’’ بھارتی قوم پر تاریخ کے نام پر جھوٹ مسلط ہوچکے‘‘

سید عاصم محمود  اتوار 16 فروری 2020
ممتاز مورخ و دانشور، پروفیسر عرفان حبیب کے ہند و شدت پسندی کی ہیئت آشکارا کرتے افکار و نظریات

ممتاز مورخ و دانشور، پروفیسر عرفان حبیب کے ہند و شدت پسندی کی ہیئت آشکارا کرتے افکار و نظریات

اٹھاسی سالہ پروفیسر عرفان حبیب کا شمار بھارت کے ممتاز ترین تاریخ دانوں میں ہوتا ہے۔والد بھی منفرد دانشور تھے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے علم تاریخ میں ڈی لٹ کی ڈگری لی۔ کئی برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے منسلک رہے۔ آج بھی پیرانہ سالی میں بطور پروفیسر ایمرطیس طالبان علم کی علمی پیاس بجھارہے ہیں۔2005 ء میں بھارتی حکومت نے  پدما شری اعزاز سے نوازا۔تاریخ،تحریک آزادی ہند اور عمرانیات کے موضوعات پر گیارہ کتب شائع ہو چکیں۔ ترقی پسند، معتدل مزاج اور دلیر دانش ور ہیں۔ بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی کو کڑے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔تقریروں،مضامین اور گفتگوؤں سے کشید کردہ آپ کے علمی و سیاسی افکار و خیالات کا انتخاب  نذر قارئین ہے۔

 جموں و کشمیر میں کیا ہوا؟

سب سے پہلے تو یہ سمجھیے، موجودہ شدت پسند بھارتی حکمران طبقے کا طریق واردات یہ ہے کہ وہ تاریخ کے نام پر جھوٹ بول کر اپنے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے علم تاریخ کو بھی اپنا آلہ کار بنا چکے۔ ریاست جموں و کشمیر ہی کو لیجیے۔سنگھ پریوار(آر ایس ایس ، بی جے پی وغیرہ) کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ ماضی میں ہندو بادشاہ ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کرتے رہے ۔ اسی لیے یہ ریاست ہندو راشٹریہ کا ضرور حصہ بنے گی۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ان لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں سال پہلے ہندوؤں نے ریاست میں بستیاں بسائیں۔حقیقت یہ ہے کہ تین ہزار سال قبل وسطی ایشا سے آنے والے قبائل نے کشمیر میں اولیّں انسانی قائم کیں۔ یہ قبائل مظاہر پرست تھے اور بت پرست بھی۔ دو ہزار سال قبل بدھ مت کے نام لیوا بادشاہ کشمیر پر حکمرانی کرنے لگے۔ پھر شیوا دیوتا کے پیروکاروں نے وہاں حکمرانی قائم کرلی۔ بارہویں صدی کے بعد ریاست پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دوران یونانی اور افغان بھی کشمیر میں آتے جاتے رہے۔

غرض کشمیر کا علاقہ پچھلے تین ہزار سال سے مختلف اقوام اور مذاہب کی آماج گاہ رہا ہے۔ اسے ہندو شدت پسندوں کی جاگیر قرار دینا بالکل غلط ہے۔ مگر وہ اب طاقت کے بل بوتے پر تاریخی حقائق  جھٹلا کر اپنے جھوٹوں پہ مبنی تاریخ بھارتی عوام پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ان کا خاص نشانہ مسلم اقلیت ہے کیونکہ وہ ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرچکی۔ نیز بھارت میں مذہبی، تہذیبی، عمرانی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی سطح پر مسلمانوں کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ہندو شدت پسند تاریخ  مسخ کرکے جدید بھارت سے انہی اثرات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جب ان کا یہ طریق واردات سمجھ میں آجائے تو یہ بات سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے کہ آخر وہ مسلم اقلیت کے درپے کیوں ہیں؟اسے ختم کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

ریاست جموں و کشمیر بھارت کی واحد نمایاں مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ وہ ہندو راشٹریہ کے منصوبے میں رکاوٹ بن گئی۔ اسی لیے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرکے اسے وفاقی علاقہ بنادیا گیا۔ درحقیقت آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مودی حکومت  ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرچکی۔ اب کشمیری کوئی حقوق نہیں رکھتے اور نہ آزاد ہیں۔ وہ مودی حکومت کے محکوم بن چکے۔اب جلد یا بدیر کشمیر میں مسلم اکثریت ختم ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوری اور عوام دوست نہیں، فاشسٹ حکمران حکمرانی کررہے ہیں۔بھارتی آئین نے دیگر ریاستوں کو بھی خودمختاری دے رکھی ہے مگر انھیں نہ چھیڑا گیا کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں۔

دہلی الیکشن

بھارتی دارالحکومت کے حالیہ الیکشن میں سنگھ پریوار کے لیڈروں کی سرتوڑ سعی رہی کہ ہندو ووٹر اپنے پلیٹ فارم پہ جمع ہو جائیں مگر وہ ناکام رہے۔دہلی کے روادار اور باشعور شہریوں نے ان کی شرانگیز مہم مسترد کر دی۔اسی جماعت کو ووٹ دیا جو مذہب کو آلہ کار نہیں بناتی بلکہ مسائل حل کرنے پہ توجہ دیتی ہے۔اس بار بھی بی جے پی نے نفرت انگیز انتخابی مہم میں تاریخ کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔وزیراعلی یوپی،یوگی ادتیہ ناتھ نے اسلامی ثقافت کی نشانی’’بریانی‘‘ کو گالی کا مترادف بنا ڈالا۔بعض لیڈروں نے الیکشن کو بھارت اور پاکستان کے مابین معرکہ قرار دیا۔ایک لیڈر جلسے میں چلائے،شاہین باغ کے غداروں کو گولی مار دو۔چناں چہ وہاں گولیاں چلانے کے واقعات پیش بھی آئے۔امیت شاہ ووٹروں سے بولے،اتنی زور سے ووٹ کا بٹن دبانا کہ شاہین باغ میں زلزلہ آ جائے۔ذرا سوچیے،کیا قومی مقام ومرتبے کے لیڈروں کو ایسی پوچ باتیں کرنا زیب دیتا ہے؟پچھلے دنوں میں شاہین باغ گیا تھا۔وہاں ایک خاتون نے کہا’’ہم غریب ہیں مگر انسان بھی ہیں۔ہم الیکشن میں مودی کو ایسا جھٹکا دیں گے کہ وہ اپنی ساری نفرتیں بھول جائے گا۔‘‘

 نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کی مہم

یہ مہم بھی بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہے تاکہ انھیں معاشرے میں عضو ِمعطل بنا دیا جائے۔ اس نے بجا طور پہ مسلمانان بھارت کو خوف و پریشانی میں مبتلا کردیا۔انھیںذلت اور بے بسی کا احساس بھی ہوا۔ یہ مہم بیٹھے بٹھائے لاکھوں بھارتی مسلمانوں پر ’’غیر قانونی‘‘ ہونے کا ٹھپہ لگاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے مسلمانوں کی کثیر تعداد مہم کے خلاف احتجاج کرنے لگی۔باشعور غیرمسلموں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔زبردست احتجاج  سے مودی حکومت پسپا پونے پر مجبور ہو گئی۔اسے یہ بھی احساس ہوا کہ بھارتی مسلمانوں کے احتجاجی مظاہروں سے عرب حکومتوں کو بڑا غلط پیغام جا رہا ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مودی حکومت کی پسپائی عارضی ہے۔

وہ موقع پا کر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کی مہم شروع کرا دے گی۔آغاز ان ریاستوں سے ہوگا جہاں بی جے پی حکمران ہے۔ بی جے پی مسلم مخالف ایجنڈے پہ عمل کر کے ہی بھارتی عوام میں مقبولیت پاتی ہے۔ اس کی ہندو شاونیت کے مظاہرے بیرون بھارت میں بھی جنم لے چکے۔ مثلاً برطانیہ کے حالیہ الیکشن میں بھارتی نژاد ووٹروں نے لیبر پارٹی کو ووٹ نہیں دیئے کیونکہ اس کے سربراہ، جیرمی کاربن نے کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے معاملے میں نریندر مودی حکومت پر سخت تنقید کی تھی۔

بی جے پی کا (سابق) صدر، امیت شاہ اور مودی کہتے ہیں کہ نیشنل رجسٹر کی مہم سے مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ان سے کیوں خوفزدہ نہ ہوں؟ امیت شاہ انہیں ’’دیمک‘‘ کہہ کر پکار چکا۔ پھر انہی دونوں لیڈروں کی موجودگی میں گجرات میں مسلمانوں کا خوفناک قتل عام ہوا ۔یہ دونوں اتنے زیادہ مسلم مخالف ہیں کہ ہندوستانی تاریخ سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دینا چاہتے ہیں۔ٹیپو سلطان،اورنگ زیب عالمگیر، محمد علی جناح اور دیگر مسلم رہنما ان کے خاص ٹارگٹ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر نیشنل رجسٹر کی مہم شروع ہوئی تو خصوصاً کروڑوں بھارتی مسلمانوں پر عذاب نازل ہوگا۔

ان میں سے بیشتر غریب ہیں۔ ان بیچاروں پر آفت ٹوٹ پڑے گی۔ اپنی شہریت ثابت کرنے کی خاطر انہیں ایک سے دوسری جگہ دھکے کھانے پڑیں گے۔نیز وسیع پیمانے پر کرپشن کا آغاز ہو گا۔اپنی شہریت بچانے کی خاطر مسلمان اپنی جمع پونجی کرپٹ سرکاری افسروں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوں گے جو کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو بلیک میل کر کے ان کی بے بسی سے فائدہ اٹھائیں گے۔گویا اس مہم سے مختلف فرقوں کے مابین نفرت بڑھے گی اور بے چینی بھی۔ بی جے پی نے پہلے مذہب کو ہتھیار بناکر اقتدار پایا۔ اب وہ علم تاریخ کے نئے ہتھیار سے بھی معاشرے میں نفرت و دشمنی ابھار کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتی ہے۔ انسان دوست سیاسی جماعتوں نے اتحاد نہیں کیا، تو بی جے پی کا نفرت پر مبنی فلسفہ بھارتی معاشرے کو تباہ کرسکتا ہے۔

 نصاب تعلیم  میں تبدیلی

مودی حکومت کے دور میں خطرناک ترین بات یہ ہے کہ وہ اسکول کالجوں میں نیا نصاب تعلیم رائج کر رہی ہے۔اس  نئے نصاب تعلیم میں تاریخ کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے جا چکے۔ ایک انسان ماضی کی بابت کچھ نہیں جانتا تو یہ تشویشناک امر نہیں۔ لیکن اسے تاریخ کا نام دے کر جھوٹ اور غلط باتیں پڑھائی جائیں، تو اس میں منفی ذہنیت جنم لیتی ہے۔ وہ پھر کسی نہ کسی وجہ سے دیگر مذہبی و نسلی فرقوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ بی جے پی کا طریق واردات بھی یہی ہے کہ ہندو عوام کو اقلیتی فرقوں کے خلاف ابھار دیا جائے۔مطالعہ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ماضی میں ہندوستان کے کئی بادشاہ اعتدال پسند، روادار اور انسان دوست گزرے ہیں۔ مثلاً اشوک اعظم ہرگز متعصب حکمران نہ تھا۔ مگر بی جے پی کے دور حکومت میں یہ خوبی خامی بن چکی، اسی لیے نصاب تعلیم سے اشوک اعظم کا تذکرہ نکال کر ان بت پرست بادشاہوں کے حالات دے دئیے گئے جنہوں نے بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں کا قتل عام کیا تھا اور وہ ہندوستان میں برہمن مت (المعروف یہ ہندومت) کی حکمران چاہتے تھے۔

  مسلم دشمن قانون شہریت

مودی حکومت نے قانون شہریت میں بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خاطر ترمیم کی۔اب پڑوسی ممالک کا کوئی مسلمان بھارتی شہری نہیں بن سکتا۔ البتہ وہاں مقیم ہر غیر مسلم کو بھارتی شہری بننے کی اجازت ہے۔ اپنی اپنی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے 2 اپریل 1950ء کو وزیراعظم بھارت، پنڈت نہرو اور وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے ایک معاہدہ کیا تھا۔ ترمیم نے اس معاہدے کو بھی بے اثر بنا دیا۔ تاہم اس ترمیم کا اصل نشانہ بنگلہ دیش ہے۔ مودی حکومت بھارت میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کی آمد ہر قیمت پر روکنا چاہتی ہے تاہم بنگلہ دیش کے ہندو بھارتی شہری بن سکتے ہیں۔قانون شہریت کی ترمیم سے یہ بھی عیاں ہے کہ مودی حکومت متعصب بن چکی۔  اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں ہندوؤں پر ظلم ہورہا ہے۔ اسی لیے انہیں بھارت میں داخلے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ مگر برما بھی بھارت کا ہمسایہ ہے جہاں روہنگیا مسلمان اکثریتی فرقے کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ لیکن روہنگیا بھارتی شہری نہیں بن سکتے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

مذہبی بنیاد پر تقسیم

بی جے پی کے رہنما کانگریس پر الزام لگاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہندوستان مذہبی بنیاد پر تقسیم ہوا ۔یہ دعویٰ  بالکل غلط ہے۔حقیقت میں یہ ہندو انتہا پسند لیڈر ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستانی قوم کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کیا۔ انہوں نے ہی مختلف مذہبی گروہوں کے مابین نفرت و دشمنی کی آگ بھڑکائی تاکہ اپنے مفادات پورے کرسکیں۔ہندو انتہا پسندی کا اہم رہنما، دمودر ساورکر 1937ء میں یہ نظریہ پیش کرچکا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ آر ایس ایس کے سربراہ، گوالکر نے انہی دنوں یہ اشتعال انگیز بیان دیا کہ مستقبل کی ہندو ریاست میں مسلمان شہری بن کر نہیں رہ سکتے۔غرض یہ شدت پسند ہندو ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستانی عوام کو مذہبی جنگ کے الاؤ میں دھکیل دیا۔

 بھارتی عدلیہ آر ایس ایس کے زیر اثر

بھارت کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ہندو انتہا پسند حکومتی ڈھانچے سے دور رہے، اکا دکا فرقہ وارانہ فساد  چھوڑ کر بھارتی معاشرے میں بالعموم رواداری اور برداشت موجود تھی۔ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ۔1980ء کے بعد مگر ہندو انتہا پسندی نے تیزی سے فروغ پایا تو یہ ملک مذہبی دنگے فساد کا مرکز بن گیا۔بیسویں صدی کے اواخر میں بی جے پی نے حکومت سنبھال لی۔ تب سے پوری سرکاری مشینری یعنی فوج،انتظامیہ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں انتہا پسندانہ ہندو نظریات سے متاثر مرد و زن اہم عہدوں پر تعینات ہوچکے۔

یہ لوگ علی الاعلان یا چوری چھپے بی جے پی اور آر ایس ایس کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ انہی میں عدالتوں کے جج اور وکیل بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے، 2014ء میں انتہا پسندوں کو دوبارہ اقتدار ملا تو عدلیہ ان کی مرضی کے فیصلے سنانے لگی۔ مثلاً مساجد میں بم دھماکے کرنے والے ہندو انتہا پسند رہا کردیئے گئے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر کی مہم چلانے کا حکم دیا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کر ڈالا حتیٰ کہ بھارت سپریم کورٹ کشمیر میں حکومتی ظلم و ستم روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکا۔ سچ یہ ہے کہ عدالتیں بھی انتہا پسندوں کے سامنے سرنگوں ہوچکیں۔

بابری مسجد اور عدالتی فیصلہ

سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949ء میں بابری مسجد پر قبضہ ناجائز تھا۔ اسی طرح 1992ء میں مسجد غیر قانونی طور پر ڈھادی گئی۔ اس کے باوجود اسے ازسرنو تعمیر کرنے کا حکم نہیں دیاگیا۔یہ سراسر غلط اور نامنصفانہ فیصلہ تھا جس نے مسلمانوں ہی نہیں پوری بھارتی قوم کو نقصان پہنچایا۔ بابری مسجد 1528ء میں تعمیر ہوئی۔

وہ شرقی مغل فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ تھی۔ یہ مسجد کسی اور ملک میں ہوتی، تو حکومت بڑے اہتمام سے اس کی حفاظت کرتی۔ اسے تحفظ دینے کے لیے خاص اقدامات کیے جائے۔ مگر بھارت میں مذہبی جنونیوں نے دیوانہ وار اسے ڈھا دیا۔ ڈھانے کا عمل پورے دو دن جاری رہا اور بھارتی فوجی بھی غنڈوں کو نہ روک سکے۔بابری مسجد شہید کرنے کا عمل کھلی غنڈہ گردی تھی۔ اگر سپریم کورٹ کے جج انصاف پسند اور باضمیر ہوتے، تو اس انہدام کو غیر قانونی قرار دے کر مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیتے۔ مسجد کے نیچے سے کسی قدیم عمارت کی بنیادیں نکل بھی آئیں، تو یہ غیر متعلقہ معاملہ تھا۔ کیونکہ بابری مسجد شہید نہ ہوتی، تو یہ بنیادیں بھی برآمد نہیں ہو پاتیں۔ بھارت شاید دنیا کا اکلوتا ملک ہے جہاں پوری حکومتی مشنیری نے غنڈوں اور بلوائیوں کے سامنے گھنٹے ٹیک دئیے اور ان کی مانگیں قبول کرلیں۔

 فیصلہ علمی نقطہ نگاہ سے

سپریم کورٹ کے حج تاریخ داں نہیں ہوتے۔ اور بابری مسجد کیس کے فیصلے سے عیاں ہے کہ وہ علم تاریخ پر بہت کم دسترس رکھتے ہیں۔فیصلے نے  تاریخ اور آثار قدیمہ  کے علوم سے انصاف نہیں کیا۔ نجانے کیوں ان کی نگاہوں سے یہ سچ اوجھل رہا کہ مغل دور حکومت ایودھیا علاقہ اودھ کا صدر مقام بن گیا تھا۔ اور اس علاقے یا صوبے میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ اسی لیے انہوں نے نہ صرف ایودھیا میں مساجد تعمیر کیس بلکہ قریب ہی ایک نئے شہر (فیض آباد) کی بنیاد رکھی۔ لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ مفروضہ گھڑ لیا کہ مغل دور حکومت میں مسلمان بابری مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔

یہ محض ایک خیالی بات ‘ ہوائی ہے جو ججوں نے اڑائی۔ ان ججوں نے پھر محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین سے بھی تفتیش نہیں کی۔ ان ماہرین کی مہارت و علم کا یہ عالم تھا کہ وہ بابری مسجد کو بطور مسجد نہیں پہچان سکے اور پورے کیس میں اسے ’’متنازع عمارت‘‘ کہتے رہے۔ انہی سرکاری مورخین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ماضی میں بابری مسجد کے نیچے پچاس ستونوں والا (رام ) مندر کھڑا تھا۔ حیرت انگیز طور پر وہ کسی ستون کی بنیاد بطور ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ بس مٹی کی ڈھیریاں دکھا کر انہیں بنیادیں بنا دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بابری مسجد پر مسلمانوں کا حق اس اس لیے مسترد کر دیا کہ مسلمان یہ ثابت نہیں کر سکے‘ 1857ء سے قبل وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ جبکہ بابری مسجد (کے صحن) میں ہندو طویل عرصے سے رام کی پوجا کر رہے تھے۔یہ بات بطور  ثبوت تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ دے ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ثبوت کی بنیاد پر ماضی میں تعمیر کردہ مذہبی عمارات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ممکن ہے؟سپریم کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ لکھتے ہوئے لکھا: ’’ہندوؤں کا دھرم ہے‘ جس جگہ بابری مسجد تعمیر ہوئی وہاں شری رام نے جنم لیا تھا۔‘‘ گویا جج صاحبان نے فیصلہ سناتے ہوئے دیومالا کو حقائق پر ترجیح دی۔ جبکہ جادوگروں کی طرح ماضی کے واقعات بطور سچ بیان کیے جاتے رہے۔ کیا اب عدالتی فیصلے اسی انداز میں ہوں گے؟تب تو بھارتی عدلیہ کا خدا ہی حافظ ہے۔

سچ یہ ہے کہ یہ محض خیالی بات ہے‘بابری مسجد کی جگہ شری رام نے جنم لیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ایودھیا کو رام کی جنم گاہ قرار دینا کوئی پرانا نظریہ نہیں۔ یہ دعویٰ سب سے پہلے اسکند پران میں ملتا ہے۔ پروفیسر ٹی  پی ورما‘ پروفیسر نارائن جہا اور دیگر ماہرین تاریخ تسلیم کر چکے کہ اسکند پران سولہویں صدی میں لکھا گیا۔

گویا تب تک بابری مسجد تعمیر ہو چکی تھی۔ مگر اسکندر پران میں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ رام جی کے جنم استھان پر مسجد بنائی جا چکی۔ اس میں صرف یہ درج ہے کہ شری رام ایودھیا میں پیدا ہوئے۔ یہ درج نہیں کہ ان کا جنم استھان بابری مسجد کے مقام پر واقع ہے۔دور جدید کے شدت پسند ہندو لیڈروں نے مسلسل پروپیگنڈے سے اپنے ناخواندہ عوم کے ذہنوں میں یہ نظریہ جما دیا کہ بابری مسجد ہی رام جنم استھان ہے۔ یہ نظریہ اتنا راسخ ہو چکا کہ سپریم کورٹ کے جج بھی اسے رد نہ کر سکے۔ علم آثار قدیمہ میں ریڈیائی کاربن اور دیگر سائنسی طریقوں سے جانا جاتا ہے کہ ایک شے کتنی پرانی ہے۔ مگر اب محض دیومالا کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے تو کوئی سچا و کھرا ماہر آثار قدیمہ عدالت کا رخ نہیں کرے گا۔ وہاں جھوٹ بولنا اس کے نزدیک علمی بددیانتی ہو گی۔

 تاریخ  اور دیومالائی جھوٹ

علم تاریخ میں اثریاتی حقائق سامنے رکھ کر دلائل دیئے جاتے ہیں۔ اگر یہ بہت تھوڑے ہوں، تو تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن دیانت دار مورخ کبھی اثریاتی حقائق کے برخلاف نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر آر سی موجمدار  مشہور تاریخ داں گزرے ہیں۔ یہ فرقہ پرست دانشور تھے۔ (موصوف ہی یہ نظریہ سامنے لائے کہ ہندوستان میں مسلمان اجنبی تھے۔ اسی لیے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کبھی ہم آہنگی اور دوستی پیدا نہیں ہوسکی)۔1970ء میں آر ایس ایس نے آر سی موجمدار پر دباؤ ڈالا کہ وہ تنظیم کے ترجمان رسالے، آرگنائزر میں ایک خصوصی مضمون تحریر کریں۔

مضمون میں دعویٰ کیا جائے کہ بھارت میں جو آثار اور عمارتیں مغل بادشاہوں سے منسوب ہیں، وہ ان کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ انہیں ہندو حکمرانوں نے تعمیر کرایا تھا۔ آر سی موجمدار نے یہ مضمون لکھنے سے انکار کردیا۔ آر ایس ایس کے شدت پسند لیڈر بہت جزبز ہوئے مگر موجمدار کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ کرنا علمی بددیانتی ہوگی جسے وہ کبھی نہیں اپنا سکتے۔ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتیں جھوٹ اور افسانوی قصوں کو ’’تاریخی حقائق‘‘ کا نام دے کر بھارتی قوم پر ٹھوس رہی ہیں۔ مثلاً دریائے سرسوتی کا قصہ ہی لیجیے۔ ممکن ہے کہ اس قسم کا وسیع و عریض دریا پچاس لاکھ سال قبل بہتا ہو۔ مگر یہ کہنا کہ صحرائے تھر میں محض پانچ ہزار سال پہلے سرسوتی بہہ رہا تھا، یہ سراسر دیومالائی قصہ اور تصّوراتی بات ہے۔

 دریائے سرسوتی کا  عجوبہ

ہندو شدت پسند دریائے سرسوتی کی موجودگی ثابت کرنے پر بضد ہیں تاکہ اپنے نظریہ تاریخ کو درست ثابت کرسکیں… یہ نظریہ کہ ہندوؤں خصوصاً برہمنوں کا نہایت شاندار ماضی رہا ہے۔ انہوں نے زبردست ایجادات کیں حتیٰ کہ پلاسٹک سرجری کا تحفہ بنی نوع انسان کو عطا کر ڈالا۔ دراصل قدیم زمانے میں شمالی ہندوستان میں پہلے پہل بڑی انسانی بستیوں کی بنیاد پڑی۔ ان بستیوں کی تاریخ آج ’’وادی سندھ کی تہذیب‘‘ یا ’’ہڑپہ تہذیب‘‘ کہلاتی ہے۔ مگر شدت پسند ہندو لیڈروں کو یہ نام پسند نہیں کیونکہ دریائے سندھ پاکستان میں بہتا ہے۔ اسی طرح ہڑپہ بھی پاکستان میں واقع ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کو ’’سرسوتی تہذیب‘‘ کا نام دیا جائے۔ ان لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ سندھ نہیں سرسوتی اس تہذیب کا مرکزی دریا تھا۔آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ جب بی جے پی نے پہلی بار (1999ء میں) حکومت سنبھالی تو شدت پسندوں نے محکمہ آثار قدیمہ سے ایک کتاب شائع کرائی۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ دریائے سرسوتی پاکستان میں داخل نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ راجھستان میں ہی بہتا چلا جاتا۔ یہ ہے تاریخ مسخ کرنے کی عملی کوشش!

 مہا بھارت اور رامائن کی داستانیں

بھارت میں مہا بھارت اور رامائن کی داستانیں آج بہت مشہور ہیں لیکن علم تاریخ کے لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ محض دیومالا ہیں، خیالی قصے کہانیاں۔ ڈی سی سرکار مشہور بھارتی مورخ گزرے ہیں۔ وہ قدیم الواح پر نقش پڑھنے کے ماہر تھے۔ ان کی تحقیق کا خلاصا یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں رام چندر دیوتا نہیں ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا تھا۔ سنسکرت اور دیگر مقامی زبانوں میں بطور دیوتا رام چندر کا بہت کم ذکر ملتا ہے۔تبدیلی اس وقت آئی جب نویں صدی کے بعد رامائن اور مہا بھارت عوام میں مقبول ہونا شروع ہوئیں۔ ان کتب نے ہندوستانی عوام کو مذہبی طور پر یکجا کردیا۔ تبھی ان داستانوں کے کردار دیوی دیوتاؤں کا درجہ قرار پاگئے۔ لیکن درحقیقت مہا بھارت اور رامائن میں جو بھی کردار اور واقعات بیان ہوئے ہیں، ان کی کوئی اثریاتی شہادت موجود نہیں۔

کوئی نامی گرامی لیڈر نہیں

بی جے پی کے بانیوں میں شیام پرشاد مکرجی اور دین دیال اپادھیائے شامل ہیں۔ جب بھی بی جے پی برسراقتدار آئے، تو ان دونوں رہنماؤں کی سالگرہ اور برسیاں سرکاری طور پر تزک و اختشام سے منائی جاتی ہیں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ تحریک آزادی ہندوستان میں دونوں رہنماؤں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کے باوجود بی جے پی انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔یہ دونوں رہنما شدید متعصب اور فرقہ پرست تھے۔1941ء میں شیام پرشاد نے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’جو مسلمان ہندوستان میں نہیں رہنا چاہتے، وہ اپنا سامان اٹھائیں اور پاکستان چلے جائیں۔‘‘ اس قسم کے لیڈروں نے آر ایس ایس کی نفرت انگیز پالیسی اور نظریات اپنا کر سیاسی پارٹی (بی جے پی) کی بنیاد رکھی۔ چونکہ بی جے پی کے پاس کوئی اور لیڈر نہیں، اسی لیے انہی دونوں کو اپنے اعلیٰ رہنما تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔

ہندتوا (ہندوشدت پسندی) کا نظریہ

یہ ایک فاشسٹ نظریہ ہے۔ جب کسی ملک میں کوئی گروہ یا جماعت عوام میں مقبول ہونے کی خاطر قوم پسندی، نسل پرستی یا انتہا پسندانہ مذہبی نظریات کا سہارا لے، تو اسے فاشسٹ کہا جائے گا۔ آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں فاشزم کے نظریات پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں بھارت کے ایسے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی بھی حمایت حاصل ہے جو فاشسٹ نظریوں پر یقین رکھتے ہیں۔ انہی کی حمایت پاکر بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

مقامات کا نام تبدیل

فاشسٹ جماعتیں عوام میں مذہبی، نسلی، معاشی اور معاشرتی اختلافات پیدا کرکے پلتی بڑھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، بی جے پی نے حکومت سنبھالی تو وہ مختلف مقامات اور شہروں کے نام تبدیل کرنے لگی۔ جتنے بھی مسلم نام تھے، انہیں ہٹا کر جگہوں کو ہندوانہ نام دے دیئے گئے۔ یہ پالیسی  اسی لیے اپنائی گئی تاکہ عوام میں مذہبی اختلافات ابھار کر اپنے مفادات حاصل کیے جاسکیں۔نام تبدیل کرنے کی مہم ایک اور جہت بھی رکھتی ہے۔ اس طرح بھارت سے مسلمانوں کے دور حکومت کی نشانیاں ختم کرنا مقصود ہے۔ مدعا یہ ہے کہ آنے والی بھارتی نسلیں مسلم دور حکمرانی سے یکسر بے خبر ہوں۔ ورنہ مقامات کے نام تبدیل کرنا ایک مہنگا عمل ہے۔ سبھی سرکاری کاغذات میں نئے نام لکھنے پڑتے ہیں۔ یوں عوام کا پیسہ ہی ضائع ہوتا ہے۔

ہندومت کیا ہے؟

ماضی کے ہندوستان میں مختلف بت پرست گروہ آباد تھے۔ ان کے اپنے اپنے مخصوص دیوی دیوتا اور مذہبی رسم و رواج تھے۔ کوئی شیوا کا سرستار تھا تو کوئی بدھا کو پوجنے والا۔ بہت سے ہندوستانی بیک وقت دو تین مذاہب کی پیروی کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد نے مقامی باشندوں کا طرز فکر بدل ڈالا۔بت پرستوں نے دیکھا کہ مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی اصول بھی معین و متعین ہیں۔ چناں چہ بت پرستوں کے بعض لیڈروں میں اس خواہش نے جنم لیا کہ سبھی مقامی باشندوں کو بھی ایک مذہب کے پلیٹ فارم پر جمع کردیا جائے۔ اس طرح ہندومت کی بنیاد پڑی۔ گویا نئے مذہب کی تخلیق میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن آج ہندومت شدت پسند رہنما اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے ہیں۔ یہ سراسر احسان نافراموشی ہے۔

سیکولرازم کی مخالفت

آر ایس ایس طرز فکر سے منسلک تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ سیکولرازم ہندوستان میں ایک اجنبی و غیر متعلق نظریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جدید بھارت میں کیا چیز مقامی ہے؟ ہمارا آئین مغربی، پورا حکومتی ڈھانچا مغربی، صحافت مغربی، عدلیہ مغربی، حتیٰ کہ ہمارے ملبوسات بھی مغربی ہوچکے۔ لہٰذا سیکولرازم کو اجنبی قرار دینا بودی دلیل ہے۔برصغیر میں عوام سیکولرازم کی اصطلاح کو سمجھ نہیں سکے۔یہ نظریہ مذہب کا مخالف نہیں،  بس مطالبہ کرتا ہے کہ حکومتی معاملات میں اسے داخل نہ کیا جائے۔مقصد یہ ہے کہ حکومت کسی ایک مذہب کو ترجیح نہ دے بلکہ تمام معاملات میرٹ کے مطابق حل کرے۔ لیکن بھارت کے دوسرے صدر، رادھا کرشن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مذہب اور حکومت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا رفتہ رفتہ بھارتی حکومت کے معاملات میں مذہب دخیل ہوتا گیا۔ اس چلن سے آر ایس ایس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخر کار اپنی مذہبی حکومت قائم کرلی جو مسلمانوں کی دشمن ہے۔

ہندو تہذیب کی قدامت

آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ہندومت دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے۔ وہ قدیم ترین تہذیب و ثقافت بھی رکھتا ہے۔ یہ تنظیمیں اس دعویٰ سے فخر و غرور کا اظہار کرتی ہیں لیکن تاریخی حقائق ان کا دعویٰ ثابت نہیں کرتے۔ ہندومت کی قدیم ترین مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ ہے۔ مناجات کی یہ کتاب 1500 ق م سے 1000 ق م کے مابین وجود میں آئی ،گویا تین تا ساڑھے تین ہزار سال پہلے جبکہ رگ وید کا قدیم ترین مخطوطہ 1464ء میں لکھا گیا تھا۔ماہرین کو قرآن مجید کے ایسے مخطوطے مل چکے جو 650ء میں لکھے گئے تھے۔ اگر ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اتنی ہی ترقی یافتہ تھی، تو وہ اپنی مذہبی کتابیں کیوں محفوظ نہ رکھ سکی؟ ہندومت کی تمام مذہبی کتب کے مخطوطے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار سال پرانے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔