- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اسرائیل کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
- کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جا رہی ہے، وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
آج بس جاوید اختر کی تین نظمیں
جب تک آپ یہ سطریں پڑھیں گے تب تک کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد سات سو کا ہندسہ عبور کر چکی ہو گی۔بلاشبہ چینیوں نے کرونا وائرس کے متاثرین کے علاج کے لیے ایک ہفتے میں تین بڑے اسپتال کھڑے کر دیے ہیں اور ایسے کارنامے چینیوں کے علاوہ فی زمانہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مگر مجھے کرونا وائرس کے مرکز ووہان شہر میں ہونے والی تین اموات کا بہت دکھ رہے گا۔
ایک وہ عمر رسیدہ شخص جسے قرنطینہ میں ڈال تو دیا گیا مگر کسی ڈاکٹر نے پلٹ کر خبر نہ لی اور اہلِ خانہ کے احتجاج کے باوجود اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ دوسرا وہ شخص جسے قرنطینہ میں ڈال دیا گیا اور اس کی کسی نے نہ سنی کہ گھر پر رہ جانے والے اس کے معذور بیٹے کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔بالٓاخر وہ معذور بیٹا گھر میں اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا بیٹھا بھوکا مر گیا۔حکام نے اس بابت غفلت کے الزام میں مقامی کیمونسٹ پارٹی کے دو افسروں کو معطل کر دیا۔
اور تیسری موت چونتیس سالہ ڈاکٹر لی وین لیانگ کی ہے۔ڈاکٹر لی نے دسمبر کے اواخر میں سب سے پہلے شور مچایا کہ ووہان میں سارس کی طرح کا خطرناک وائرس ہاتھ سے نکل چکا ہے اور ریاست کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ مگر کسی نے ڈاکٹر لی کی وارننگ پر دھیان نہیں دیا۔پولیس نے الٹا انھیں تین جنوری کو پکڑ کے افواہیں اور خوف و ہراس پھیلانے کے الزام میں بند کر دیا اور ان سے اعترافی بیان پر بھی دستخط کروائے کہ میں سماج میں بے چینی پھیلا رہا تھا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر لی خود کرونا وائرس کی چپیٹ میں آ گئے اور حکام کو جنوری کے وسط میں صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔
کل ڈاکٹر لی وین ویانگ کا انتقال ہو گیا۔چینی سوشل میڈیا نے انھیں قومی ہیرو قرار دیا اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر عمالِ ریاست کو لتاڑنا شروع کردیا۔سوشل میڈیا کے بے پناہ دباؤ کے نتیجے میں حکمراں کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار پیپلز ڈیلی کے ٹویٹر پر یہ پیغام نمودار ہوا ’’ ہمیں ووہان کے ڈاکٹر لی وین لیانگ کی موت پر صدمہ ہے۔انھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر وہ آج صبح دو بج کر اٹھاون منٹ پر انتقال کر گئے ‘‘۔
ثابت یہ ہوا کہ جب ہر شہری کو غیر ذمے دار اور سرکاری موقف سے ہٹ کے ہر غیر سرکاری بات کو مشکوک اور بد نیت سمجھ لیا جائے تو پھر لوگ رفتہ رفتہ اپنی سماجی و اجتماعی ذمے داری تیاگ کر چپ ہو جاتے ہیں یا کنارہ پکڑ لیتے ہیں۔اور پھر بولنے کے نتائج اور اس خوف سے پیدا ہونے والی چپ سانحات کو جنم دیتی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے چپ کروانے کا یہ فیشن کرونا وائرس کی طرح ایک بار پھر ہمارے خطے میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ تاحدِ نگاہ نہ بات سنی جا رہی ہے نہ کہنے دی جا رہی ہے۔یہ تجربہ ہزاروں سال سے کیا جا رہا ہے اور ہزاروں سال سے ناکام ہو رہا ہے۔
دل آس پاس کی فضا سے بوجھل ہے۔جاوید اختر کی تین نظمیں پڑھوانے کو جی چاہ رہا ہے۔
جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب، تو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جو روزناموں میں کہیں پاتی نہیں جگہ
جو روز ہر جگہ کی ہے وہ واردات لکھ
جو واقعات ہو چکے ان کا تو ذکر ہے
لیکن جو ہونے چاہئیں وہ واقعات لکھ
( دوسری نظم )
بڑی رونق تھی اس گھر میں یہ گھر ایسا نہیں تھا
گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا
جہاں کچھ شیریں باتیں تھیں وہیں کچھ تلخ باتیں تھیں
مگر ان تلخ باتوں کا اثر ایسا نہیں تھا
انھی شاخوں پے گل تھے ، برگ تھے ، کلیاں تھیں ، غنچے تھے
یہ موسم جب نہ ایسا تھا ، شجر ایسا نہیں تھا
( تیسری نظم )
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے ؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی ؟
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے !
ہماری ریت کی یہ سب فصیلیں ، یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں زرا یہ سرکشی کم کر لیں، اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا ،
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت ، بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی ، یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا ، تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا کتنا ہلکا یہ افسر طے کریں گے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے ، کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنھوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے ان کو زرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں ، وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں، ہتھکڑی میں ، قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا ہو کتنا بھی پر سکوں ، بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔