کس میں جرات ہے

جاوید چوہدری  جمعرات 13 فروری 2020
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میرے بچپن کی بات ہے‘ ہماری گلی میں ایک دکان دار ہوتا تھا‘ اس نے زندگی میں بے شمار کام کیے لیکن کوئی بھی کام نہ چل سکا‘ وہ ایک مکمل فیل بزنس مین تھا مگر پھراس نے کریانے کی دکان بنائی اور وہ چل نکلی‘ وہ دھڑا دھڑ نوٹ کمانے لگا‘ وہ زندگی میں لاہور تک نہیں گیا تھا مگر وہ حاجی صاحب مشہور ہو گیا۔

حاجی صاحب کا بیٹا میرا کلاس فیلو تھا‘ میں نے اس سے اس اچانک کام یابی کی وجہ پوچھی تو بیٹے نے ہنس کر ٹھوڑی پر ہاتھ رکھا‘ داڑھی کا نشان بنایا اور کہا ’’ابا مولوی بن گیا ہے‘‘ میرا دماغ کچا تھا‘ میں بات نہ سمجھ سکا‘ میں کالج کے زمانے میں حاجی صاحب کی دکان پر چلا گیا۔

میرا کلاس فیلو دوست تعلیم چھوڑ کر دکان پر بیٹھ چکا تھا‘ حاجی صاحب بڑی شفقت سے ملے‘ میں نے ان کا ماضی سنایا اور پھر ان سے پوچھا ’’حاجی صاحب سچ سچ بتائیں آپ نے اپنا کاروبار کیسے کام یاب کیا‘‘ حاجی صاحب نے قہقہہ لگایا‘ آسمان کی طرف انگلی اٹھائی‘ پھر وہ انگلی اپنے دماغ پر رکھی اور اس کے بعد پوری دکان کے اندر پھیر دی‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’بیٹا مجھے بڑی مشکل سے سمجھ آیا دنیا میں صرف پراڈکٹس نہیں بکتیں‘ دکان داروں کے حلیے اور پراڈکٹس کے نام بکتے ہیں۔

مجھے یہ بھی پتا چل گیا مذہب میں بڑی برکت ہوتی ہے لہٰذا میں نے اپنا حلیہ بھی برکت والا بنا لیا اور اپنی پراڈکٹس کو بھی مذہبی نام دے دیا چناں چہ اللہ نے برکت دے دی‘‘ میں نے حیرت سے حاجی صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ حلیے سے ان پڑھ ہونے کے باوجود سر سے پاؤں تک عالم دین لگتے تھے‘ میں نے دکان کا سائن بورڈ دیکھا ‘ اس پر اسلامی کریانہ مرچنٹ لکھا تھا اور پھر میں نے حاجی صاحب کی پراڈکٹس کو دیکھنا شروع کر دیا‘ ہر ڈبے‘ ہر پیکٹ اور ہر ساشے پر مکی‘ مدنی‘ محمدی‘ قادری‘ چشتی‘ حسینی‘ رضائی اور غوثیہ لکھا تھا‘ حاجی صاحب نے جیلیٹ بلیڈ پر بھی براق کی تصویر لگا رکھی تھی اور ان کا شہد بھی اسلامی تھا اور کاجل بھی مصطفوی ‘ حاجی صاحب ان تمام ناموں کی برکت کو اپنی کام یابی کی وجہ قرار دیتے تھے۔

مجھے عجیب محسوس ہوا اور میں وہاں سے اٹھ آیا لیکن میں جب آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے حاجی صاحب عقل مند اور ان کی اپروچ عین سائنسی محسوس ہوتی ہے‘ مذہب دنیاوی برکت کا ایک شان دار ٹول ہے‘ آپ کسی بھی پراڈکٹ پر مذہب کا ٹھپہ لگا دیں وہ دھڑا دھڑ بکنا شروع ہو جائے گی‘ آپ کسی بھی چیز‘ خیال‘ پراڈکٹ اور فیصلے پر مذہب کی مہر لگا دیں لوگ اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کریں گے‘ ہم مانیں یا نہ مانیں یہ بہرحال ایک تلخ حقیقت ہے۔

میں پچھلے ہفتے سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا ایشو دیکھ رہا ہوں‘ یہ ایشو 7 فروری کو قومی اسمبلی میں پہنچا اور ایوان نے اکثریتی ووٹوں سے یہ قرارداد پاس کر دی‘ پورے ایوان میں صرف شیریں مزاری‘ فواد چوہدری اور فروغ نسیم نے سرعام پھانسی کی مخالفت کی‘ باقی اسے عین اسلامی سمجھ کر خاموش ہو گئے‘ میں سب سے پہلے شیریں مزاری‘ فواد چوہدری  اور فروغ نسیم کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں‘ ہماری پارلیمنٹ میں چند ہی سہی لیکن عوامی رائے کے خلاف آواز اٹھانے والے تو موجود ہیں اور قحط کے اس موسم میں یہ چند لوگ غنیمت ہیں ورنہ ہم میں سے کس میں جرات ہے وہ قوم کو بتائے اسلام میں کسی جگہ پھانسی کی سزا موجود نہیں‘ پھانسی اور سرعام پھانسی اڑھائی ہزار سال قبل ایران سے شروع ہوئی تھی‘ ایرانی دشمنوں کو پھانسی دے کر ان کی لاشیں چیلوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے‘ چیلیں لاشیں کھا جاتی تھیں اور ہڈیاں لٹکی رہ جاتی تھیں۔

یہ سزا ایران سے یورپ کے قبائل میں آئی‘ یونان کے عظیم شاعر ہومر نے پہلی باراوڈیسی میں ہینگ کا لفظ لکھا اور یوں پھانسی متعارف ہوئی‘ جرمینک اینگلو سیکسن قبیلے یہ سزا تیسری صدی عیسوی میں ایران سے برطانیہ لے کر آئے اور اس کے بعد برطانیہ نے جہاں حکومت کی وہاں پھانسی اور سر عام پھانسی قانون بنتی چلی گئی‘سرعام پھانسی انسانیت سوز فعل تھا لہٰذا یہ 1936 میں امریکا اور 1964میں برطانیہ میں بند ہو گیا‘ دنیا میں اس وقت صرف چار ملکوں میں سرعام سزائے موت دی جاتی ہے‘ سعودی عرب‘ ایران‘ صومالیہ اور شمالی کوریا‘ سعودی عرب اور صومالیہ میں مجرموں کے سر اتارے جاتے ہیں‘ ایران میں سرعام پھانسی دی جاتی ہے جب کہ شمالی کوریا میں مجرموں کو گولی ماری جاتی ہے‘ باقی دنیا میں مجرموں کو جیلوں میں سزائے موت دی جاتی ہے لہٰذا ہم اگر کام یاب ہو گئے تو ہم علی محمد خان کی مہربانی سے سرعام سزائے موت دینے والا پانچواں ملک ہوں گے‘ہم میں سے کس میں جرات ہے جو یہ بتائے سزائے موت بنیادی طور پر اہل یہود کی سزا ہے۔

یہ قتل کے بدلے میں قتل کرتے تھے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو صلیب رومنز کی سزا تھی‘ اہل روم مجرموں کو صلیب پر لٹا کر ان کے جسم میں کیل ٹھونک دیتے تھے اور پھر وہ صلیب زمین میں گاڑھ دیتے تھے‘ مجرم صلیب پرلٹکے لٹکے دم توڑ دیتا تھا‘ حضرت عیسیٰ  ؑ کے زمانے میں یوروشلم رومن ایمپائر کا حصہ تھا چناں چہ حضرت عیسیٰ  ؑ کو رومی گورنر کے حکم پر رومن طریقے سے صلیب کی سزا سنائی گئی تاہم عرب قتل کے مجرموں کے سر اتار دیتے تھے یا پھر ان سے خون بہا لیتے تھے‘ عربوں میں پھانسی کی سزا سرے سے موجود نہیں تھی‘ چور کے ہاتھ کاٹنا اور سنگسار کرنا بھی اہل یہود کا طریقہ تھا‘ یہ زنا کے مجرموں کو پتھر مار کر ہلاک کر دیتے تھے‘ اسلام نے چار گواہ شامل کر کے اس سزا کو مشکل بنا دیا‘ یہ درست ہے اسلام کے ابتدائی زمانے میں چوری‘ زنا اور قتل کی سزا سرعام دی جاتی تھی لیکن اس کا مقصد خوف کی بجائے شناخت ہوتا تھا‘ پرانے زمانے میں مجرم کی شناخت کا کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہوتا تھا۔

لہٰذا طاقت ور مجرم جلاد کے ساتھ مل کر اپنی جگہ اپنے کسی غلام کا سرا اتروا دیتے تھے چناں چہ ریاست مجرم کو سزا دینے سے پہلے اسے عوام کے سامنے پیش کرتی تھی تاکہ لوگ اسے شناخت کر سکیں اور بے گناہ لوگ سزا سے بچ سکیں اور ہم میں سے کس میں جرات ہے جو یہ بھی بتائے اسلام امن کا مذہب ہے‘ اس میں صرف ایک خوف ہے اور وہ ہے خوف خدا‘ مسلمان اونٹ‘ بیل اور مرغی کو بھی لوگوں کے سامنے ذبح نہیں کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے دنبہ بھی ویرانے میں ذبح کرایا تھا‘ شہر کے عین درمیان نہیں‘ دنیا میں اب کیوں کہ مجرم کی شناخت کے ہزار طریقے موجود ہیں لہٰذا دنیا سرعام پھانسی کو بربریت اور غیرانسانی فعل سمجھتی ہے‘ آپ حقیقت دیکھیے وہ مذہب جس نے تاریخ میں پہلی بار سزائے موت شروع کی وہ بھی اب سزائے موت پر پابندی لگا چکا ہے‘ اسرائیل میں 1954ء کے بعد صرف ایک سزائے موت ہوئی اور وہ بھی ہٹلر کا ساتھی ایڈوولف ایچ مین (Adolf Eichmann) تھا‘ یہ ہولوکاسٹ میں ملوث تھا گویا اسرائیل میں بھی سرعام پھانسی تو دور سزائے موت ہی نہیں ہے لیکن ہم وقت کو اڑھائی ہزار سال پیچھے لے جا کر پوری دنیا کو حیران کرنا چاہتے ہیں۔

یہ درست ہے بچوں کے ساتھ زیادتی ناقابل معافی جرم ہے‘ ہم بے شک ان مجرموں کو سزائے موت دیں لیکن سرعام پھانسی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہیے‘ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے لوگ نارمل نہیں ہوتے ‘ یہ ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے بیمار ہوتے ہیں‘ یہ پاگل‘ سنگ دل اور اذیت پسند ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ریاست بھی ان سے نبٹتے نبٹتے اذیت پسند‘ سنگ دل اور پاگل ہو جائے‘ ریاست کوہر صورت ریاست ہونا چاہیے‘ علی محمد خان چھوٹی سی ریسرچ کر لیں‘ ایک عوامی پھانسی کتنے لوگوں کوکتنے عرصے کے لیے بیمار کرتی ہے‘ یہ لوگوں کو کتنا اذیت پسند اور ڈپریس بنا دیتی ہے؟مجھے یقین ہے۔

ان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے‘ دوسرا ایران‘ سعودی عرب‘ صومالیہ اور شمالی کوریا میں مسلسل سرعام سزائے موت دی جا رہی ہے‘سوال یہ ہے کیا وہاں یہ جرائم رک گئے ہیں؟ جی نہیں! اعدادو شمار بتاتے ہیں ان چاروں ملکوں میں سرعام سزائے موت کے باوجود جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں جاپان اور سنگا پور میں سرے سے سزائے موت نہیں لیکن اس کے باوجود جاپان میں سالانہ 11اورسنگاپور میں صرف 10افراد قتل ہوتے ہیں چناں چہ حکومت کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا صرف سزاؤں سے جرم نہیں رکتے‘ دوسرا ریاست کا کام صرف سزا دینا نہیں ہوتا جرم روکنابھی ہوتا ہے۔

سزاؤں کی زیادتی اکثر اوقات جرائم میں اضافہ کر دیتی ہے‘ سعودی عرب میں ہر جمعے کے دن سر اتارے جاتے ہیں لیکن منشیات فروش اس کے باوجود وہاں منشیات بھی بیچ رہے ہیں اور قاتل قتل بھی کر رہے ہیں‘کیوں؟ کیوں کہ وہاں بھی صرف سزائیں دی جا رہی ہیں‘ جرم نہیں روکا جا رہا‘ ہم بھی اگر واقعی ملک بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بھی جرم روکنا ہوگا‘ ہمیں بھی کان کو سیدھے ہاتھ سے پکڑنا ہوگا ورنہ ہم اگر پورے ملک کو بھی پھانسی گھاٹ بنا دیں تو بھی ہمارے بچے محفوظ نہیں ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔