ایک کباڑی کا بیٹا

زاہدہ حنا  اتوار 9 فروری 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کراچی کے یہ وہ زمانے تھے جب یہاں اعلیٰ کتابوں کی دکانیں تھیں، ہالی ووڈ کی بہترین فلمیں آتی تھیں اور دنیا بھر کے اعلیٰ ادب کا اور ادیبوں کا ذکر رہتا تھا۔ ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ امریکی اداکارکرک ڈگلس کا یہاں کے با ذوق لوگ بہت محبت سے ذکرکرتے تھے۔

ایک ایسا شخص جو برٹ لنکا سٹر،گریگری پیک اور پال نیومین کی طرح ’’مرد بچہ ‘‘ تھا۔ اس کی اعلیٰ فلمیں میری نو عمری سے بھی پہلے فلم بینوں سے داد وصول کرچکی تھیں۔ میں نے اس کی فلمیں سلور اسکرین پر کم اور وی سی آر پر زیادہ دیکھیں۔ 30 انچ کے ٹی وی اسکرین پر ’’اسپارٹکس‘‘ اور دوسری فلموں کا لطف غارت ہوجاتا تھا، پھر بھی ایک باغی اور دبنگ ہیرو کو دیکھنے کی اپنی لذت تھی۔ ان دنوں ہمارے یہاں چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا طوطی بولتا تھا۔

ادھر کرک ڈگلس تھا جو کہنے کو امریکی تھا لیکن جسے امریکی سرکار کے طور طریقے پسند نہ تھے۔ وہ ایک ایسے تارک وطن کا بیٹا تھا جو سوویت یونین کی ریاست بیلارس سے ترک وطن کر کے امریکا آیا تھا۔ ناخواندہ ماں باپ کے اس بیٹے کے اندر یہ بھی پیدائشی خرابی تھی کہ وہ حسب نسب کے اعتبار سے یہودی تھا۔ نیویارک کی سڑکوں پر وہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کے سام مخالف رویوں کا شکار ہوا۔ اسے اپنا نام بدلنا پڑا اور فلمی دنیا میں کامیابیاں سمیٹنے سے پہلے چھوٹی موٹی لگ بھگ 40 ملازمتیں کرنی پڑیں۔

وہی معاملہ تھا کہ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔ اسے تھیٹر میں کام کرنے کا شوق تھا لیکن جب اس کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اس نے تھیڑمیں اداکاری کرنے کے اپنے خواب سے کنارہ کیا اور ہالی ووڈ کی فلموں میں کام شروع کردیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ امریکی نیوی میں بھرتی ہوگیا۔ 1943میں اس نے شادی کرلی لیکن اس شادی کا اختتام 1951میں ہوگیا۔ اس وقت تک اس کے دو بیٹے تھے اور پہلے بیٹے کی پیدائش پر روپوں کی ضرورت نے اسے فلمی دنیا کی طرف دھکیل دیا۔

1944میں ہی نیوی نے اسے ریٹائر کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اتفاقی دھماکے نے اسے جسمانی طور پر نیوی کی خدمات کے لیے ’’ان فٹ‘‘ کردیا تھا۔ اس نے ہالی ووڈ میں پہلی فلم (1946) میں کام کیا اور اس کے بعد یہ نہیں تھا کہ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ یہ تھا کہ ہالی ووڈ نے اس کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا اور کوئی اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کی دوسری فلم برٹ لنکاسٹر کے ساتھ تھی جو اس کا دوست بن چکا تھا۔ کرک ڈگلس اور برٹ لنکاسٹر نے کئی فلموں میں ساتھ کام کیا جس سے دولت اور شہرت دونوں کمائی۔

1963میں ایک بار اسے براڈ وے پر کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس کی دلی آرزو تھی۔ وہ فرد کی آزادی اور خود مختاری کو بے حد اہمیت دیتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا میں میکارتھی ازم کا دور دورہ تھا۔ ادیبوں ، اداکاروں اور آزاد منش لوگوں کی زندگی حرام کردی گئی تھی۔ کرک ڈگلس کے لیے یہ ایک نہایت ناپسندیدہ صورت حال تھی۔ اور وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا کہ ’’حاکمیت‘‘ کو رد کردے۔ ایک مصنف جس پرکمیونسٹ ہونے کا شبہ تھا اور اسے بلیک لسٹ کردیا گیا تھا، کرک ڈگلس نے اسے اپنی فلم کی کہانی لکھنے کے لیے رکھا۔ دوسرے لوگ اس سے کام تو لے رہے تھے لیکن اس کا قلمی نام استعمال ہوتا تھا۔ کرک ڈگلس نے خطرہ مول لیا اور اس کا اصلی نام استعمال کیا۔ یہ وہ رویہ تھا جس سے بغاوت کی بو آتی تھی۔

اسے ایسے ہی کردار پسند تھے جو روایت سے ہٹ کر ہوں۔ 1960 میں اس کی فلم ’’اسپارٹکس‘‘ بنی جس نے باکس آفس پر کامیاب بزنس کیا۔ یہ قدیم روم کی بادشاہت کے خلاف ایک غلام کی بغاوت تھی جس نے اپنے ایسے دوسرے بہت سے غلاموں کو شامل کرلیا تھا۔ ’’اسپارٹکس‘‘ کی کہانی مشہور ادیب ہاورڈ فاسٹ نے لکھی اور کرک ڈگلس نے اس میں بغاوت کی روح پھونک دی۔ یہ اس کی بے مثال فلم کہی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس نے ’’یولیسس‘‘ اور ’’وائی کنگ‘‘ میں کام کیا۔ یہ تینوں فلمیں اس کی اداکاری کا شاہکار کہی جاتی ہیں۔ اس نے کئی ویسٹرن فلموں میں بھی اداکاری کی اور اس کی باکسنگ فلمیں بھی کامیاب رہیں۔ اس کی شہرت کا دائرہ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ تمام براعظموں میں اس کی فلموں کی نمائش ہوتی اور لوگ اس کی فلموں کا انتظار کرتے۔

اس نے ایک بھرپور زندی گزاری، بہت مفلسی اور بہت عیش و عشرت کی، جب وہ اپنی خود نوشت لکھنے بیٹھا تو اپنی غربت کے دن تفصیل سے بیان کیے۔ اس کا ناخواندہ باپ کوئی ہنر نہیں جانتا تھا۔ اسی لیے آخر کار اسے ایک کباڑیے کی زندگی اختیار کرنی پڑی۔ بیٹے نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر خود نوشت لکھی تو اس کا نام ’’ایک کباڑی کا بیٹا‘‘ رکھا۔ وہ یہ بتانا بھی نہیں بھولا کہ ابتدائی زندگی میں اس کے سامی پس منظر کی وجہ سے وہ نیویارک کی گلیوں میں کتنی مرتبہ ذلیل کیا گیا اور لڑکوں نے کتنی بار اس کی ٹھکائی کی۔

وہ بالی ووڈ کے دورِ زریں کے آخری اداکاروں میں سے تھا۔ دنیا نے اس کے سامنے دولت کے ڈھیر لگا دیے۔ دلربا عورتیں اس کی نظر کرم کی طلب گار رہتیں لیکن شاید ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہ تمام باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ انسان جو دوستوں اور مداحوں کے ہجوم میں گھرا ہوا رہتا ہے اور پھر بھی تنہائی کے سمندر میں بے بسی سے ہاتھ پائوں مارتا ہے۔

ڈگلس کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ شاندار صحت کی تصویر تھا لیکن 1986 میں اسے پیس میکر لگا تاکہ اس کے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو درست کیاجا سکے۔ 1991 میں اس کا ہیلی کاپٹرکریش کر گیا جس میں وہ زندہ بچ گیا لیکن دو افراد ختم ہو گئے۔ سب سے بڑا صدمہ اسے 1996 میں پہنچا جب اس پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ وہ شخص جو دنیا میں اپنے دبنگ لہجے کے لیے پہچانا جاتا تھا، اس کے لیے یہ بات سوہان روح تھی کہ وہ بولتا تو اس کی بات سمجھنے میں لوگوں کو مشکل ہوتی۔ اس چیز نے اسے اتنا دلبرداشتہ کیا کہ اس نے کئی مرتبہ خود کشی کے بارے میں سوچا لیکن پھر اس نے طے کیا کہ اسے اپنی اس جسمانی کمزوری پر قابو پانا ہے۔ اسپیچ تھراپی کے اس نے ان گنت سیشن لیے، یہاں تک کہ چند مہینوں بعد وہ اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں شریک ہوا جہاں اس کو آنریری آسکر ایوارڈ دیا گیا۔

یہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تھا۔ اسے قبول کرنے کے لیے وہ مائیک پر آیا اور اس نے ٹھہر ٹھہر کر ان کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس کو یہ ایوارڈ دیا تھا۔ اس سے پہلے بھی اسے متعدد مرتبہ آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اور دوسرے بڑے انعامات بھی اس کے حصے میں آئے لیکن وہ یہ کبھی نہیں بھولا کہ اس کے باپ کو اس کے حسب نسب کی بنا پر کسی مل میں ملازمت نہیں ملی۔ وہ چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور جانتا تھا کہ اگر اسے اور اس کے خاندان کو زندہ رہنا ہے تو اسے بے پناہ محنت کرنی ہے۔ اس نے اپنے خاندان کی رات کی روٹی کے لیے جاں فشانی سے کام کیا۔ کبھی اس نے کسی ہوٹل کے باورچی خانے میں پلیٹیں دھوئیں اور کبھی گھروں میں اخبار ڈالے۔ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر وہ اس زمانے کو کبھی نہیں بھولا جہاں سے اس نے زندگی شروع کی تھی۔

وہ 103 برس گزار کر دنیا سے گیا۔ اس نے اپنی ناخواندہ ماں کے بستر مرگ پر گزرے ہوئے لمحوں کو عجیب اداسی سے یاد کیا۔ اس نے لکھا کہ میری روسی ماں جو ایک ناخواندہ کسان تھی، میں آخری لمحوں میں اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا اور خوفزدہ تھا۔ ماں نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کہا ’’خوفزدہ نہ ہو میرے بیٹے، یہ وقت سب پر آتا ہے۔‘‘ میری عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی ماں کا یہ آخری جملہ مجھے تسلی دیتا رہا۔

ایک کباڑیے اور ایک کسان ماں کے بیٹے نے 103 برس کی عمر میں جب اپنے پرُ آسائش گھر میں آنکھیں بند کیں تو ماں کا یہ آخری جملہ اسے تسکین دینے کے لیے ضرور آیا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔