسند ہندوجماعتوں اور تنظیموںکے ممبر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسائی امریکہ کے جاسوس ہیں اور مغربی سامراجی ہیں جو جبری تبدیلی مذہب کے ذریعہ ہندو مت کو ختم کرنے اورانڈیا کو ایک عیسائی ملک بنانے کی کوشش کرتے ہیںیہ کہنا ہے یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ 2017کا۔اسی طرح کنٹری پالیسی اینڈ انفارمیشن نوٹ انڈیا: ریلیجیس منارٹیز نامی رپورٹ کہتی ہے کہ فروری 2016 میں آر ایس ایس نے مبینہ طور پر پورے بھارت میں ٹرین اسٹیشنوں پرپوسٹرز چسپاں کروائے جس میں کہا گیاتھا کہ عیسائی بھارت چھوڑدیں یا ہندو مذہب اختیار کرلیں نہیں تو2021 تک مارے جائیں گے۔

اب بھارتی حکومت اور اُس کے اتحادی جماعتوں اور تنظیموں کی ان تمام تر کارگزاریوںکے پس منظر میں موجوداُس خوف کی حقیقت کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ جس کاانڈیا کے بعض حلقے اب اظہار کر رہے ہیں کہ اُن کی مملکت میں ہندو اکثریت میں نہیں ہیں۔بھارت کی 2011 میں اب تک ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ملک کی20.2 فیصد آبادی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ 8.6 فیصد آبادی شیڈول قبائل پر مشتمل تھی جو ہندو نہیںبلکہ حکومت انھیں زبردستی سرکاری اعدادوشمار میں ہندو ظاہر کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ 16.6 فیصد پر مشتمل دلت آبادی کو عملاً ہندو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اُنھیں مندروں میںجانے کی اجازت نہیں، مذہبی تقریبات میں شرکت کرنے نہیں دی جاتی، جن کے چھونے سے بقول ہندو اشرفیہ چیزیں ناپاک ہوجاتی ہیں۔ جن سے ہر وقت ہر طرح کا سماجی قطع تعلق روا رکھا جاتا ہے۔تو پھر کوئی انھیں کس طرح ہندو مانے یا کہے۔یہ تو ہندو معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر موجود ذات پات کے نظام کا پسا ہوا حصہ ہیں اور اس نظام کے باغی ہیں۔ہندو مذہب سے بغاوت کرنے والی ایک اور کمیونٹی لنگایت کی ہے جو اپنی علیحدہ مذہبی شناخت کی خواں ہے۔

ملکی آبادی کے 3.3 فیصد پر مشتمل ہیں۔ان سب تناسب کو اگر جمع کر لیا جائے تو یہ مجموعی طور پر 48.7 فیصد بنتا ہے۔ اب اگر اس میں دیگر پسماندہ طبقات (OBC ) کی آبادی کے اُس تناسب کو بھی شامل کر لیا جائے جنہیں مردم شماری کا عملہ اپنی جادوگری سے ہندو مذہب کے خانے میں منتقل کردیتا ہے ۔

اگر یہ اعدادوشمار بھی سامنے آجائیں تو صورتحال وہی ہوگی جو بی جے پی اور اُس کے حواریوں کے لیے ڈرائونی حقیقت ہے۔ مردم شماری کا عملہ ایسا کیسے کرتا ہے؟ جب بھی کوئی فرد کسی بھی تسلیم شدہ مذہب کی رکنیت کی تردید کرتا ہے تو مزید تفتیش کیے بغیر مردم شماری کا عملہ اُسے ہندو مذہب میں شامل کردیتا ہے۔ اور جب یہ سوال کسی او بی سی یا شیڈول قبائل یا کاسٹ کے ممبر سے کیا جاتا ہے توجو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اس سرزمین کو ہندستان کہا جاتا ہے اور یہ ہندوؤں کا ملک ہے۔اور اس میں رہنے والے سبھی کو ہندو ہونا چاہئے۔ یہ ترغیبی دھمکی اکثر کام کر جاتی ہے اور لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ہندو شمار کروادیتے ہیں۔

اور ایسا کرنے کا عملہ کو با قاعدہ سرکاری طور پرحکم دیا جاتا ہے۔ یعنی مذہب کے اندراج کے حوالے سے بعض معاملات میں کچھ گنتی کرنے والے انہیں راضی کرتے ہیںکہ وہ خود کو اس طرح درج کریں۔ اور بعض صورتوں میں کچھ گنتی کرنے والے رائے دہندگان کو اُن کی مرضی کے مطابق درج تو کرلیتے ہیں لیکن درج کرانے والے ان باتوں سے لاعلم رہتے ہیں کہ اُن کے بارے میں کیا لکھا گیا ہے اور کس چیز(قلم یا پینسل)سے لکھا گیا ہے۔

انڈیا کے کئی ایک سینئر صحافی بی جے پی کے ان تمام اقدامات کو پورے ملک میں انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش سے تعبیر کر رہے ہیں۔ آسام کے ایک سینئر صحافی نوا ٹھاکریا کہتے ہیں کہ ’’انڈیا کے 60 فیصد ہندو اب ووٹ بینک بن گئے ہیں۔ پہلے دلت ووٹ بینک ہوتا تھا، مسلم ووٹ بینک ہوتا تھا۔ لیکن اب ہندو بھی ووٹ بینک بن چکے ہیں۔ یہ پوری سیاست ملک کے باقی حصوں میں ووٹ بینک مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے‘‘۔جب کہ بین لاقوامی اداروں کی رپورٹس اس حوالے سے کیا کہتی ہیںایک جائزہ ان کا بھی ۔امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس (سی آر ایس) جو قانون سازوں کو باخبر فیصلہ لینے کے لئے وقتاً فوقتاًملکی اور عالمی اہمیت کے امور پر رپورٹس تیار کرتی ہے۔اس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ’’ نریندر مودی کی حکومت کے بنائے گئے شہریت کے ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی) ہندوستان میں مسلم اقلیت کی حیثیت کو متاثر کرسکتا ہے‘‘۔اقوام متحدہ ، ہیومن رائٹس واچ اور بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن ان سب نے

متنبہ کیا ہے کہ یہ صورتحال جلد ہی خوفناک انسانی بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دریں اثنا انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموںاور بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن نے کہا کہ’’ ہندوستان غلط سمت میں ایک خطرناک موڑلے رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس بل کو قانون کی شکل دی جاتی ہے تو امریکہ کو بھارت کے خلاف پابندیوںعائد کرنی چاہیئے‘‘۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے حال ہی میں بھارت میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیاہے۔کیونکہ انڈیا بھر کی متعدد مذہبی اقلیتوں کو دھمکیوں ، نفرت انگیز جرائم ، معاشرتی بائیکاٹ ، عبادت گاہوں کی بے حرمتی ، حملوں اور بنیاد پرست ہندو قوم پرست تحریکوں کے نتیجے میں جبری مذہبی تبدیلیوں میں بی جے پی کی حکومت میںڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے۔بی جے پی(حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی) ، آر ایس ایس ، سنگھ پریوار ، اور وی ایچ پی نے ہندوتوا کے نظریہ کے تحت بھارت کو ہندو مذہب اور ہندو اقدار پر مبنی ریاست بنانا چاتے ہیں۔

جس کے لیے وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد ، امتیازی سلوک اور مذہبی عقائد کے خلاف بیان بازی کا استعمال کرتے ہیں ۔خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور غیر ہندوؤں کو یہ محسوس کراتے ہیں کہ وہ ملک میں ناپسندیدہ ہیں۔امریکہ کے انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم کے حوالے سے قائم کمشن کی’’ کانسٹیٹیوشنل اینڈ لیگل چیلنجز فیسڈ بائے ریلجیس منارٹیز اِن انڈیا‘‘ نامی رپورٹ کے مطابق ’’ قومی اور ریاستی دونوں سطح پربھارتی حکومت اکثر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنے آئینی وعدوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ قومی اور ریاستی قوانین اقلیتی طبقات کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے لئے استعمال ہوتے ہیں‘‘۔

اس سب کا حاصل یہ ہوا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کی جمہوریت پر عالمی اداروں کا اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس 2019 میں بھارت 10 درجے کی کمی کے ساتھ 165 ممالک میں 51 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ “امتیازی شہریت (ترمیم) ایکٹ” جموں و کشمیر کی صورتحال اور متنازعہ این آر سی (شہریوں کا قومی رجسٹر) پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اکنامسٹ نے بھارت کو”شہری آزادیوں کے خاتمے” کے تناظر میں10 میں سے6.9 اسکور دینے کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ یہ اسکور 2006 میں جب انڈکس پہلی بار شائع کیا گیا تھاسے اب تک بھارت کا سب سے کم اسکور ہے۔

جموں کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھی ہندو توا نظریہ کی ایک اہم کڑی ہے مسلمان اگرچہ پورے بھارت میں آباد ہیں لیکن جموں و کشمیر وہ واحد ریاست ہے جہاں آبادی کا68 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ دوسرے نمبر پر آسام کی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 34 فیصد ہے اور اس ریاست میں NRC کے ذریعے مسلم کش کھیل کھیلا جارہا ہے جبکہ مغربی بنگال جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب27 فیصد ہے وہاں بھی بساط بچھائی جارہی ہے۔اس کے علاوہ نگا لینڈوہ ریاست ہے جہاں آبادی کی اکثریت یعنی88 فیصد عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ بھارت میں عیسائی اقلیت کی دوسری بڑی آبادی میزورام (MIZORAM)ریاست میں ہے جہاں کی کل آبادی کا 87 فیصد ان پر مشتمل ہے۔تیسرے نمبر پر MEGHALAYA ریاست ہے جہاں کی آبادی کا 75 فیصد عیسائی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ سکھوں کی پنجاب میں آبادی کا تناسب 58 فیصد اور چندی گڑھ میں 13 فیصد ہے۔

سکم (SIKKIM)کی آبادی کا 27 فیصد بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ بی جے پی حکومت کے لیے جو سب سے تکلیف دہ حقیقت وہ یہ ہے کہ بھارت کی 8 اسٹیٹس میں(اُن کی اپنی مردم شماری کے مطابق) ہندواقلیت میں ہیں۔ جہاں اُن کی آبادی زیادہ سے زیادہ 41 فیصد سے لیکر کم سے کم 2.7 فیصد ہے۔ سکم اور کیرالا میں اُن کی آبادی کا تناسب آدھے سے کچھ زائد یعنی 58 اور55 فیصد بالترتیب ہے۔ان ریاستوں میں سے چند ایک میں تو بی جے پی ہندو اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے کے گھنائونے منصوبوں کا آغازکرچکی ہے اور باقی میں عنقریب شروع ہوجائے گا ۔ لہٰذا مستقبل کا بھارت زور زبردستی اور اقلیتوں کی جبری مذہب تبدیلی کی بنیاد پر بنائی گئی ہندوتوا کی تصویر تو شایدپیش کرے لیکن اس کے نتیجے میں سیکولر بھارت کی موت اس کے وجود کو یقینا پارا پارا کر دے گی۔

نیشنل رجسٹرآف سٹیزن (این آر سی)
این آر سی ایک تصدیق شدہ ڈیجیٹل رجسٹر ہے جس میں ڈیجیٹل شکل میں تمام ہندوستانی شہریوں کے بارے میں نام اور بنیادی آبادیاتی معلومات موجود ہیں۔ ایک شخص جوبھارت میں پیدا ہوا ہے یا جس کے بھارتی والدین ہیں یا کم از کم 11 سالسے بھارت میں مقیم ہے۔وہ بھارتی شہریت کا اہل ہے۔ یہ رجسٹر سب سے پہلے بھارت کی 1951 کی مردم شماری کے بعد تیار کیا گیا تھا ۔ جسے اب حال ہی میں شمال مشرقی بھارتی ریاست آسام میں اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ NRC بھارت کے شہریوں کا پہلا ڈیٹا بیس ہوگا۔جس سے بقال حکومت کے وہ اُن غیر ملکیوں کی شناخت کر سکے گی جو غیر قانونی طور پربھارت میں مقیم ہیں ۔تاکہ انھیں حراست میںلیکر جلاوطن کیا جاسکے جہاں سے وہ آئے ہیں۔اس رجسٹر کی بنیاد پر ایسے افراد کی فہرست بنائی جاتی ہے جن کا بھارت کی شہریت کے حامل ہونے پر کوئی شک ہو۔جن افراد کا نام اس فہرست میں آجائے اُنھیں اپنی شہریت کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنا ہوتا ہے۔

این آر سی کے عمل کی شفافیت کے حوالے سے بھارت بھر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اور اس کے بارے میں ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ انڈیا میں رہنے والی اقلیتوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

ہندوتوا
ہندوتوا ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا اصطلاحی نام ہے۔ یعنی یہ ہندو قومیت کی بالادستی کا متشدد نظریہ ہے۔ ونائیک دمودر سورکر (Vinayak Damodar Savarkar) نے 1923 ء میں اس اصطلاح کا استعمال کیا تھا۔جبکہ قوم پرست ہندو تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا نے اس نظریے کو بام عروج پر پہنچایا۔ آسان الفاظ میں ہندوتوا کے نظریے کے تین کلیدی اصول ہیں(1) ہندو ہندوستان کے حق پرست حکمران ہیںجو ایک ہندو قوم ہے۔ (2) عیسائی اور خاص طور پر مسلم اقلیتوں کوشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کی مذہبی وفاداری ہندوستان میں دیسی نہیں ہے (اس طرح جیسے کہ سکھوں ، بودھوں اور جینوںکی ہے) (3) ذات پات کی تقسیم ہندو اتحاد کو مجروح کرتی ہے۔

آدھار
آدھار ایک 12 ہندسوں کا منفرد شناختی نمبر ہے جوبھارتی باشندوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا سے منسلک ہے۔ اس کا مقصدانڈین شہریوں کی شناخت اوردیگر امور میں مدد کرنا ہے۔جس کوبھارتی رہائشیوں کو منفرد شناختی اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) جاری کرتا ہے۔

این پی آر اور این سی آر میں فرق
نیشنل پاپولیشن رجسٹر بھارت میں رہنے والے تمام لوگوں کاچاہے وہ انڈین شہریت کے حامل ہیں یا نہیںاُن کا ڈیٹا بیس ہے۔ لیکن نیشنل رجسٹر آف سٹیزن صرف بھارتی شہریت کے حامل افراد کا ڈیٹا بیس ہے۔ این آر سی کا عمل مدعا علیہ سے شہریت کا ثبوت مانگتا ہے۔ جو لوگ ثبو ت مہیا نہیں کر پاتے وہ طویل عرصے تک نظربند یا ملک بدر ہوسکتے ہیں۔

حراستی مرکز (Detention Centre )
غیر قانونی تارکین وطن ، پناہ گزینوں ، مقدمے کی سماعت یا سزا کے منتظر افرادیا نوجوان مجرموں کی قلیل مدتی نظربندی کا مرکز۔ پورے بھارت میں اس وقت فعال ایسے مراکز کی تعداد 10 ہے جبکہ مزید 3 کی تعمیر جاری ہے اور3 کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔

بہو لائو ۔۔۔بیٹی بچائو
انتہا پسند ہندوئوں نے یہ تحریک نام نہاد لو جہاد کے ردعمل میں شروع کی ہے ۔ جس میں نوجوان ہندو مردوں کو غیر ہندو لڑکیوں سے شادی اورلڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہندو گھرانوں کی لڑکیوں کو غیر ہندو مذاہب میں شادی سے روکا جاتا ہے۔

دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی)
دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سی(جو انگریزی کےClasses Backward Other کا اختصار ہے) اجتماعی اصطلاح ہے جسے بھارت حکومت اُن ذاتوں کے لیے مخصوص کر چکی ہے جو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ دیگر پسماندہ طبقات کی سینٹرل لسٹ میںدرج ذاتوں کی تعداد 31 مارچ2018 تک 2479 تھی۔

لو جہاد (Love Jihad)
لو جہاد بھارت میں رائج ایک اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کو ہندو انتہا پسندوں نے ایجاد کیا۔ انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر انہیں مسلمان کرکے شادیاں کر رہے ہیں جس کا مقصد بھارت میں ہندوؤں کی آبادی کو ختم کرنا ہے۔لیکن بار بار پولیس کی تفتیش مذہب کی تبدیلی کے کسی ایسے منظم منصوبے کا ثبوت تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لوجہاد کے نام پرتمام مسلمان مردوں کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے جو ہندو خواتین سے زبردستی شادی کرلیتے ہیں۔

شیڈول قبائل
شیڈول قبائل بھارت کے دیسی یا اصل باشندے ہیں ۔ان قبائل کے لئے یہ سرکاری طور پرانڈین آئینی اصطلاح ہے۔ انھیں “آدیواسی” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ اکثر غربت اور امتیازی سلوک کا شکار رہتے ہیں۔ بہت ساری آدیواسی برادریوں کو حکومت نے شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کے نام سے درج کیا ہے ،یہ اصطلاح گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے شروع ہوئی اور ایس ٹی کی اب بھی نوآبادیاتی دور سے شروع ہونے والے اپنے منفرد معیار کی بنیاد پر تعریف کی جاتی ہے(1) قدیم خصلتوں کامظاہرہ (2) مخصوص ثقافت (3) جغرافیائی تنہائی (4) وسیع پیمانے پر کمیونٹی سے روابط میں ہچکچاہٹ (5) پسماندگی۔سینٹرل لسٹ میںدرج شیڈول قبائل کی تعداد 31 دسمبر2017 تک 747 تھی۔

شیڈول کاسٹ (دلت، اچھوت، untouchable)
شیڈول ذاتیں وہ رسمی اصطلاح ہے جوبھارت کے آئین میں ان لوگوں کے لئے پائی جاتی ہیں جو ذات پات کے نظام سے باہر ہیں۔آئینی آرڈر 1950 کے تحت جس میں 1990 میں ترمیم کی گئی اس کے مطابق ملک میں شیڈول کاسٹس یعنی دلت صرف ہندئوں، سکھوں اور بدھ مت کو منانے والوں پر مشتمل ہوں گے۔دلت سے مراد “پسے ہوئے” یا “مظلوم” اور کم ترمعاشرتی طبقہ ہے ۔یہ اصطلاح نوآبادیاتی حکومت ہند کے قانون 1935کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔ان کے بہت سارے لوگوں کو امتیازی سلوک ، غربت اور پرتشدد حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بہت سی دلت ذاتوں کو حکومت نے باضابطہ طور پر درج فہرست ذات (ایس سی) کے نام سے درج کیا ہے۔بھارت کے آرٹیکل341 کے تحت شیڈول ذاتوں کی تعداد 26 اکتوبر2017 تک1284 تھی۔

گھر واپسی
یہ اصطلاح بھارت میں اکیسویں صدی میں ایجاد کردہہے جو نام نہاد طور پر تبدیلی مذہب کی کوششوں اور ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ بھارت میں کئی ہندو تنظیمیں گھر واپسی کے نعرے کو عام کرنے میں لگی ہیں۔ ان میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بجرنگ دل اور ایسی کئی تنظیمیں شامل ہیں۔اس نام نہاد ’’ گھر واپسی‘‘ کے نام سے جبراً ہندو مذہب اختیارکرانے کایہ جواز پیش کیا جارہا ہے کہ بھارت میںخصوصاًاسلام اور عیسائیت کے ماننے والوں کے آبائو اجدادچونکہ ہندو تھے اور اِن مذاہب نے زبردستی اُنھیں ہندو مذہب چھوڑ نے پر مجبور کیا تھالہذا اب بھارت میں رہنے والی مسلمانوں اور عیسائیوں وغیرہ کو دوبارہ اپنے آبائو اجداد کے مذہب کی طرف واپس آجانا چاہیے۔

شہریت ترمیم ایکٹ2019ء
یہ بھارت کی پارلیمنٹ کا منظور کردہ ایک ایکٹ ہے۔اس ایکٹ کے ذریعہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میںبنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔ ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جو مہاجر 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے تھے انہیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11 سال رہنے کی شرط کو نرم کرتے ہوئے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دی جائے گی۔

نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر)
نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) ملک کے معمول کے باشندوں کا ایک رجسٹر ہے جو مقامی (گاؤں / سب ٹاؤن) ، تحصیل ، ضلع ، ریاست اور قومی سطح پر شہریت ایکٹ 1995 اور شہریت کی دفعات2003 ( شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی نمبرکے اجراء کے قواعد)کے تحت تیار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ہر معمول کے باشندے کے لئے لازمی ہے کہ وہ این پی آر میں اندراج کریں۔ این پی آر کے تحت معمول کے باشندے کی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کی جاتی ہے جو پچھلے چھ مہینوں یا اس سے زیادہ عرصے سے کسی مقامی علاقے میں مقیم ہے یا کوئی ایسا شخص جو رہائش کا ارادہ رکھتا ہواگلے چھ مہینوں یا اس سے زیادہ عرصے کا اُس علاقے میں رہنے کا۔بقول حکومت این پی آر کا مقصد ملک میں ہر معمول کے رہائشی کا شناختی جامع ڈیٹا بیس بنانا ہے۔

ڈیٹا بیس میں بائیو میٹرک کی تفصیلات یعنی آدھار ، موبائل نمبر ، پین ، ڈرائیونگ لائسنس ، ووٹر شناختی تفصیلات اور بھارتی پاسپورٹ نمبرکے ساتھ ساتھ ڈیموگرافک تفصیلات شامل ہیں۔یعنی(1) فرد کا نام (2) گھر کے سربراہ سے تعلقات (3) والد کا نام (4) ماں کا نام (4) شریک حیات کا نام (اگر شادی شدہ ہے) (5) جنس ( 6) تاریخ پیدائش (7) ازدواجی حیثیت (8) مقام پیدائش (9) شہریت (جیسا کہ اعلان کیا گیا) (10) معمول کی رہائش کا موجودہ پتہ (11) موجودہ پتے پر قیام کی مدت (12) مستقل (13) رہائشی پتہ (14) پیشہ / سرگرمی (15) تعلیمی قابلیت۔بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اب ان سوالات کی تعداد 15 سے بڑھا کر 21 کردی گئی ہے اور جن 6 سوالات کا اس میں اضافہ کیا گیا ہے وہ پریشان کن ہیں۔

لنگایت کون، ہندو یا غیر ہندو؟
لنگایت 12 ویں صدی کے سنت فلسفیانہ بساوانا کی پیروی کرتے ہیں جنھوں نے رسم و رواج کی عبادت اور ویدوں کی اہمیت کو مسترد کردیا تھا۔لنگایت سکالر اور کرناٹاک یونیورسٹی میں فلسفہ کے ریٹائرڈ پروفیسر این جی مہادیوپا کے مطابق’’ لنگایت مذہب ہندو مذہب سے الگ ہے‘‘۔ ایس ایم جمدارجوکرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیںاور اس مقصد کے سب سے زیادہ مضبوط حامی ہیںوہ کہتے ہیںکہ’’ یہ واحد مذہب ہے جو بت پرستی اور ان رسومات کو کھلے عام مسترد کرتا ہے جو ہندو مذہب سے وابستہ ہیں‘‘۔ ’’انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن آف ایتھکس‘‘ جو 1951 میں شائع ہوا اُس کے صفحہ 69 سے75 تک لنگایت سے متعلق معلومات موجود ہیں۔ مصنف R.E. Enthovan لکھتے ہیں کہ’’ لنگایات ہندو نہیں ہے‘‘۔’’ ہندو مینرز،کسٹمز اینڈ سیرمنیز‘‘ نامی کتاب جو 1821 میں شائع ہوئی اُس کے مصنف J.A. Dubois جو ایک فرانسیسی مشنری کے لئے کام کرنے والے ایک ماہر بشریات تھے۔

اپنی تصنیف میں رقم طراز ہیں کہ لنگایت کا فلسفہ ہندوؤں سے مختلف ہے۔ لارڈ ساؤتھ بورو کی سربراہی میں ایک برطانوی سروے کمیٹی( جس نے انتخاب کے لیے رائے دہندگان کی عمر کی حد طے کرنا تھی) نے 1919 میں لنگایات کو ایک علیحدہ کمیونٹی کے طور پر درج کیا تھا۔سرکاری ریکارڈ میں لنگائیت کو مذہب کے طور پر قرار دینے کا سال 1871 کا ہے جب برصغیر میں پہلی مرتبہ مردم شماری کی گئی تھی۔ دراصل ریاست میسور کی 1871 کی مردم شماری نے لنگایت کو ہندو مذہب سے بالکل مختلف مذہب کے طور پر تعبیر کیا گیا۔

مہاراجہ نے 1891 میں لنگایات کے لئے ایک الگ کوڈ جاری کیا۔1941 میں کمیونٹی رہنماؤں کی ایک میٹنگ میں اس کمیونٹی کے مہاسبھا کی حیثیت سے آل انڈیا لنگائیات مہاسبھا کی شناخت کرنے اور لنگایت کو ایک الگ مذہب قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔1979میںبرادری نے پہلی بار الگ مذہبی ضابطہ اخلاق کا مطالبہ اٹھایا۔1999 میںوفد نے لال کرشن اڈوانی (این ڈی اے حکومت) سے الگ مذہبی حیثیت اور علیحدہ ضابطہ کی درخواست کے ساتھ ملاقات کی۔

اڈوانی اس مطالبے کا ساتھ نہیں دیا۔2009 اور 2013میںکمیونٹی نے علیحدہ اقلیت کے درجہ اور مردم شماری میں علیحدہ کوڈ اور مذہب کے لیے اپیلیں کیں۔بھارت میں لنگایات 8 ریاستوںگجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، کیرالا، تامل ناڈو، اندھرا پردیش اور تلنگانہ میں آباد ہیں۔ کمیونٹی کی زیادہ تر آبادی کرناٹک میں رہائش پذیر ہیں جن کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے ۔ جبکہ پورے ملک میں ان کی آبادی مختلف ذرائع نے مختلف بیان کی ہے۔ جو 4 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔