بچوں پر جنسی تشدد؛ ایک سنگین سماجی مسئلہ

محمد سعید اختر  جمعـء 14 فروری 2020
بچوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک سنگین مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

بچوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک سنگین مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

بچوں (جنسی تفریق کے بغیر) کو کسی بھی طرح ہراساں کرنا، جسمانی یا جنسی تشدد، child abuse یا بچوں کے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ گو تعلیمی اور طبی سہولت سے محرومی بھی اسی استحصال میں شمار ہوتی ہے لیکن ہم اس بلاگ میں صرف جسمانی اور جنسی تشدد پر بات کریں گے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں ایک سنگین مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ صرف امریکا میں ہر سال تقریباً تیس لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جس میں سب سے زیادہ شرح جسمانی تشدد تقریباً 28 فیصد اور پھر 21 فیصد جنسی تشدد شامل ہے۔ ہر تین میں سے ایک لڑکی اور ہر پانچ میں سے ایک لڑکا جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر ایک گھنٹے میں چار بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ اور یہ اعدادوشمار 2017 کے ہیں۔ آج حالت یقیناً مزید ابترہوگی۔

بچوں سے زیادتی ایسا جرم ہے جس سے معاشرے میں تباہی کا لامتناہی عمل جاری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کا شکار 80 فیصد لوگ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ صرف بِیس فیصد لوگ نارمل زندگی کی طرف لوٹ پاتے ہیں اور معاشرے میں بہتر شہری کے طور پر زندگی گزار پاتے ہیں۔ باقی سب مختلف جرائم، جن میں بچوں کو جنسی و جسمانی تشدد (جیسا کبھی ان کے ساتھ بِیتا تھا) یا مختلف تشدد کے جرائم میں گرفتار ہوجاتے ہیں، جہاں ایک اور اندھیر نگری ان کی منتظر ہوتی ہے اور رہا ہوتے ہی وہ پھر مزید جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ سب سے محفوظ اور پاکستان و بھارت بچوں کےلیے سب سے کم محفوظ ملکوں میں سرِفہرست ہیں۔

پاکستان میں اگر کوئی بچہ جنسی تشدد کا شکار بنتا ہے تو اکثر بدنامی کے ڈر سے پورا خاندان ہی نقل مکانی پر مجبور ہوجاتا ہے، چہ جائیکہ اس تشدد کو رپورٹ کیا جائے۔ جسمانی تشدد پر تو جب تک بچہ مر نہ جائے، مشکل ہے کہ کوئی ایف آئی آر درج ہو، کجا آپ جذباتی، طبی یا تعلیمی رکاوٹ کو بھی بچوں کے استحصال میں شمار کریں۔

پاکستان میں ساحل نامی این جی او کے مطابق 2016 میں روزانہ سات بچے زیادتی کا شکار ہوتے تھے، جو 2019-2018 میں بڑھ کر بارہ ہوچکے ہیں۔ ان میں پنجاب 65 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

اب اس موضوع کو صرف جنسی تشدد تک محدود کرتے ہیں۔ چند دن کے بچوں سے لے کر اٹھارہ سال کے بچوں تک کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا ایک حقیقت ہے۔ جنسی تشدد، دنیا کے ہر کلچر اور معاشرے میں تاریخی طور پر بھی ثابت ہوا ہے۔ یہ چرچ ہو، مسجد یا مدرسہ، اسکول، کالج یا گھر، غرض کہیں پر بھی ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ ’’چرچز‘‘ کے چرچے تو ابھی کل کی بات ہے، جب یورپ اور امریکا کے پادریوں کے اسکینڈلز سامنے آئے۔ جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچے پادریوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ لیکن اس صورتحال پر تالیاں بجانے کے بجائے اپنے ملک کے مدرسے یا اسکولوں کو اس برائی سے محفوظ سمجھنے والوں کو کسی بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

تاہم اس موضوع پر، ہر معاشرے میں بات کرنے پر سماجی دباؤ یا خوف کی وجہ سے غیراعلانیہ پابندی تھی۔ منظم طور پر اب چند عشروں سے بہت ساری تنظیمیں اس پر کام کررہی ہیں اور سامنے آنے والے اعدادوشمار خوفناک حد تک چونکا دینے والے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسیف اور انٹرپول جیسے اداروں کے مستند اعدادوشمار کے مطابق آج بھی جنسی تشدد کے کیسز میں، ہر تین میں سے ایک کیس کو بدنامی یا سماجی دباؤ کی وجہ سے دبا لیا جاتا ہے اور رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو صحیح اعدادوشمار کا اندازہ لگانے کےلیے اول تو کوئی مستند رپورٹس ہی دستیاب نہیں، اور جو ہیں وہ بھی اوپر بیان کی گئی صورتحال کے باعث اندازاً ہر سات کیسز میں سے صرف ایک رپورٹ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

جنسی تشدد کی وجوہات یا اسباب پوری دنیا میں نامعلوم یا نہایت پیچیدہ ہیں، لیکن حالات و واقعات کے مطابق اور رپورٹ ہوئے کیسز کی بنیاد پر چند بڑے اسباب بہرحال جنسی گھٹن، غربت یا چائلڈ لیبر، خوداعتمادی کی کمی اور بنیادی حقوق کی ناآگاہی ہی ہیں۔ چرچز میں ہونے والے ایسے بے شمار واقعات، جس میں رومن کیتھولک ’’پادری یا پِریسٹ‘‘ کے عہدے کےلیے مرد اور غیر شادی شدہ ہونا بنیادی شرط ہے، جنسی گھٹن یا فرسٹریشن کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ مدرسوں میں بھی جنسی گھٹن کی وجہ سے ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ گو کچھ دوسرے عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جیسے ان واقعات کو چھپا لینا یا رات کو چھوٹے بچوں کا مدرسوں میں قیام وغیرہ۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کے ذریعے فحش فلموں تک ہر بچے اور بڑے کی رسائی نے بھی جنسی گھٹن یا فرسٹریشن کو فروغ دیا ہے۔ جنسی گھٹن کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

سماجی وجوہات میں اندھا اعتماد بنیادی وجہ ہے۔ نوے فیصد جنسی تشدد کے کیسز میں اڑسٹھ فیصد رشتے دار/ فیملی ممبرز یا جاننے والے ملوث پائے جاتے ہیں۔ بچوں کو رشتے داروں کے پاس چھوڑنا، پڑوسیوں یا جاننے والوں کے پاس کھیلنے یا پڑھنے کےلیے بھیجنا بھی ایسے واقعات کا باعث بنتا ہے۔

غربت، چائلڈ لیبر یا معاشی حالات بھی جنسی تشدد کی بنیادی وجوہات میں سے ہیں۔ بچے کو اس وقت تو کوئی پناہ ہی نہیں ملتی جب ماں باپ اپنی ذمے داریاں نبھانے کے بجائے ننھے شکار کو شکاری کے آگے پھینک آتے ہیں۔ آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا۔ چائلڈ لیبر تیسری دنیا کے بچوں کےلیے ایک بھیانک خواب ہے۔ پھر یہ ایسا جرم ہے جس میں شکاری کو اس بات کا کامل یقین رہتا ہے کہ شکار اپنی ہی بدنامی کے خوف سے چپ رہے گا، یا بالفرض محال، وہ کسی کو بتا بھی دے گا تو اس کا خاندان بھی بدنامی کے ڈرسے چپ رہے گا، یہ خیال شکاری کو اس جرم پر مزید اکساتا ہے۔

بچوں کو جنسی شعور سے آگاہی نہ دینا یا خوداعتمادی کی کمی بھی وجوہات میں شامل ہیں (جنسی شعور سے مراد گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ، رشتے دار یا کوئی بھی کس حد تک چھو سکتا ہے وغیرہ)۔ بچوں کو خود اعتمادی دیجیے تاکہ کسی بھی ایسے حالات میں وہ آپ کو مطلع کریں یا خود ہی مقابلہ کریں۔

جنسی تشدد کیسز میں کچھ ایسی مشکلات درپیش ہیں جنہیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے ان کیسزکا تدارک کرنا بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ سب سے پہلے نمبر پر تو پرائیویسی ہے۔ ایسا بچہ جو جنسی تشدد کا شکار ہوا ہو، ہر معاشرے خصوصاً پاکستان جیسے معاشرے میں خود کشی کو ترجیح دیتا ہے۔ پورا خاندان ہجرت کرجانے کو بہتر سمجھتا ہے۔ پھر اگر اس بچے پر ظلم کی رپورٹ کی جائے تو پولیسنگ اور عدالتی نظام بھی کوئی خاص مددگار نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پھر میڈیا میں بھی خاص قواعد و ضوابط لاگو نہیں ہیں۔ اگر ایسے بچے کی تصویر وائرل ہوجائے تو ہمارا معاشرہ کبھی بھی ایسے بچے کو آسانی سے قبول نہیں کرتا اور آنے والی زندگی مزید تکلیف دہ ہوجاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنے کےلیے ہر معاشرے میں ایک مربوط نظام ترتیب دیا جائے۔ جس میں ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان میں علما، جو بہرحال ایک پلیٹ فارم رکھتے ہیں، اور این جی اوز آگاہی مہم چلائیں۔ والدین اور اساتذہ کا کردار تو بنیادی ہے۔ ایسے مدرسے یا اسکولز، جہاں بچے رات بھی گزارتے ہیں، وہاں پر کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے۔ ویڈیوز کی شکل میں نصاب ترتیب دیا جائے اور بچوں پر کسی بھی قسم کا تشدد ناقابلِ معافی جرم قرار دیا جائے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کا مستقبل تو بچے ہی ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد سعید اختر

محمد سعید اختر

بلاگر پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی پروفیشنل ہیں اور کئی سال سے مختلف خلیجی ممالک میں ملازمت کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔