ایک ٹشو پیپر اور

سعد اللہ جان برق  جمعرات 13 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

اس دنیا میں ایک دشت تھا، اس دشت میں ایک شہر تھا ، اس شہر میں ایک آدمی تھا، اس آدمی میں ایک  سورما تھا، اس سورما میں ایک کمانڈو تھا، اس میں ایک چیف ایگزیکٹیو تھا، اس چیف ایگزیکٹیو میں ایک باوردی تھا۔ ہم یہاں یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ ایک ظاہر سی بات ہے کہ دکھاتا ہے رنگ یہ جہاں کیسے کیسے؟ زمیں کھا جاتی ہے آسماں کیسے کیسے؟

یا یہ کہ جو زمین پر رہتا ہے وہ گرتا بھی نہیں جو گرتے ہیں وہ پہلے بلندی پر پہنچتے ہیں پھر گرتے ہیں۔ گرتے ہیں شاہسوار ہی میدان جنگ میں۔ جو جنگ ہی نہ کرے اور میدان میں اترے ہی نہیں، گھوڑے پرسواری نہ کریں وہ کیاکریں گے۔

ننگی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا اور سکھائے گی کیا۔ وہ طفل کیا کرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے۔ لیکن ہم ایک اور بات کرنا چاہتے ہیں وہ بات ’’بانس‘‘ کی ہے اور بانس پر چڑھانے والوں کی ہے یا تالیاں بجانے والوں کی ہے۔ سب سے پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ایسا کیا ہے، پانی میں کچھ گڑ بڑ ہے، ہوا میں کچھ آلودگی ہے یا مٹی میں کوئی تاثیر ہے کہ یہاںآمر  حکومت پر قابض ہو جاتا ہے، ویسا ہی ایک اور ملک پڑوس میں  اور بھی ہے جو اس سے بڑا ہے اس سے زیادہ گوناگوں رنگوں سے بھرا ہوا ہے اس سے زیادہ مسائل کا شکار ہے اس سے زیادہ مختلف العقائد، مختلف النسل اور مختلف اللسان عناصر پر مشتمل ہے لیکن وہاں عوام کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آمریت کیا ہوتی ہے۔

تو پھر پاکستان میں ایسا کیا  ہے کہ غیر سول اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں دخل دینے لگتے ہیں۔ ہم اسے ان غیر سولز کا قصور یا حرص یا شوق سمجھ لیتے لیکن صرف غیر سول تو نہیں یہاں ہرکوئی ’’اپناکام‘‘ چھوڑکر  دوسرے کے کاموں میں مداخلت کا عادی ہے، ججز، افسران، اہل کار اور نہ جانے کیا کیا، ڈاکٹر اور انجینئر بیوروکریٹ یا لیڈر بن جاتے ہیں۔

بیوروکریٹ ہر فن مولے ہو جاتے ہیں۔ چور ڈاکو لیٹرے بعد ازاں وزیر بن جاتے ہیں۔ دنیادار، دین داری کرنے لگتے ہیں، پیر فقیر، وزیر مشیر بن جاتے ہیں یا درسگاہیں چلاتے ہیں ایسے میں اگر غیر سول اپنا کام چھوڑ کر سول کے کام کرنے لگتے ہیں تو کوئی حیرت کی بات ہی نہیں۔ اور پھر سول یا منتخب یا جمہوری نے نہ توکوئی کارنامہ کیا ہے نہ کچھ سنوارا ہے بلکہ بگاڑا ہی بگاڑا ہے۔ جو بھی بڑے کام ہوئے ہیں وہ آمریت کے عہد میں ہوئے ہیں، بڑے بڑے ڈیم، کارخانے، اسپتال اور منصوبے۔ البتہ ان پر نام پھر جمہوریوں نے رکھے ہیں۔ ایوب ٹیچنگ اسپتال کو شیرپاؤ اسپتال، افتخار حسین شاہ کالونی کو اکرم درانی کالونی اور بہت سارے مقامات کو بے نظیر مقامات، جمہوری ادوار میں بنایا گیا ہے۔

ایٹم بم کو بھی سول والوں کے نام کر دیا گیا ہے۔ پشاور کے پل اور سڑکیں جو افتخارحسین شاہ اور فضل حق کے کارنامے ہیں وہ بھی مرحومین کے نام کر دیے گئے جنہوں نے کبھی زندگی میں اس کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو گا۔  جمہوری ادوار میں بندر بانٹ اور ہر ہر مقام پر نوالوں کے لیے منہ پیدا کرنے کے سوا اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے خیرات گاہوں کے سوا وزیروں کی بے پناہ تعداد کو اس نحیف و نزار قوم کے کاندھوں پر سوار کرنے کے سوا اور ہوا کیا ہے، اس عظیم الشان لنگر خانے بلکہ لنگر خانوں کو جنھیں اسمبلیاں کہا جاتا ہے۔ اور وہاں دنیا بھر کے خاندانی اور پیشہ ور لوٹ کے مال میں حصہ لینے کے لیے آتے ہیں۔

اگرکوئی کام جمہوری عہد میں ہوا ہے تو وہ نواز شریف کا موٹروے اور شھباز شریف کا میڑو بس ہے جس کی سزا ان کو مل گئی ہے اور مل رہی ہے کہ تم یہ کیسے کم بخت جمہوری ہو کہ خالص چوری کرنے کی بجائے ’’کام‘‘ بھی کرتے ہو، جمہوری غدار کہیں کے لیکن ان کو بھی آمریت کی پیدائش کہا جاتا ہے خاندانی اور سچا جمہوری تو نہیں تھا۔

ہمیں غیر سول کی طرف داری کرنی ہے نہ کسی کے فیصلوں سے کوئی لینا دینا ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ خرابیوں کا یہ زہریلا جنگل اگایا کس نے ہے اور خاص طور پر اس نحیف و ضعیف ملک کے کاندھوں پر اتنی بھاری بھرذمے داری کس نے ڈالی ہے، کیا مسئلہ کشمیر کو کسی غیر سول نے پیدا کیا ہے کیا یہ ہڈی کوئی غیر سول  برطانیہ سے لایا ہے؟ اور ہاں اپنے ہی ملک میں حملہ آور ہونے کی روایت کس نے ڈالی ہے۔ اس اسکندر مرزا نے جو انگریزی عہد میں بیوروکریٹ ہونے کے باوجود مسلم لیگ کا کنوینئر تھا اور یہ اکثر جمہوری خانوادے وہی لایا تھا اور شطرنج کی بساط پر جگہ جگہ ان کو فٹ کیا تھا۔

کیا وہ خرابیوں کا سر چشمہ پاکستان کا بانی مبانی ڈس ایبل اور فاتر العقل غلام محمد تھا۔ ایک اور بڑے مزے کی بات دیکھیے آمر آئے چند دنوں کے لیے تھے اور وہ بالکل یہی ارادے رکھتے بھی تھے لیکن وہ بھنگڑا پارٹی کون تھی جو ان کو اقتدارکا چسکا چکھا جاتی تھی اور اس کا دامن پکڑ کر اپنے سر پر پھیلا دیتے تھے اور پھر استعمال کرنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح اسے پھینک دیتے تھے، کہ یہ جدی پشتی لوگ ہمیشہ ’’ٹشو پیپر‘‘ استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج کے کپتان خان تک سارے کے سارے ’’ٹشو پیپر‘‘ کے پیچھے وہی ایک ہاتھ ہے لیکن یہ ہاتھ غیر سول نہیں بلکہ اس اشرافیہ، اس ایلیٹ کلاس اور بھنگڑا پارٹی کا ہے جو نظر نہیں آتا لیکن کرتا سب کچھ وہی ہے۔ ’’تخت یا تختہ‘‘ دینا اس کا پرانا طریقہ واردات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔