بچوں میں سستی اور کاہلی انہیں ڈپریشن کا مریض بناسکتی ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  جمعرات 13 فروری 2020
آرام پسندی صرف بچوں کی جسمانی صحت پر ہی نہیں بلکہ ان کی ذہنی صحت پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آرام پسندی صرف بچوں کی جسمانی صحت پر ہی نہیں بلکہ ان کی ذہنی صحت پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لندن: برطانوی ماہرین نے ایک تفصیلی مطالعے کے بعد دریافت کیا ہے کہ جو بچے نوبلوغت کی عمر میں زیادہ وقت بیٹھے رہنے میں گزار دیتے ہیں، جب وہ بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ان کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے آرن کنڈولا اور ان کے ساتھیوں نے برطانیہ کے مختلف اسکولوں میں پڑھنے والے 4200 بچوں کو اس مطالعے کےلیے بطور رضاکار بھرتی کیا جن کی عمریں بالترتیب 12، 14 اور 16 سال تھیں۔

پہلے مرحلے میں حرکت پر نظر رکھنے والے خصوصی آلات کے ذریعے کئی دنوں تک ان کا مشاہدہ کیا گیا، جس کے بعد مختلف سوالناموں کے ذریعے ان میں بیٹھے رہنے کی عادات اور ڈپریشن کے بارے میں معلومات جمع کی گئیں۔ یہ مطالعہ تقریباً سات سال تک جاری رہا۔

مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ بیٹھے رہنے کے دورانیے میں ہر 60 منٹ اضافے کے ساتھ 12، 14 اور 16 سال عمر والے بچے جب بالغ ہوئے (یعنی 18 سال کی عمر کو پہنچے) تو ان میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی بالترتیب 11، 8 اور 10.5 فیصد زیادہ ہوگئے۔

ڈپریشن کا سب سے زیادہ خطرہ، یعنی 60 فیصد، اُن بچوں میں دیکھا گیا جو سب سے زیادہ سست تھے اور روزانہ 10 گھنٹے تک بیٹھے رہنے کے عادی تھے۔ البتہ، یہ بچے حرکت سے معذور نہیں بلکہ حد سے زیادہ آرام پسند ہیں اور کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی میں حصہ لینے سے جی چراتے ہیں۔

آرن کا کہنا ہے کہ اس مطالعے کے نتائج اُن والدین کےلیے لمحہ فکریہ ہیں جو اپنے بچوں کو ہر وقت آرام دینا چاہتے ہیں حالانکہ نوبلوغت کی عمر (12 سے 17 سال) بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کےلیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اپنے بچوں کو آرام پسندی کی ترغیب دینے والے والدین صرف ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ہی نہیں کھیل رہے بلکہ اس مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ وہ ان کی ذہنی صحت بھی تباہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔

اس مطالعے کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’دی لینسٹ سائکیاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔