سندھ حکومت اور بری حکمرانی

جاوید قاضی  اتوار 9 فروری 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ابھی سندھ حکومت آئی جی سے جنگ میں الجھی ہوئی تھی کہ ایک دم سے انھیں اپنی نااہلی اور بری حکمرانی کی وجہ سے سپریم کورٹ میں حاضر ہونا پڑا۔ واٹر کمیشن کے اختتام پر وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب ان کے سر سے بلا ٹل گئی۔

یوں تو واٹر کمیشن جسٹس ریٹائرڈ امیر مسلم ہانی کی سربراہی سے رخصت ہونے کے بعد غیر فعال ہوگئی تھی مگر جو بھی واٹر کمیشن نے بہتر کام کیے وہ دیرپا نہ ٹہرے ۔ جو دیر پا جو ٹھہری وہ صرف بربادی تھی۔ بری حکمرانی و اقربا پروی تھی، اس لیے کہ واٹر کمیشن سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تناظر میں وجود میں آئی جب کہ باقی تمام جو سرزرد ہوا وہ ہمارے نمایندہ حکومت سے ہوا۔

کراچی کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکومت ان کے ووٹ سے نہیں آئی۔ تو یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان کے ووٹ سے جو حکومت آئی اس نے کون سے وہ کام نہیں کیے جو کہ اس حکومت نے کیے ہیں۔ یہ دلیل تو اس وقت بھی دم توڑ دیتی ہے کہ موجودہ حکومت جو لگا تار بارہ سال سے حکومت میں ہے وہ سندھ کے پسماندہ ، مجبور و مظلوم دہقانوں کے ووٹ سے آئی جو غلامی کے دور میں رہتے ہیں اور صدیوں سے وڈیروں کے شکنجے میں جھکڑے رہتے ہیں۔ اس کے بر عکس جو پڑھے لکھے مڈل کلاس شہری کے ووٹ تھے وہ یقینا وڈیروں کو نہ ملے۔

کلاس کے اعتبار سے واقعی میں انقلابی قدم تھا۔ پاکستان کے انتہائی مختلف زاویے اور صحت مند انداز سے ووٹ تھا کہ باقی مانندہ دیہی پاکستان کے برعکس طبقاتی و قومی سوچ کے تناظر پر ووٹ تھا۔ مگر یہی ووٹ جب تک بھٹو زندھ تھے ملک کی مجموعی جمہوری و سول حکمرانی کے حق کے میں ڈالا گیا۔ بھٹو دیہی سندھ کو پہلی بار ملک کی سیاست سے جوڑ گئے۔ اس سے پہلے یہ وڈیرے ایوب، یا کسی اور سول آمر کی بنائی ہوئی مسلم لیگ کے اتحادی تھے۔ بھٹو پاپولر لیڈر بن کے ابھر ے اور پھر وڈیرے بھی وہیں پہنچ گئے۔ جیسے ہی بھٹو گئے،وہ جنرل ضیاء الحق کی طرف چلے گئے ۔

بینظیر آئی تو وہ غریب مظلوم ، دہقانوں کی لیڈر تھی۔ مگر پھر وہ بھی اقتداری سیاست کے دائو و پیچ جو اسوقت نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی گیم کھیلتے تھے وہی پتے کھیلنے پے مجبور ہوئی جو غیر جمہوری تھے۔ اس وقت 58(2)(b) کی تلوار بھی لٹکی تھی۔ لاہور کے وزیر اعظم اور لاڑکانہ کے وزیر اعظم میں فرق کیوں؟ یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے اختلافی ججمنٹ میں لکھوایا۔ لیکن پھر آگے کیا ہوا جب وہ خود چیف جسٹس بنے اور وہی 58(2)(b) جو صدر فاروق لغاری کی صادر کردہ تھی اسکو صحیح قرار دے بیٹھے!

اب یہ ہے وہ پیپلز پارٹی جس کی باگ ڈور ا ب کسی مقبول لیڈر کے پاس نہیں۔ ان بارہ سالوں میں بری حکمرانی کے وہ تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے کہ جس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں مگر کیا یہ سب کچھ صرف یہاں ہو رہا ہے؟ پنجاب یا کے پی کے اور بلوچستان میں سب ٹھیک ہے؟ کیا وفاق میں بھی سب ٹھیک ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی بہت تیزی سے اپنی پرانی شکل تبدیل کر بیٹھی ۔ وہ ا ب شرفاء کی پارٹی ہے ۔ اور وہ شرفاء کوئی اور نہیں سندھ کے وڈیرے ہیں ۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر واقعی بھٹو نے سندھ کی کایا پلٹی ہے تو کیا وجہ ہے آج 75 سال بعد بھی ایک بھی سندھی شہری ووٹ لے کر مڈل کلاس کی حیثیت میں شاہ لطیف یا صوفی بیانیہ یا کوئی قوم پرستی بیانیہ لے کے قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکا۔

اب تو انھوں نے اسکول ، اسپتالیں بھی تباہ کر دیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں کا میونسپل سسٹم بھی تباہ کردیا ۔ پورے سندھ کی بیوروکریسی اور پولیس کو بھی خستہ حال بنا دیا۔ اور اب سندھ پاکستان میں بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ سندھ کے وڈیرے کو اپنی پسند کا پولیس افسر چاہیے ۔ اس کو پٹواری بھی چاہیے کہ وہ سرکاری زمینوں اور غریب دہقانوں کی زمینوں پر قبضہ کرسکے ۔ اب یہاں آسامیاں نیلام ہوتی ہیں۔ یہاں اسپتالوں کے سپریٹنڈینٹ کے پاس کروڑوں روپے کی دوائیں خریدنے کے لیے فنڈز ہیں اور مریضوں کو ایک گولی بھی نہیں ملتی تو پھر یہ پیسے کہاں جاتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس ، ایڈز ، ذہنی معذوری ، بچوں کا غذائی قلت سے مرجانا سندھ نے سب ریکارڈ توڑ دیے۔ اب ان کو ایک نیا بیانیہ بھی ملا ہے جو کہ صحیح بھی ہے مگر جو ان کے وکیل ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔ سندھ کے این ایف سے کے پیسے ، سندھ کا گیس کا اپنا حق اور سندھ کے وزیر اعلیٰ یا سندھ حکومت کی مرضی کا آئی جی۔ لیکن جو وکیل ہیں اور وہ جو سندہ کا حشر کررہے ہیں اس کا کیا؟ ۔ اس پر سندھ کا کیس کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو مگر ناہل اور نالائق وکیل کی وجہ سے وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔

کتنے واضع انداز میں آئین آرٹیکل 140A میں بلدیاتی اختیارات کے بارے میں لکھتا ہے اور یہ آرٹیکل آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا۔ سندھ حکومت نے کیا یہ آئینی حقوق و اختیارات نچلی سطح تک میونسپلٹی وغیرہ کو دیے؟ اور اگر نہیں دیے تو کیا یہ آئین کے انکاری ہونے کے برابر نہیں۔ لاڑکانہ شکارپور، سکھراور سندھ کے تمام بڑے شہروں کی سیوریج لائینز کھلی ہوئی ہیں۔ جو بیماریاں آلودہ پانی پینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں وہ سندھ میں اسی فیصد تک پائی جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کراچی میرا شہر ہے اس سے مجھے محبت ہے اور میں ان کی تکلیفات کو زیادہ میڈیا پے دکھاتا ہوں مگر باقی مانندہ سندھ کراچی سے بھی بدتر حالت میں ہے اور جو حکومت کراچی کو چلاتی و ہ ہی حکومت پورے سندھ کو بھی گورن کرتی ہے۔

اس لیے صرف شہری سندھ کو یا کراچی کے مسائل کو پیش لانا اور دیہی سندھ کے مسائل کو نظرانداز کرنا سراسرزیادتی ہوگی۔ یہ کام کم از کم واٹر کمیشن نہیں کرتی تھی۔ جسٹس ہانی پوری سندھ گھوما کرتے تھے۔ سارے واٹر ٹریٹمینٹ پلانٹ خود جاکر دیکھتے تھے۔بینظیر پارک کی زمین پر قبضہ، فاریسٹ کی زمین پر قبضہ اوراب تیرہ ہزار ایکڑ کسی اور رہائشی اسکیم کی نواح میں، سندھ حکومت نے عطا کیے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے تو صحیح کتنی ہائوسنگ اسکیم یہ غریبوں کے لیے اب تک لے کے آئے ہیں، کتنی زرعی زمینیں دہقانوں کو انھوں نے دی ہیں۔

یہ مسائل نہ واٹر کمیشن سے ٹھیک ہوںگے نہ کسی اور شارٹ ٹرم طریقے سے۔ یہ پل بھر کو تو ٹھیک نظر آئیں گے مگرحل نہیں ہونگے۔ صحیح حل اس کا یہ ہے کہ جب ووٹر کا شعوراجاگر ہو گا۔ اور جب تک اس ملک میں اس بات کا تعین نہیں ہوتا کہ آئین سپریم ہے اور پارلیمنٹ با اختیار تب تک یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ اور جب تک پارلیمینٹ میں بھی انھی الیکٹیبلز کی اکثریت رہے گی جو اپنے اجداد سے جیتتے آرہے ہیں ، اور جیتتے رہیں گے تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو اس وقت بانسری بجا رہا تھا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔