مشرقی اور مغربی چغد

خرم علی راؤ  جمعـء 14 فروری 2020

چغدکا مطلب ہوتا ہے چھوٹا والا الو ، اسے بوم بھی کہا جاتا ہے اور بڑے الو کو صرف الو ، یہ یعنی چغد اردو زبان کا ایک کثیر الاستعمال لفظ ہوا کرتا تھا اور بڑے بڑے تحریر نویس اور ادبا و فضلا اس لفظ کو اپنے اپنے انداز میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک محاورہ بھی اس حوالے سے موجود ہے جو اب تحاریر میں بہت کم استعمال ہوتا ہے۔

قدر الو کی الو جانتا ہے۔ ہما کو کب چغد پہچانتا ہے۔ اس محاورے میں جس ہما کا ذکر ہے وہ کوئی صنف نازک نہیں بلکہ ایک ایسا خوش نصیب پرندہ ہے کہ کہتے ہیں جس کے سر پر ایک مرتبہ بیٹھ جائے وہ پرانے زمانوں میں بادشاہ بن جایا کرتا تھا اور فی زمانہ شاید صدر یا وزیر اعظم وغیرہ بن جاتا ہوگا۔

حتی کہ منٹو صاحب کا اس عنوان یعنی’’ چغد ‘‘ سے ایک دل پذیر ودلچسپ افسانہ بھی ہے، اچھا مزے کی بات یہ کہ الو یعنی بڑے الو اور چغد یا چھوٹے الو کو مشرقی اور مغربی تہذیبوں اور زبانوں کے اعتبار سے بالکل مخالف معنی میں لیا جاتا ہے اور وہاں یعنی مغربی دنیا میں اسے عقل و دانش کا مظہر تسلیم کیا جاتا ہے اور ہمارے عرف میں اس کے بالکل برعکس اسے احمق ، بے وقوف یا پاگل کے معنی میں لیا جاتا ہے، یعنی اگر آپ مغرب میں کسی کو چغد کہیں گے تو وہ خوش ہوگا اور اسے اپنی عزت افزائی تصور کرے گا اور اگر کسی کو بین الاقوامی چغد کہیں گے تو وہ زیادہ خوش ہوگا اور زیادہ عزت افزائی سمجھے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ مارے خوشی کے آبدیدہ ہوکر آپ کو گلے سے بھی لگا لے۔

اس مشق کو مشرقی دنیا میں اور خاص طور پر اردو دان علاقوں میں دہرانا آپ کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور کسی کے بارے میں یہ لفظ استعمال کرنا آپ کو مشکل میں ڈال سکتا ہے اور نقص امن کے اندیشے کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہم قومی یا مشرقی چغدوں کے بجائے بین الاقوامی چغدوں کا ذکرکرنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں کہ ہماری نیت ومفہوم چاہے کچھ بھی ہو وہاں کا مخاطب تو اسے اپنی تعریف ہی تصورکرے گا نا ، لیکن ایشیائی اور یہاں وہاں آس پاس کے چغدوں کے بارے میں چاہے ہم مغربی مفہوم میں ہی بات کریں، یعنی عقل و دانش کا منبع ، وہ اسے خوامخواہ کی ہتک تصور کر کے کہیں مقدمہ ہی نہ کر دے تو پھر وکیل کی فیسیں کون بھرے گا اور مقدمہ کون لڑے گا ، نہیں بھئی نہیں ، بین الاقوامی چغدوں کے بارے میں ہی بات کرنا ٹھیک رہے گا۔

اب دیکھیں نا یہ سب پیٹ بھروں کی باتیں ہیں کہ مغربی دنیا کے چغدوں نے مشرقی دنیا کو پسماندہ رکھ کر ان کے ذرایع ، وسائل اور معدنیات کو استعمال کر کے جو فقید المثال ترقیاں ورقیاں کرلی ہیں اور بڑے مضبوط قسم نظام اور ادارے بنا لیے ہیں اور اس مشہور محاورے کو گویا ذرا سی تبدیلی سچ کر دکھایا ہے کہ جب تک مشرقی بے وقوف زندہ ہیں مغربی چغد بھوکے نہیں مر سکتے اور ان کا یہ اخلاقیات سے عاری استحصالی نظام جو علم برائے معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی نامی خوشنما مضبوط بنیادوں پر مشرقی و افریقی قدرتی ذرایع سے استعفا دے کو اپنے فائدے میں انجام دیتا اور استعمال کرتا رہے گا، پایندہ و تابندہ رہے گا اور مشرقی بے چارہ یونہی ہمکتا اور بلکتا رہے گا، تو پیٹ بھرے قسم کے مغربی بین الاقوامی قسم کے چغد یعنی دانشوران طرح طرح کی سماجی اور معاشرتی تحقیقات اور سروے وغیرہ بھی کر کے نت نئے مفروضات اور نتائج مرتب کرتے رہتے اور ہم پسماندہ مشرقیوں کو اپنی ذہانت وغیرہ سے متاثرکرتے رہتے ہیں۔

اسی قسم کی ایک جدید تحقیق جوکہ بی بی سی وغیرہ پر بھی شایع کی گئی ہے، میں ایک عجیب بات کی گئی ہے جس کا حوالہ ہمارے یہاں کے بھی کچھ دانشور اور لکھاری اپنی اپنی تحریروں میں دے رہے ہیں اور اس تحقیق کا حاصل وہ یہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں چند سال سے ایک عجیب مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ شخصیات مقبول اور طاقتور ہوگئی ہیں اور اس کے نتیجے میں ادارے اور خاص طور پر اداروں کی ماں جمہوریت کمزور ہوگئی ہے اور یہ شخصیات جن میں بطور خاص شہنشاہ عالم ڈونالڈ ٹرمپ اور باون انچ چوڑی چھاتی والے ہندوستانی پردھان منتری مودی جی کا نام بطور مثال دیا گیا ہے کہ یہ طاقتور شخصیات اپنی مقبولیت کی لہر سے حاصل شدہ سیاسی طاقت اور اختیار سے فائدہ اٹھا کر نمایندہ جمہوری ملکوں میں ایسے آمرانہ اقدامات کر رہی ہیں جو جمہوریت کی روح کے منافی اور بین الاقوامی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔

جیسے انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف معتصبانہ قانون سازی اور کشمیر کے حوالے سے بربریت کی عملی مثال پیش کرنا اور اسی طرح اسرائیلی حمایت میں جناب ٹرمپ کا آپے سے باہر ہوکر یروشلم میں اپنا سفارت خانہ منتقل کروانا اور اب ایک نیا پلان برائے فلسطینی تنازعہ پیش کرنا، جس کو نرم سے نرم الفاظ میں ناعاقبت اندیشانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور سوائے ان کے چند پٹھوؤں کے دنیا بھر میں اس منصوبے کی مذمت کی جا رہی ہے۔

توکہا کچھ یوں جا رہا ہے کہ یہ شخصی جمہوریت اصل میں بد ترین آمریت کی شکل ہے اور افراد کا اداروں اور نظریے سے زیادہ طاقتور اور مقبول ہوجانا بڑا الارمنگ ہے کیونکہ ایک دماغ ، ایک عقل یا انفرادی دانش کبھی بھی اجتماعی دانش کے مقابلے میں مفید ثابت نہیں ہوسکتی اور ایسی شخصیات جو اپنی مقبولیت کے سہارے چاہے وہ نفرت اور تعصب کے زور پر حاصل کردہ مقبولیت اور طاقت ہو یا کسی اور مثبت وصف اور ترتیب کی بنا پر حاصل کردہ ، کبھی کبھی بلکہ اکثر و بیشتر ایسے تباہ کن اقدامات اپنی مقبولیت اور طاقت کے زعم میں کر جاتے ہیں جن کا خمیازہ بہت عرصے تک اور کبھی کبھی عالمگیر جنگوں کی صورت میں بھی بھگتنا پڑتا ہے اور جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والے ممالک میں اس کی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کا کمزور ہوجانا اس پر مستزاد ہے۔

اب یہ تحقیق اور مفروضہ کہاں تک درست ہے اس پر تو صاحبانِ علم اور ایسے امور کے ماہرین ہی کوئی وقیع رائے دے سکتے ہیں ہم جیسے سدا کے آمریت و شخصی اقتدار کے پسماندہ اور جاہل خوگر کیا جانیں ، ان دانشورانہ باریکیوں کو اور جمہوریت نامی اس خوبصورت نظام کو جس کا ایسی فکر انگیز مباحث میں احاطہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے تو اس نظام کو بس کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔ ہاں کبھی عملی طور پر برتنے کا اتفاق اگر زہے قسمت ہوگیا تو پھر دیکھیں گے۔

ویسے ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ مغربی تحقیق دان جس خدشے یعنی شخصیات کے بمقابلہ جمہوریت زیادہ طاقتور ہوجانے کے بارے میں متفکر نظر آ رہے ہیں وہ تو ہم مشرقی لوگ پہلے صدیوں سے بادشاہتوں، رجواڑوں اور اب سیاسی جماعتوں کی شکل میں جھیل اور بھگت رہے ہیں لیکن ہمیں تو سوائے غریب ، پسماندہ اور جاہل رہ جانے ، تعصبات اور توہمات کے پجاری بن جانے ، نیم انسان رہ جانے اور شخصیت پرست ہوجانے کے ساتھ ساتھ بس چند اور ہلکے پھلکے نقصانات کے علاوہ کبھی کچھ نہیں ہوا کہ سب خوش ہیں، کھاتے پیتے ہیں ، موج اڑاتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے حساب سے تو بھیا یہ سب مفروضے اور تحقیق بس بھرے پیٹ کی فکری مستی اور ذہنی عیاشی ہے اور کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔