دِل والوں نے پھر دِلّی لُوٹ لی

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 14 فروری 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نفرت و تشدد پسندی کی مودی ہنڈیا اس بُری طرح اُبلی ہے کہ اس نے اپنے ہی کنارے جلا ڈالے ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کے انتہا پسند مقتدر ساتھیوں نے غلط سوچا تھا کہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر انھوں نے پچھلے سال بھارتی قومی انتخابات میں جو بڑی کامیابی سمیٹی تھی، شائد اِسی بنیاد پر وہ دہلی کا ریاستی انتخاب بھی جیت جائیں گے۔

مودی جی، اُن کے مذہبی جنونی مقتدر ساتھی اور بی جے پی کے اکثریتی اُمیدواردِلّی کے ریاستی الیکشن میں بُری طرح پِٹ گئے ہیں۔ متحمل مزاج اکاون سالہ جواںسال سیاستدان اور ’’عام آدمی پارٹی‘‘ (AAP) کا سربراہ، اروند کجریوال، بھاری اکثریت سے دہلی کا انتخاب جیت چکا ہے۔ بی جے پی کو خاک چاٹنا پڑی ہے۔ دِلّی اسمبلی، جو70 نشستوں پر مشتمل ہے، میں ’’آپ‘‘ کے  وابستگان ایک بار پھر فاتح کی حیثیت میں داخل ہُوئے ہیں۔

چند دن پہلے ( 8 فروری، بروز ہفتہ ) دِلّی کے ریاستی انتخابات میں تین بڑی سیاسی جماعتیں میدان میں اُتریں : عام آدمی پارٹی ، کانگریس اور بی جے پی ۔ ساری دُنیا کی نظریں دہلی پر ٹکی ہُوئی تھیں، یہ دیکھنے کے لیے کہ نفرت، تشدد پسندی اور مذہبی جنونیت کے جھکڑ چلانے والی مقتدر پارٹی ( بی جے پی) کا کیا حشر ہوتا ہے۔ انتخاب کا رَن پڑا تو دہلی والوں نے ’’بی جے پی‘‘ کا حشر نشر کر دیا ہے۔ الیکشن کمپین کے دوران ہی کہا جا رہا تھا کہ ’’آپ‘‘ کو ہرانا آسان نہیں ہو گا۔ بھارت کی حکمران جماعت ’’بی جے پی‘‘ کا مگر اصرار تھا کہ وہ جیت کر دکھائیں گے۔

اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے ’’بی جے پی‘‘ نے دھن، دولت اور دھونس کے سارے ہی حربے آزما ڈالے۔ مودی جی نے مرکز سے امیت شاہ ( بھارتی وزیر داخلہ ) اور یوگی ادیتیہ ناتھ ( بھارتی ریاست اُتر پردیش کے مشہور جنونی ہندو وزیر اعلیٰ ) کو دِلّی میںڈیرے ڈالنے کے احکامات جار ی کیے۔ سرکاری و حتمی نتائج کے مطابق ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے 70 میں سے62 سیٹیں جیت لی ہیں۔ اس فتح کی اساس پر آج 14 فروری کو اروند کجریوال دلی کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے جا رہے ہیں۔

بی جے پی کے مرکزی اور بڑے اُمیدوار، منوج تیواڑی، نے دلی کے ریاستی انتخابات میں بھارتی مسلمانوں، دَلتوں اور کشمیریوں کے خلاف زبان درازی اور زہر افشانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ مذہبی جنونیت کی آگ جلا کر اپنا ہدف حاصل کر لیں گے کہ یہی حربہ بی جے پی قومی انتخابات میں بروئے کار لا کر مرکزی اقتدار حاصل کرنے میں فتحیاب ہُوئی تھی۔ دِلّی کے ریاستی انتخابات میں مگر نسلی برتری، نفرت اور حقارت کے ہتھکنڈے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے ہیں۔ دِلی والوں نے ڈنکے کی چوٹ پر ’’بی جے پی‘‘ کے فلسفے اور سوچ کو شکست دے کر ’’آپ‘‘ کو فقید المثال کامیابی کا تحفہ دیا ہے۔ اروند کجریوال نے پانچ سال قبل بھی اپنی نومولود پارٹی (AAP) کے سادہ پلیٹ فارم سے دلی کا ریاستی انتخاب بھاری اکثریت سے جیت تھا۔

یہ بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت ہی کا شاخسانہ تھا کہ اُس نے دِلی کے ان انتخابات میں ایک بھی مسلمان اُمیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ قومی انتخابات میں بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ’’آپ‘‘ نے چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیے: عمران حسین ، امانت  اللہ خان، عبدالرحمن اور حاجی یونس۔ امانت اللہ خان (جو حلقہ ’’اوکھلا‘‘ سے انتخاب لڑ رہے تھے) نے دِلی میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر بی جے پی کے ایک دولت مند شخص کو شکستِ فاش دی ہے۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کا مقبول نعرہ تھا: اچھے بیتے پانچ سال، لگے رہو کجریوال  بی جے پی نفرت کی بنیاد پر الیکشن لڑ رہی تھی۔

اُس کے کئی اُمیدواروں نے دہلی کے شاہین باغ میں مودی کے امتیازی قوانین (CAA۔NRC۔NPR) کے خلاف دھرنے پر بیٹھی مسلمان خواتین کے خلاف زبان درازی کرتے ہُوئے یہاں تک کہہ دیا تھا: ’’ذرا یہ انتخاب ہونے دیں، پھر ہم لوگ گھروں میں گھس کر تمہارا ریپ کریں گے، کوئی تمہیں بچانے نہیں آئے گا۔‘‘ ایسے دریدہ دہنوں کو بھلا ووٹ کہاں سے ملنے تھے؟ بی جے پی کے مقابل ’’آپ‘‘ کے سبھی اُمیدواروں نے شائستگی اور سنجیدگی کی بنیاد پر الیکشن مہم چلائی۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران اپنی پارٹی کی عوام دوست پالیسیوں اور اُن پر مسلسل عملدرآمد کو نعرہ بنایا اور کہا: اس بار پھر موقع دیں گے تو مزید خدمت کریں گے اور رہ جانے والی کمیاں خامیاں دُور کر دیں گے۔

اروند کجریوال کی قیادت میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے عوام کے لیے اپنی 6 بڑی خدمات کو انتخابی منشور بنایا (۱) ریاست بھر میں ’’محلّہ کلینک‘‘ کی بنیاد پر عسرت زدہ عوام کو مفت طبی سہولتوں کی فراہمی۔ ’’محلہ کلینک‘‘ کا اجرا مودی کی مرکزی حکومت کے متعارف کردہ صحت پروگرام ’’آیوش مان ہیلتھ کارڈ‘‘ کے مقابلے میں بنایا گیا اور کامیاب رہا (۲) دِلی کے سبھی غریب طبقات کو ہر ماہ بجلی کے 200 یونٹس کی مفت فراہمی (۳) روزانہ 700 لٹر صاف مفت پانی کی یقینی فراہمی اور وہ بھی غریبوں کے گھروں کی دہلیز پر (۴) کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق اور اُن کی روزانہ کی بنیاد پر صفائی (۵) غریب اور متوسط طبقات کے بچوں کے لیے بالکل نئے اور اعلیٰ معیار کے اسکولوں کی تعمیر اور اُن میں دسویں جماعت تک مفت تعلیم (۶) دہلی میں چلنے والی سرکاری بسوں میں خواتین کو مفت سفر کرنے کی سہولت!!

فراہم کی گئی ان قابلِ ستائش سہولتوں کی موجودگی میںدِلّی ریاست (جس کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے) کے شہری اروند کجریوال اور اُن کی پارٹی کو بھلا ووٹ کیوں نہ دیتے؟ اس کے مقابلے میں ’’بی جے پی‘‘ تکبر اور غرور  میں مبتلا ہو کر بدتمیزیاں کرتی رہی۔ یوں اہلِ دہلی نے اس کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے بجائے اُن کی ووٹ صندوقچیوں میں کچرا بھر دیا۔

دِلی کے ریاستی انتخابات میں مقتدر بی جے پی کی یہ پہلی انتخابی شکست نہیں ہے۔ رواں برس کے ان دو مہینوں کے دوران بی جے پی دیگر چار بھارتی صوبوں(راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ) میں بھی ریاستی انتخابات ہار چکی ہے ۔ اس کا تکبر، نفرت کی سیاست اور متشدد ہندو لیڈروں کے تعصبات اسے لے ڈُوبے ہیں۔ دلی کی تازہ شکست دراصل بی جے پی اور نریندر مودی کے تشدد آمیز رویوں اور تعصب پر مبنی بیانئے کی شکست ہے۔ دِلی کے ایک کروڑ تیس لاکھ ووٹروں نے درحقیقت مودی کی سوچ، فیصلوں اور اقدامات پر عدم اعتماد کیا ہے۔ گویا مودی جی اور انتہا پسند ہندو لیڈر شپ کے ہندوتوا کو مسترد کر دیا گیا  ہے ۔

نریندر مودی نے جو گڑھا مجبور بھارتی مسلمانوں اور مظلوم کشمیریوں کے لیے کھودا تھا، اس میں خود ہی گر پڑے ہیں۔ اور متحمل مزاج اروند کجریوال62 سیٹیں لے کر 60 ہزار کروڑ روپے کا سالانہ بجٹ رکھنے والی دِلّی ریاست کے حکمران بن گئے ہیں۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اُن کے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے سے کم از کم دہلی ریاست کے مسلمان سُکھ اور چین سے زندگی گزار سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔