کون بنے گا کون؟

سعد اللہ جان برق  منگل 11 فروری 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

دراصل یہ تو آپ جان بھی چکے ہوں گے، مان بھی چکے ہوں گے اور ہمیں پہچان بھی چکے ہوں گے کہ ہم کچھ زیادہ پڑھے لکھے اور لائق فائق نہیں ہیں۔ موٹا سا دیہاتی دماغ رکھتے ہیں، اس لیے بات ذرا دیر سے سمجھتے ہیں۔ وہ بھی دانا دانشوروں سے پوچھ پوچھ کر اور یہ تو ہم نے پہلے بھی آپ کو بتایاہے، وہ کوئی بڑا دانشور تھا جس سے کسی نے پوچھاتھا کہ آپ نے یہ اتنی دانش کہاں سے سیکھی ہے تو اس نے جواب دیا کہ احمقوں سے چنانچہ اس طریقے پر ہم نے بھی عمل کرکے بہت سارے دانا دانشوروں سے بہت زیادہ ’’حماقت‘‘ دیکھ رکھی ہے، ظاہر ہے کہ اتنی زیادہ حماقت کے باعث ’’بات سمجھنا‘‘ہمارے لیے بڑا مشکل ہوگیا۔

مثلاً ہم کافی عرصے تک سمجھتے رہے کہ ’’بیانیہ‘‘کسی عورت یا ماڈل گرل کانام ہے اور ایک ہی پیج سے ہم نے مطلب لیاتھا کہ یہ کوئی کتاب کسی نے لکھی ہوگی جس میں الگ الگ پیجوں پر الگ الگ لوگوں کا تذکرہ ہوگا اور اب یہ تازہ ترین خوشخبری’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ’’بنے‘‘میاں کون ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے۔ کشمیر کی طرف یا پاکستان کی طرف اپنی لیاقت ہم نے پہلے ہی بتادی ہے تو اب ہم سمجھیں کیا؟ کہ ’’بنے گا کون‘‘ پہلے والا یا آگے والا۔ہمارے لیے یہ ویسے ہے کہ۔پکڑومت جانے دو، بیٹھو مت جاو، اٹھومت کھاؤ،  آمت جا وغیرہ کہ درمیان میں کوئی مارک بھی نہیں ہے۔

کمشیربنے گا پاکستان۔یہ توخیربعد میں پتہ کریں گے کہ بنائے گاکون؟کہ اپنے یہاں بنانے والے بھی بہت ہیں اور بننے والے بھی ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں بلکہ ہمارے ایک دانا ئے راز دوست کا قول زریں ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو بنایا نہ گیاہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جس نے بنایا نہ ہو۔منطقی بات بھی ہے کہ جس جگہ بنانے کاکام ہورہاہو وہاں بنانے والے اور بننے والے بہت ہوں گے۔ایک مرتبہ ایک ٹی وی چینل پر ایک آئیورویدک ڈاکٹر سے کسی نے پوچھا تھا کہ بازاروں میں اشتہاروں میں یہ ’’آئیورویدک‘‘کے معجزاتی آئٹمز آرہے ہیں، کیا یہ واقعی ایسے ہیں تو اس نے کہا کہ میں اس سی زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ’ ’بنا‘‘رہے ہیں اور آپ’’بن‘‘ رہے ہیں۔

’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘کے بارے میں بھی ہمیں یہ تشویش بالکل نہیں کہ بنائے گا کون۔اتنے سارے بنانے والوں میں سے کوئی تو بناہی دے گا۔ لیکن بنے گا کون؟یہ معاملہ کم ازکم ہمارے لیے تھوڑا نہیں بلکہ زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ’’بنے گا‘‘کا رخ یوں بھی ہے اور یوں بھی۔یعنی جناب شیخ کا قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ ’’بنے گا‘‘یا ’بنے میاں‘‘ کو آپ جناب شیخ سمجھ لیجیے۔جہاں تک بنانے کا تعلق ہے تو وہ بہت زیادہ آسان ہے، اس لیے تو کیلے کوبھی بنانا کہتے ہیں اور بنانے کوبھی کیلا کہاجاتا۔کہ کیلا ایک ایسی چیز ہے جسے بچے بوڑھے لولے لنگڑے بھوکے ننگے یعنی ہرکوئی کھاسکتاہے۔ وہ ایک زمانہ ایسا تھا جس میں ’’بنانا‘‘کیلا نہیں تھا اور کیلا بنانا نہیں تھا، اس لیے کوشش کے باوجود بنانے والا خواہش کے باوجود بنا نہیں پاتاتھا، جیسے

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدابنے تھے یگانہ مگر بنانہ گیا

پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا

خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا

آپ شاید سوچ رہے ہوں گے اور بالکل صحیح سوچ رہے ہیں کہ ہم بات بنانے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن ’’بن‘‘نہیں پارہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ’’بننے‘‘کا تو سترسالہ تجربہ کیاہے لیکن  ’’بنانا‘‘بالکل نہیں آتا حالانکہ ہم نے بہت سارے بنانے یعنی کیلے بھی ا س غرض کے لیے کھائے ہیں بلکہ دھکے بھی انڈے بھی اور دھرنے بھی۔اس لیے پھنسے ہوئے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان یا کشمیر بنے گا پاکستان۔ وہی بات کہ کون بنے گا اور کیا بنے گا،اگر الٹا بھی دیں۔ پاکستان بنے گا کشمیر تو پھر بھی کشمیربنے گا پاکستان ہی ہوگا، شاید دوسرے دانا دانشوروں یا بنانے والوں کے لیے نہ ہو لیکن ہم جیسے وہاٹ ازوہاٹ۔ اس لیے کنفیوژن ہم نے بنانے والوں کے سامنے رکھ دی ہے کہ ہمیں تو بنانا آتا نہیں، اس لیے آپ ہی بتائیں اور بنائیں کہ’’بنے گا‘‘کون سی کروٹ بیٹھے گا۔

ایک کہانی دُم ہلانے لگی ہے، چلیے اسے بھی دیکھتے ہیں، شاید بننے بنانے کا کچھ پتہ چل جائے۔ ہمارے گاؤں میں دو بھائی تھے۔ ایک سادہ لوح بھولا بھالا اور دوسرا بڑا چالاک چلتا پرزہ۔یعنی ایک بننے والا اور دوسرا بنانے والا۔وہ بنانے والا ہمیشہ دوسرے کوبناتاتھا کہ میں بہت جلد تمہیں دلہا بناوں گا اور وہ بھولا بھالا اس لولی پاپ سے اور زیادہ محنت مشقت کرتا۔بنانے والا اسے صرف کام بتاتاتھا اور دوسرا کرتاتھا۔آخرکافی عرصے تک یہ بننے بنانے کاکام چلتا رہا، بنانے والا اس سے اکثر کہتا کہ فلاں گھر میں تیری بات چلا رہاہوں اور فلاں جگہ میری نظر میں ہے، پھرکوئی بہانہ بناکر کسی دوسرے گھر کا بتاتا۔ اکثر کہتا، کیاکروں،میں کوشش تو کر رہا ہوں لیکن کوئی لڑکی مل نہیں رہی ہے۔

اس پر ایک دن بننے والے نے خود ایک لڑکی تاک لی اور بھائی کوبتادیا کہ فلاں گھر میں ایک لڑکی ہے جاکر وہاں بات چلاو۔ دوسرا بھائی گیا اور پھر آتاجاتا رہا اور بھائی کوبتاتا رہا کہ بات چل رہی ہے اور پھر آخرکار اس بنانے والے نے بننے والے کو خوش خبری سنائی کہ لڑکی والے مان گئے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ لڑکی کی شادی مجھ سے کرنا چاہتے ہیں۔ بننے والا بگڑگیا کہ بھیجا میں نے تمہیں اپنے لیے تھا اور تم اپنی بات پکی کر آئے۔ بنانے والے نے کہا ،کیاکروں بھائی۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے لیے راضی کیاہے تو تیرے لیے کیسے کرتا۔اور کوئی بات نہیں دلہا میں بنا یا تم لڑکی تو اپنے ہی گھر آئے گی۔انڈا تھالی میں ٹوٹا تو سمجھونہیں ٹوٹا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔