تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کے راستے بالآخرجدا ہو گئے

شاہد حمید  بدھ 20 نومبر 2013
قومی وطن پارٹی کے دو وزراء کو کرپشن کے الزامات کے تحت وزیراعلیٰ نے ان کے عہدوں سے برطرف کردیا۔ فوٹو: فائل

قومی وطن پارٹی کے دو وزراء کو کرپشن کے الزامات کے تحت وزیراعلیٰ نے ان کے عہدوں سے برطرف کردیا۔ فوٹو: فائل

پشاور: یہ بات بلاشک وشبہ کہی جا سکتی ہے کہ جو کچھ قومی وطن پارٹی کے ساتھ ہوا ہے اس کو سمجھنے میں قومی وطن پارٹی کی قیادت نے اپنی روایتی سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا۔

جس کا عملی مظاہرہ ہر موقع پر مذکورہ پارٹی کی جانب سے دیکھنے میں آتا رہا ہے تاہم اس حوالے سے یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ چونکہ تحریک انصاف روایتی پارٹیوں میں سے نہیں ہے اس لیے اس کے انداز کو سمجھنے میں قومی وطن پارٹی سے بھول ہوگئی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ قومی وطن پارٹی کے دو وزراء کو کرپشن کے الزامات کے تحت وزیراعلیٰ نے ان کے عہدوں سے برطرف کردیا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت کی ہدایت پر تحریک انصاف نے قومی وطن پارٹی کے ساتھ اتحاد کا بھی خاتمہ کردیا ،گویا یہ سیاسی اتحاد صرف پانچ ماہ ہی چل سکا ۔

حالانکہ توقع یہ کی جارہی تھی کہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ جو جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں وہ کسی دوسری پارٹی کو اپنے اوپر وار نہیں کرنے دیں گے اور ان سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے خود ہی یہ اتحاد ختم کردیں گے، تاہم ایسا نہیں ہوسکا، حالانکہ جو کچھ ہوا ہے وہ کوئی خفیہ معاملہ نہیں تھا بلکہ گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل یہ شنید تھی کہ قومی وطن پارٹی کے ساتھ ’’کچھ‘‘ہونے والا ہے تاہم اس کچھ کو قومی وطن پارٹی نے اس انداز سے نہیں لیا جس انداز سے اسے یہ معاملہ لینا چاہیے تھا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ ہی تھے جنہوں نے 1994 ء میں اس وقت کے صوبہ سرحد میں قائم مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور پیر صابر شاہ کووزارت اعلیٰ کو خیر آباد کہنا پڑا تھا جس کے نتیجے میں آفتاب شیر پاؤ صوبہ کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے،اس وقت آج کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک ،آفتاب احمد شیر پاؤ کے ساتھی تھے اور اس کھیل کا حصہ تھے تاہم آج یہ پرانے رفیق ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور اس اعصابی جنگ میں پرویز خٹک نے نفسیاتی برتری حاصل کرتے ہوئے اپنے سینئر ساتھی آفتاب شیر پاؤ کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ ان پر وار کرسکیں کیونکہ اگر یہ موقع آفتاب شیر پاؤ کے ہاتھ آجاتا تو اس صورت میں قومی وطن پارٹی ،تحریک انصاف کو چھوڑ کر چلی جاتی ۔

تاہم یہاں تحریک انصاف نے قومی وطن پارٹی کو خود اپنے آپ سے الگ کیا ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے، اس سارے معاملہ میں ایک بات بڑی واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ قومی وطن پارٹی ،تحریک انصاف کے حوالے سے یہ غلط اندازہ لگابیٹھی تھی کہ وہ روایتی سیاسی پارٹی کی طرز پر اپنی اتحادی جماعت کو ان کے وزراء سے متعلق شکایات کے بارے میں آگاہ کرے گی اور خود قومی وطن پارٹی کو یہ موقع دے گی کہ وہ ان شکایات کا ازالہ کرے اور قومی وطن پارٹی سے یہ غلطی ہونا اس لیے کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ تحریک انصاف پہلی مرتبہ میدان میں آئی ہے جو اس سے قبل نہ تو حکومت میں رہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن میں اس طریقہ سے دیگر پارٹیوں کے ساتھ اس کا ساتھ رہا ہے کہ جس سے اس کے مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا اوریہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف نے روایتی انداز اپنانے کی بجائے دوٹوک انداز میں فیصلہ سازی کا نیا انداز متعارف کرادیا ہے۔

یہ باتیں بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے معاملہ پر قومی وطن پارٹی کی پوری قیادت متفق نہیں تھی اور اس حوالے سے انہی خدشات کا اظہار کیا جا رہاتھا کہ ’’نہ آزمائے ہوؤں کو نہیں آزمانا چاہیے‘‘تاہم بعض قائدین کے اصرار پر اس اتحاد کا فیصلہ کیا گیا جس کے پانچ ماہ کے اندر ہی خاتمے سے اتحاد کے مخالفین کی بات درست ثابت ہوگئی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ یہ معاملات بھی یقینی طور پر جڑے ہوئے ہیں کہ موجودہ حکومتوں کے قیام کے بعد صدارتی الیکشن جیسے اہم مرحلہ پر قومی وطن پارٹی ،تحریک انصاف کو اکیلا چھوڑ گئی تھی۔ تاہم صدارتی الیکشن کے معاملہ پر قومی وطن پارٹی ،تحریک انصاف کے امیدوار کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے امیدوار ممنون حسین کی حمایتی بن گئی اور اپنا ووٹ ان کو دے ڈالا ،گوکہ اس وقت تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی دونوں پارٹیوں کے قائدین اور حکومتی عہدیداروں نے اس معاملہ کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان قائم اتحاد میں پہلی دراڑ اسی صدارتی الیکشن کے موقع پر پڑی تھی جو بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ اس نے دونوں پارٹیوں کو سمندر کے دو کنارے بنا ڈالا ،یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ کئی اہم امور پر تحریک انصاف نے جب اسمبلی کے اندر یا باہر سٹینڈ لیا تو اس کے ساتھ جماعت اسلامی تو کسی نہ کسی حد تک کھڑی نظر آئی تاہم اس منظر میں قومی وطن پارٹی نظر نہیں آتی تھی اور قومی وطن پارٹی کے وزراء ، پارلیمانی سیکرٹریز یا ارکان صرف ان محکموں کا دفاع کرنے میں مصروف رہے جو ان کے پاس تھے ، ان سارے عوامل کو یکجا کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی چلی جارہی تھی کہ قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کا ساتھ چلنا اب مشکل ہوگیا ہے اور سب کو صرف باقاعدہ طور پر علیحدگی کے فیصلہ کا انتظار تھا جو اب ہوگیا ہے۔

قومی وطن پارٹی کے اپوزیشن کا حصہ بنتے ہی سب کی نظریں اب اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ اپوزیشن جس کے ارکان کی تعداد اب پچاس سے بڑھ گئی ہے وہ کیا کرنے جا رہی ہے؟ ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں گی کیونکہ (ن) لیگ،اے این پی اور جے یو آئی تینوں ہی پی ٹی آئی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں اور اب تازہ زخموں کے ساتھ قومی وطن پارٹی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئی ہے۔

تاہم ایک تو اپوزیشن کے پاس وہ فگرز پورے نہیں ہیں جن کی بنیاد پر عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنایاجاسکے جبکہ دوسری جانب حکومت کے پاس عددی اکثریت اب بھی موجود ہے کیونکہ تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے ارکان کے ساتھ پرویز خٹک اپنا اقتدار برقراررکھ سکتے ہیں جبکہ اس وقت ایوان میں موجود تین آزاد ارکان اور ایک آل پاکستان مسلم لیگ کے رکن بھی حکومت کے ساتھ ہی ہیں اس لیے اس وقت تو حکومت کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔

مگر اب حکومت کو بھی اپنے پتے ذرا احتیاط سے ہی کھیلنے ہوں گے کیونکہ اقتدار کی یہ عمارت عوامی جمہوری اتحاد اور جماعت اسلامی کے کندھوں پر ہی کھڑی ہے جو اگر حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو پھر معاملہ الٹ جائے گا ۔ اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ قومی وطن پارٹی کی شمولیت سے اپوزیشن کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے اور وہ اب زیادہ موثر انداز میں حکومت کو صوبائی اسمبلی کے اندر اور باہر ٹف ٹائم دے سکتی ہے البتہ جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا تعلق ہے تو اسے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ ان کے ساتھ بیٹھے پیپلزپارٹی کے چار ارکان کہاں کھڑے ہیں ؟

اور پیپلزپارٹی کو پانچ سالوں کے اندر پانچواں صوبائی صدر مل گیا ہے جس سے پارٹی کے اندر ہلچل مچی ہوئی ہے کیونکہ کچھ رہنما اور ان کے ساتھی پی پی پی کے نئے صوبائی صدر خانزادہ خان کی حمایت کررہے ہیں تو کچھ مخالفت جس کے حوالے سے پارٹی کی مرکزی رہنما فریال تالپور نے تما م قائدین کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے تاکہ یہ معاملہ سنبھالا جاسکے، تاہم اس سلسلے میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ کب تک پیپلزپارٹی کو صدور اورعہدیداروں کی تبدیلی کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جاتی رہے گی کیونکہ پارٹی صدر کی تبدیلی کا یہ پہلا تجربہ نہیں ، رحیم داد خان کے بعد سید ظاہر علی شاہ پھر سینیٹر سردار علی خان ان کے بعد انور سیف اللہ اور اب خانزادہ خان ،جن کے ساتھ یقینی طور پر پارٹی کے دیگر عہدیدار بھی تبدیل ہوں گے۔

پیپلز پارٹی جو ایک مرتبہ پھر اقتدار سے باہر اور نشستوں کے اعتبار سے انتہائی سکڑنے کے باعث مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے ،کے ورکر وں کی خواہش ہے کہ پارٹی کی حقیقی معنوں میں تنظیم نو ہونی چاہیے جس میں وارڈ کی سطح سے لے کر صوبے اور مرکز تک نئے عہدیداروں کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے کیاجائے تاکہ حقیقی قیادت سامنے آسکے اور پیر اشوٹ کے ذریعے عہدیداروں کو اتارنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ اے این پی نے بھی اپنی آج کی مشکلات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں پارٹی انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا راستہ اختیار کیا ہے تو پھر پیپلزپارٹی ایسا کیوں نہیں کر رہی ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔