یونس اور مصباح میں کیا فرق ہے؟

سلیم خالق  اتوار 9 فروری 2020
توازن نام کی کسی چیز سے شاید بورڈ واقف نہیں، خیر اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ فوٹو : فائل

توازن نام کی کسی چیز سے شاید بورڈ واقف نہیں، خیر اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ فوٹو : فائل

فہیم  خان سلیم ہیں تو اسکواش کوچ مگر ان کو کرکٹ کا بڑا شوق ہے، دبئی میں ایک دن ان کے چہرے پر بارہ بجے دیکھے تو پوچھا کیا ماجرا ہے فہیم بھائی، اس پر وہ کہنے لگے کہ’’انڈر19ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پاکستانی ٹیم کو بھارت نے 10 وکٹ سے شکست دے دی، ہارنا مسئلہ نہیں مگر اتنی بْری طرح شکست ناقابل قبول ہے، اب یو اے ای میں  بھارتی ہمارا خوب مذاق اڑائیں گے کہ بڑے تو بڑے بھارت کے بچوں کو بھی ہم نہیں ہرا سکتے‘‘۔

اس پر میں نے جواب دیا کہ چھوڑیں بھائی کرکٹ میں ایسا ہوتا ہے افسوس کی بات  نہیں تو وہ کہنے لگے کہ ’’ورلڈکپ میں تو ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے نجانے اس کی وجہ کیا ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ تو چپ ہو گئے مگر میں یہی سوچنے لگا کہ  فہیم سلیم جیسے شائقین کو کیا بتاؤں کہ اس کی کیا وجوہات ہیں، جب ہمارا بورڈ میرٹ پر دوستیاں نبھانے  کو ترجیح دے گا تو یہ تو ہونا ہی ہے، آپ بھارت کی مثال لے لیں، اس نے ایک ویژن کے تحت سابق عظیم کرکٹر راہول ڈریوڈ کو انڈر19 ٹیم کی کوچنگ سونپی، انھیں ایسا معاوضہ دیا جو ان کے شایان شان تھا۔

ساتھ ہی فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیم اب آپ کے حوالے جو کرنا ہو کریں ہمیں بس نتائج اور مستقبل کیلیے ٹیلنٹ چاہیے،  اس کے بعد ڈریوڈ نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے، انھوں نے اپنے کیریئر کا سارا نچوڑ نوجوان کرکٹرز میں منتقل کر دیا، میرٹ کو اولیت دی، غریب کرکٹرز کو بھی یقین دلایا کہ وہ باصلاحیت ہیں تو ٹیم میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بھارتی ٹیم ورلڈکپ 2016 کا فائنل کھیلنے میں کامیاب رہی جہاں اسے ویسٹ انڈیزنے مات دی، ڈریوڈ نے ایک سسٹم بنا دیا اور پھر خودڈائریکٹر  نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا عہدہ سنبھال لیا، اس بار بھی بھارت کی ٹیم ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہے۔

دوسری جانب ہم اپنے سابق عظیم کرکٹرز کو ایسے قومی سسٹم سے دور رکھتے ہیں جیسے نجانے وہ کیا تباہی لے آئیں گے، آپ  ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں ماضی میں اور اب زیادہ تر وہ سابق کرکٹرز قومی سیٹ اپ کا حصہ بنے  جو یس مین ہیں، ایک، ایک،دو،دو میچز کھیلنے والوں کے وارے نیارے ہو گئے اور عظیم کھلاڑی گھروں پر بیٹھے ہیں یا اپنے یوٹیوب چینلز چلا رہے ہیں، یونس خان کی مثال سامنے ہے، پوری دنیا انھیں پاکستان کا نمبر ون نہیں تو ٹاپ3میں شامل بیٹسمین تو مانتی ہی ہو گی مگر ہم نے  کیا ان کے ساتھ شایان شان سلوک کیا؟ ہرگزنہیں، ہر انسان کی شخصیت الگ ہوتی ہے یونس  بھی اپنے موڈ مزاج کے انسان ہیں مگر اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان کا تجربہ پاکستانی کرکٹرز کے بہت کام آ سکتا ہے۔

گذشتہ برس میں نے ایک خبر دی تھی کہ’’چار لاکھ روپے نے انڈر19کرکٹرز کو عظیم کوچ سے محروم کر دیا‘‘ یہ یونس خان کے بارے میں ہی تھی جن سے بورڈ ایسے بھاؤتاؤ کر رہا تھا جیسے کسی مارکیٹ میں کوئی چیز بیچی جا رہی ہو، موجودہ دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چار بڑے سوا کروڑ روپے ماہانہ بطور تنخواہ وصول کرتے ہیں،  دیگر مراعات الگ ہیں،  حسابات کبھی کبھی صرف چیئرمین احسان مانی کے ویب سائٹ پر شیئر ہوتے ہیں جو کوئی تنخواہ نہیں لیتے، آپ اگر وسیم خان کے  غیرملکی دوروں کی فہرست اور اخراجات دیکھ لیں تو دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔

ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو بھی منہ مانگی تنخواہ پر دبئی سے لایا گیا، جب ان دونوں کی بات کرو تو کہا جاتا ہے کہ جتنا کام کا بندہ لائیں گے وہ ویسا ہی معاوضہ وصول کرے گا تو پھر یہ منطق یونس خان پر کیوں لاگو نہیں کی گئی؟ بات یہ ہے کہ یونس یس مین نہیں کبھی کسی کو ٹیم میں فٹ کرانا ہو تو کسی کی سفارش نہیں سنیں گے، اپنی مرضی چلائیں گے، ایسے لوگ کسے اچھے لگتے ہیں، پی سی بی میں تو خاص طور پر ’’یس مین‘‘ ہی سب کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں، اسی لیے یونس خان کو ناراض کر دیا، چار لاکھ روپے ان کیلیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، وہ پیسوں پر نہیں بورڈ کی بارگیننگ کے انداز سے ناراض ہوئے ہوں گے۔

آپ یہ دیکھیں کہ یونس خان کو 15 لاکھ روپے دینے سے انکار کر دیا گیا جبکہ ڈائریکٹر میڈیاکو اس سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے،اسی طرح وقار یونس بھی اس سے زائد رقم وصول کرتے ہیں، اگر آپ بطور کرکٹر دیکھیں تو مصباح الحق کا یونس خان سے کوئی مقابلہ نہیں مگر انھیں ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنا کر قومی ٹیم کی کمان سونپ دی گئی، انھیں 32 لاکھ روپے ماہانہ دینے پر کسی کو اعتراض نہ ہوا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ زیادہ ہیں چار لاکھ روپے کم کر لو، اگر یونس کو انٹرنیشنل کوچنگ کا تجربہ نہیں تو مصباح کون سا آسٹریلیا کی کوچنگ کر چکے تھے، ان کو تو پی ایس ایل میں بھی کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

ان پر اتنی مہربانی کی وجہ یہی ہے کہ وہ ’’یس مین‘‘ ہیں کبھی ارباب اختیار سے نہیں الجھتے، اسی لیے سیدھے اور شریف کا لیبل لگا ہوا ہے، دوسری جانب یونس کو کہا جاتا ہے کہ مشکل انسان ہے کنٹرول نہیں ہوگا اسے دور رکھو، میرا سوال یہ ہے کہ یہاں کیا کوئی رشتہ ڈھونڈا جا رہا ہے یا کوچنگ کی بات ہو رہی ہے، آپ کو ٹیلنٹ دیکھنا چاہیے دیگر باتیں تو ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یونس خان کو اگر انڈر 19 ٹیم کی کوچنگ سونپی جاتی تو بھارت کیخلاف اتنی بْری شکست نہیں ہوتی بلکہ مثبت نتائج ہی سامنے آتے، اعجاز احمد کیونکہ بعض بااثر شخصیات کی آنکھ کا تارا ہیں اس لیے انھیں ذمہ داری سونپ دی، نتائج سامنے ہیں، آپ تیسری پوزیشن پر نہ جائیں یہ تو اتفاق سے مل گئی۔

نیوزی لینڈ سے میچ بارش کی نذر ہو گیا، اس سے پہلے اسکاٹ لینڈ اور زمبابوے کو شکست دی، بنگلہ دیش سے میچ خراب موسم کی وجہ سے نہ ہو سکا، افغانستان کو ہرا کر سیمی فائنل میں رسائی پائی، پھر پہلی بڑی ٹیم بھارت سے جب سامنا ہوا تو رسوا کن شکست ہاتھ آئی،اب آپ ہی بتائیں کہ کیا تیسری پوزیشن اتفاقیہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کی بات کریں تو وہاں ورلڈکپ پاکستان نے جیت لیا ہے۔

پی سی بی کی جانب سے بہت زیادہ ہائپ بنائی گئی اور کھلاڑیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا جس سے ان کی توجہ منتشر ہو گئی، توازن نام کی کسی چیز سے شاید بورڈ واقف نہیں، خیر اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، میرٹ کو ترجیح دیتے ہوئے جونیئر ٹیم کی کوچنگ یونس خان کو سونپنی چاہیے، وہ اپنے کام میں جنونی انسان ہیں، انھیں اگر تنگ نہ کیا تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے، ورنہ  تکے میں ملی تیسری پوزیشن کا جشن مناتے ہی اگلے چار سال گذار دیں، اب کیا کرنا ہے فیصلہ بورڈ کے ہی ہاتھ میں ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔