بلدیاتی انتخابات، جماعتی بنیاد پرکیوں؟

محمد سعید آرائیں  منگل 11 فروری 2020

گزشتہ بلدیاتی انتخابات 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر جماعتی بنیاد پرکرائے گئے تھے۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں پی ٹی آئی اور بلوچستان میں حسب معمول مخلوط حکومت اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

بلوچستان میں کوئی بھی ایک ایسی پارٹی نہیں ہے جو پورے صوبے میں اثر رکھتی ہو۔ وہاں قومی پارٹیوں سے زیادہ علاقائی پارٹیوں کا اثر زیادہ ہے جب کہ قبائلی سرداروں کے اپنے علاقے ہیں اور پختون وبلوچ بیلٹ الگ ہیں۔ کوئٹہ صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے جو پختون بیلٹ میں واقع ہے اور وہاں کا میئر بھی پختون ہی منتخب ہوتا رہا ہے۔

گزشتہ بلدیاتی انتخابات بلوچستان میں سب سے پہلے ہوئے تھے جو ایک سال سے زائد عرصے تک معطل رہے تھے اور تینوں صوبوں کے بعد وہاں میئر اور چیئرمینوں کا انتخاب ہوا تھا اور موجودہ بلوچستان حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے سب سے پہلے بلدیاتی ادارے ختم کرکے وہاں اپنے ایڈمنسٹریٹر سرکاری افسر مقررکیے جن کی زیادہ سیاسی مزاحمت نہیں ہوئی کیونکہ منتخب بلدیاتی عہدیداروں کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں اور سرداروں سے تھا۔

بلدیہ اعلیٰ کوئٹہ قبل ازوقت توڑے جانے پر سبکدوش میئر نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا مگر سپریم کورٹ کے حکم پر قبل از وقت پنجاب و بلوچستان میں کرائے گئے بلدیاتی انتخابات کے عہدیداروں کو متعلقہ ہائی کورٹس سے ریلیف نہیں ملا اور سیاسی حکومتوں کا انتقام کامیاب رہا۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔

پنجاب کے میئرز اور زیادہ تر بلدیاتی عہدیداروں کا تعلق (ن) لیگ سے تھا جو 2019 میں پی ٹی آئی حکومت کے سیاسی انتقام کا نشانہ بنے جس کے خلاف میئروں نے عدلیہ سے رجوع کر رکھا ہے اور وہاں پسندیدہ سرکاری ایڈمنسٹریٹر تعینات ہیں۔ اس طرح پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی طور پر منتخب تمام (ن) لیگ کے بلدیاتی عہدیداروں سے نجات حاصل کرلی اور کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے اپنے بلدیاتی عہدیدار زیادہ تھے جنھیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا گیا اور مدت مکمل ہونے کے بعد کے پی کے میں منتخب بلدیاتی ادارے تحلیل کر کے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کا تقرر کیا گیا۔ آئین کے تحت وہاں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے جب کہ اس سلسلے میں وہاں کوئی عدالتی پابندی بھی حائل نہیں ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں اب تک منتخب بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس فخرکی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات دوسرے صوبوں کی طرح سندھ میں بھی جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے جن میں سب سے زیادہ بلدیاتی عہدیدار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرکامیاب ہوئے تھے اور دوسرے نمبر پر متحدہ قومی موومنٹ رہی تھی جسکا حیدرآباد اور کراچی میں اپنا میئر منتخب ہوا تھا جب کہ سکھر اور لاڑکانہ کے منتخب میئروں کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ سندھ میں حیدرآباد وکراچی سمیت ضلع کونسلوں کے تمام چیئرمینوں اورکراچی میں ضلع جنوبی اور ملیر ڈی ایم سیز کے چیئرمینوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور کراچی کے چار اضلاع کی ڈی ایم سیز کے چیئرمین ایم کیو ایم کے ہیں۔

ضلع غربی کراچی میں متحدہ کا چیئرمین منتخب ہوا تھا مگر اسلام آباد ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے لیا گیا تھا اور وہاں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین تھے جس سے سندھ حکومت نے فائدہ اٹھا کر وہاں بھی اپنا ایڈمنسٹریٹر مقررکیا ہوا تھا اور باہمی مفاہمت کے بعد گزشتہ سال ہی متحدہ کے چیئرمین نے چارج سنبھالا تھا۔ پیپلز پارٹی نے بھٹو دور میں دس سال کے لیے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے شہری و دیہی سندھ کی تفریق پیدا کی تھی اور 2019 میں پیپلز پارٹی نے کراچی میں دیہی کراچی اور شہری علاقوں پر مشتمل کراچی کی تفریق پیدا کی ۔ پی پی حکومت نے اپنی مرضی کا کمزور بلدیاتی نظام کراچی کو دیا تھا۔

ضلع کونسل کراچی کی حدود میں کیماڑی ٹاؤن، گڈاپ ٹاؤن اور بن قاسم ٹاؤن کو ختم کرکے اور بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز کی حدود سے نکال کر یونین کونسلیں بنائی گئی تھیں جب کہ بلدیہ عظمیٰ کی یوسیزکو یونین کمیٹیوں کا نام دیا گیا تھا۔ اس طرح ضلع کونسل کراچی ملک بھر میں سب سے زیادہ حدود پر مشتمل ضلع کونسل ہے جسکا بلدیہ عظمیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سندھ بھر میں تمام ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں کو متعلقہ یوسیزکے چیئرمینوں اورکراچی کی چھ ڈی ایم سیزکے چیئرمینوں کو بلدیہ عظمیٰ کی کونسل کے وائس چیئرمینوں نے منتخب کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام میں پورا کراچی ایک ضلع پر مشتمل سٹی حکومت کراچی کا حصہ تھا جہاں 18 ٹاؤن کونسلیں بنائی گئی تھیں جنھیں پی پی حکومت نے ختم کر کے 15 ٹاؤن پر مشتمل 6 ضلعوں کی ڈی ایم سیز بنائیں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں متحدہ کے بعد ارکان کونسل کی زیادہ تعداد پیپلز پارٹی کی ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔

بلدیاتی ملازمین کے ایک مرکزی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں آیندہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں کیونکہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیاد پر کرائے گئے تھے جسکی وجہ سے بلدیاتی ادارے سیاسی اکھاڑوں میں تبدیل ہوگئے۔ ہر بلدیاتی معاملے میں سیاست آڑے آئی جسکی وجہ سے بلدیاتی عہدیدار اپنی پارٹیوں کے احکامات کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ سیاسی مفاد کے لیے تعمیری وترقیاتی کام، تعیناتیاں اور تبادلے ہوتے رہے۔ گزشتہ الیکشن میں جماعتوں نے ٹکٹ دیکر اپنے امیدواروں کو ہر حربہ اختیار کرکے انھیں کامیاب کرایا تھا اورکامیاب ہونیوالوں نے پارٹی پالیسی کے تحت کام کیے اور جہاں متعلقہ پارٹی کا ووٹ بینک نہیں تھا۔ ان علاقوں کو سیاسی طور پر نظر انداز کیا گیا جسکی وجہ سے جہاں کام ہونے تھے وہاں کام نہیں کرائے گئے۔

بلدیاتی اداروں کے عہدیداروں نے میرٹ کی بجائے سیاسی احکامات پر اہم عہدوں پر نا اہل لوگ مقررکیے اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ملک میں فوجی حکومتوں میں 1979، 1983، 1987، 1991 اور 2001 و 2015 میں ضلعی نظام کے لیے غیر جماعتی طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے جسکے سب سے بہتر نتائج برآمد ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام سب سے بہتر اور با اختیار تھا جس میں ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہوگئی تھی اور انھیں آئین کے مطابق اپنے اصل کام قانون سازی تک محدود کردیا گیا تھا جو ان کا اصل کام تھا مگر حکومتیں انھیں سیاسی رشوت کے لیے فنڈز دیتی تھیں جن سے وہ اپنی مرضی اور اپنے لوگوں کو ٹھیکے دلوا کر مفاد حاصل کرتے آ رہے ہیں جو غیر قانونی ہیں۔

ارکان اسمبلی سیاسی طور پر منتخب ہوتے ہیں جب کہ بلدیاتی ادارے نیم سرکاری اور صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں ہیں۔ غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات میں بھی سیاسی لوگ ہی منتخب ہوتے تھے مگر صورتحال کبھی ایسی نہیں رہی جتنی جماعتی انتخابات میں خراب ہوئی۔ ارکان اسمبلی تو منتخب بلدیاتی اداروں ہی کے خلاف ہیں اور لگتا ہے کہ اسی لیے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے حکومت کو کہا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں بلدیاتی انتخابات ہی نہ کرائیں ورنہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو عوام ووٹ نہیں دینگے۔ ایسی صورتحال میں اگر بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی طور پر کرائے گئے تو سیاسی پارٹیوں کی بھی عزت رہ جائے گی اور وہ سیاسی جماعتوں کے اثر سے بھی محفوظ رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔