غریب انگریز کا دفاع کرنے والا رحمدل پاکستانی

سید عاصم محمود  اتوار 16 فروری 2020
 انسانی معاشرے میں نیکی کی شمعیں روشن کرتے ہمدردی کےا چھوتے واقعات۔ فوٹو: فائل

 انسانی معاشرے میں نیکی کی شمعیں روشن کرتے ہمدردی کےا چھوتے واقعات۔ فوٹو: فائل

یہ وسط اکتوبر کی بات ہے، تیس سالہ پاکستانی نوجوان، سجاد کاہلوں کچھ کھانے پینے ایک کافی ہاؤس پہنچا۔ اس نے کافی وسنیکس خریدے اور باہر بچھی کرسی و میز پر بیٹھ گیا۔

دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ادھرکئی یورپی مردوزن بیٹھے اس سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ سماں خوشگوار اور پُر امن تھا۔سجاد کاہلوں گوجرہ کا رہائشی تھا۔2013ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ چلا آیا۔ وہاں اس نے ساؤتھ اینڈ کے علاقے میں ریسٹورنٹ کھول لیا۔

ساؤتھ اینڈ لندن سے چالیس میل دور واقع ایک ساحلی شہر ہے۔ 12 اکتوبر کی صبح اس کا کافی پینے کو دل چاہا تو سٹاربکس کے کافی ہاؤس چلا آیا۔وہ مشروب سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ وہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک انگریز آپہنچا۔ وہ بے روزگار اور بے گھر معلوم ہوتا تھا۔ نجانے اس پر کیا افتاد آن پڑی تھی۔ پہلے تو اس نے میزوں پر نگاہ دوڑائی کہ شاید بچا کچھا کھانا مل جائے۔ نہ پایا تو بیٹھے گاہکوں سے کچھ کھلانے کی منت کرنے لگا۔ کسی نے اس پر توجہ نہ دی اور ہاتھ ہلا کر جانے کا کہتے رہے۔سجاد کاہلوں کو اس مصیبت زدہ گورے پر بہت ترس آیا۔ اس نے آدمی کو سینڈوچ اور کیک خرید دیا۔ قدرتاً وہ مفلس سجاد کا ممنون ہوا۔ پھر وہ وہیں ایک کرسی پر بیٹھ سینڈوچ کھانے لگا۔ اس کے انداز سے عیاں تھا کہ وہ بہت بھوکا ہے۔

اسی دوران کافی ہاؤس کا ایک ملازم خاتون گارڈ کو لیے اس گورے کے پاس پہنچا۔ کہنے لگا ’’تم نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ کپڑوں سے بو بھی آرہی ہے۔ چلو اٹھو، یہاں سے رفوچکر ہوجاؤ۔‘‘ وہ کافی تلخ لہجے میں بات کررہا تھا۔ سجاد سے انسانیت کی توہین برداشت نہیں ہوئی۔ اٹھ کر ملازم کے پاس پہنچا اور کہا:’’جناب! میں نے نو پونڈ خرچ کر اس آدمی کے لیے کھانا خریدا ہے۔ یہ آپ کا گاہک ہے اور اسے یہاں بیٹھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ کیا آپ اسے انسان نہیں سمجھتے؟‘‘ملازم مگر اصرار کرتا رہا کہ وہ بیچارا اٹھ کر چلا جائے۔ وہ شاید گھمنڈی اور ظاہری شان وشوکت کا پرستار تھا۔ اب سجاد کو کچھ غصّہ چڑھ گیا۔ اس نے موبائل نکالا اور سارا واقعہ اور گفتگو ریکارڈ کرلی۔

سجاد نے سوشل میڈیا سائٹس پر اکاؤنٹ کھول رکھے تھے مگر وہ کبھی کبھار ہی بیٹھتا تھا۔ اس دن وہ گھر پہنچا، تو سجاد نے واقعے کی ویڈیو اپنے اکاؤنٹس میں اپ لوڈ کردی۔ چند ہی گھنٹوں میں وہ وائرل ہوگئی اور اسے دنیا بھر میں لوگ دیکھنے لگے۔ برطانیہ کے مشہور اخبارات دی انڈیپینڈنٹ، ڈیلی میل اور دی سن نے واقعے کے متعلق خبریں شائع کریں۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، ڈنمارک اور دیگر ممالک کی مشہور ویب سائٹس نے بھی وہ ویڈیو جاری کردی۔وہ کافی ہاؤس امریکا کی مشہور کمپنی، سٹاربکس کی ملکیت تھا۔ اب دنیا بھر میں لوگ کمپنی کی پالیسی پر تنقید کرنے لگے۔ انہوں نے سجاد کاہلوں کو بہت سراہا اور اس کی تعریفیں کیں کہ رحم دل پاکستانی نوجوان نے نہ صرف ایک بھوکے کو کھانا کھلایا بلکہ جب وہ ایک گھمنڈی کے حملے کی زد میں آیا تو اس کا دفاع بھی کیا۔ لوگوں نے سجاد کو انسانیت کا ہیرو قرار دیا۔شدید تنقید کے بعد عالمی کافی ہاؤس کمپنی کو ہوش آیا۔ اس نے بیان دیا کہ ساؤتھ اینڈ کے کافی ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ کمپنی پالیسی نہیں۔کمپنی اپنے کافی ہاؤس میں آنے والے ہر گاہک کو عزت و احترام دیتی ہے۔

سجاد کاہلوں کی ویڈیو کو اب تک دنیا بھر سے ایک کروڑ لوگ دیکھ چکے۔ اسے عالمی شہرت ملنے پر اسے حیرانی ہوئی۔ اس نے اخباری نمائندوں کو بتایا ’’میں نے کسی صلے کی تمنا کیے بغیر اس غریب کی مدد کی۔ مگر جب دیکھا کہ ایک مغرور اس کی عزت نفس اور خودداری پر حملہ کررہا ہے، تو میں خاموش نہیں رہ سکا۔ یہ ہمارے پاکستانی کلچر کا حصہ ہے کہ ہم دکھ و مصیبت میں مبتلا پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔‘‘قابل ذکر بات یہ کہ سجاد کے لیے معاملہ معمولی مدد تک ختم نہیں ہوا۔ اس نے قلاش انگریز کو ملازمت بھی دلوائی اور یوں اسے اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔ سجاد کاہلوں کے رحم دلانہ اور دکھی انسان سے محبت آمیز سلوک نے سبھی پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردیئے۔

آج کل بدی و شر پر مبنی خبریں ہی زیادہ پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ بہرحال لوگوں میں مایوسی و ناامیدی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔ تاہم وقتاً فوقتاً نیکی و خیر کے واقعات بھی جنم لیتے ہیں۔ ان کے باعث اندھیرے میں روشنی کی کرنیں جھلملاتی ہیں اور انسانیت پر معدوم ہوتا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے۔ سجاد کاہلوں اُمید کا صرف ایک ستارہ ہے۔ ان جیسے کئی ستارے ہمارے معاشرے میں طلوع ہو کر ہمت و حوصلہ بڑھاتے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔ بقول ظہیر کاشمیری

ممکن ہے نکل آئے یہاں کوئی مسافر

صحرا میں لگاتے چلو دو چار شجر اور

جیکٹیں نہ چھینو:

اوائل دسمبر میں سردی شروع ہوئی تو ظاہر خان نے جیکٹیں فروخت کرنے کی ریڑھی راولپنڈی کے معروف چاندنی چوک پر لگالی۔وہ غریب آدمی تھا۔جمع پونجی خرچ کرکے جیکٹس خریدیں تاکہ بیچ کر منافع کماسکے۔ سہ پہر کو ریڑھی پر کھڑا تھا کہ ٹریفک پولیس کے دو سپاہی وہاں پہنچے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ انہوں نے پھر ظاہر خان سے چودہ پندرہ جیکٹس چھینیں اور نو دو گیارہ ہوئے۔ بیچارا ظاہر چیختا چلاتا رہ گیا۔ سپاہیوں کو علم نہ تھا کہ ان کے ناروا اقدام کی ویڈیو ایک راہ چلتے آدمی نے بنالی تھی۔ اس نے وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔سوشل میڈیا کی خامیاں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ ظلم و ناانصافی اجاگر کرنے والا اہم ہتھیار بن چکا۔ جلد ہی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی اور ہزارہا پاکستانیوں نے اسے دیکھ کر سپاہیوں پر لعنت ملامت بھیجی جو غریب ریڑھی بان سے زبردستی جیکٹس لے گئے تھے۔

اتفاق سے راولپنڈی پولیس کے ناظم، محمد حسن یونس کی نظروں سے بھی یہ ویڈیو گزری۔ انہوں نے فوراً واقعے کی تفتیش کا حکم دے دیا۔ جلد ہی وہ لالچی اور خود غرض ٹریفک سپاہی پکڑے گئے جنہوں نے غریب ظاہر سے جیکٹس چھینی تھیں۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔اگلے دن محمد حسن چاندنی چوک پہنچے، ریڑھی بان کو جیکٹس واپس کی، اسے گلے سے لگایا اور تسلی دی کہ آئندہ کوئی سپاہی اسے بے جا تنگ نہیں کرے گا۔سی پی او محمد حسن یونس کی رحم دلی اور غریب پروری نے سبھی پاکستانیوں کو ازحد متاثر کیا۔ پولیس اہلکاروں نے قانون کی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ اگر ریڑھی بان نے کوئی غیر قانونی حرکت کی تھی تو وہ انسانی پہلو مدنظر رکھ کر اسے محض سرزنش بھی کرسکتے تھے۔ مگر وہ اس بیچارے کی روزی روٹی پر لات مار کر چلے گئے۔ خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے۔ اب وہ مکافات عمل کا نشانہ بنے معطل ہیں۔ ہمارے ہاں بااثر مجرموں کو پولیس کم ہی چھیڑتی ہے جبکہ غریب کوئی جرم بھی نہ کرے تو اسے دھرلیا جاتا ہے۔ قانون کی یہ دوعملی ختم ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی معاشرے میں عدل و انصاف جنم لے سکے۔

ہمدرد پولیس کانسٹیبل:

پولیس میں گندی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، تو اس میں فرض شناس، رحمدل اور ہمدرد افسر و سپاہی بھی ملتے ہیں۔ اسلام آباد ٹریفک پولیس سے منسلک کانسٹیبل عامر بیگ ایک ایسے ہی منفرد سپاہی ہیں۔ اوائل نومبر میں وہ ایک سٹرک پر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ اچانک انہوں نے دونوں ٹانگوں سے معذور ایک شخص کو دیکھا جو سڑک پار کرنا چاہتا تھا مگر رش کی وجہ سے نہ کرپایا۔ اس کی پریشانی عامر بیگ سے دیکھی نہیں گئی۔انہوں نے معذور ہم وطن کو گود میں اٹھایا، سڑک پار کرائی اور اسے اپنے راستے پر گامزن کردیا۔ ظاہر ہے، عامر نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پانے اور نیکی کمانے کے لیے ایک معذور کی مدد کی تھی۔ تاہم وہاں کھڑے ایک آدمی نے یہ سارا منظر موبائل پر محفوظ کیا اور پھر ویڈیو میڈیا میں ڈال دی۔ جلد ہی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

اہل پاکستان نے کھلے دل سے عامر کو جذبہ ہمدردی دکھانے پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے یہ سچائی بھی عیاں کی کہ عامر جیسے سپاہیوں کے باعث ہی عوام میں پولیس کا مثبت تاثر ابھرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح ایک گندی مچھلی سارا تالاب گندہ کردیتی ہے اسی طرح ایک انسان بھی نیکی و خیر کے عمل انجام دے تو اس کی دیکھا دیکھی ہزاروں لاکھوں ہم وطنوں کو اچھے کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔یہ ویڈیو آئی جی اسلام آباد محمد عامر ذوالفقار کی نظروں سے بھی گزری۔ انہوں نے عامر بیگ کو نہ صرف شاباش دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کے لیے دس ہزار روپے بطور انعام بھی دیئے۔ امید ہے، پاکستان پولیس فورس کے سبھی جوان عامر بیگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم رہیں گے۔

پی آئی اے کا فرض شناس اہلکار:

یہ دس نومبر 2019ء کی بات ہے، لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی پاکستان جانے کی خاطر ہوائی جہاز پر بیٹھے۔ وہ پچھلے کئی برس سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ اس دوران دیار غیر میں مختلف ملازمتیں کیں اور کافی پونڈ کمائے۔ آمدن سے انہوں نے قومی بچت کے سیونگ سرٹیفکیٹس خرید لیے جن کی مالیت تیس کروڑ روپے تھی۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان جارہے تھے تاکہ زندگی کے بقیہ برس وطن میں آرام و سکون سے گزار سکیں۔نشست پر بیٹھے ان صاحب نے پھر دستی بیگ کی سمت ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے کھول کر اطمینان کرسکیںکہ سیونگ سرٹیفکیٹ اور چار ہزار پونڈ محفوظ ہیں۔ مگر یہ کیا… دستی بیگ تو وہاں موجود نہ تھا۔

انہوں نے چونک کر اِدھر اُدھر، نشست کے نیچے دیکھا مگر بیگ تو غائب تھا۔ ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، سر میں چکر آنے لگے۔یقینا وہ ہیتھرو ہوائی اڈے پر کسی جگہ بیگ بھول آئے تھے۔ ہوائی جہاز کو پرواز کرتے پندرہ منٹ بیت چکے تھے۔ اب اسے واپس ہوائی اڈے بھی لے جانا ناممکن تھا۔ پھر ہیتھرو تو دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ اب تک کوئی نہ کوئی ان کا بیگ اٹھا چکا ہوگا۔وہ اپنی قسمت پر ماتم کرنے لگے۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ کوئی ساتھ ہوتا تو ان کی ڈھارس بندھاتا مگر وہ اہل خانہ کو دو ہفتے قبل پاکستان بھیج چکے تھے۔ اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ آخر فیصلہ کیا کہ کراچی پہنچ کر دیکھیں گے ہوگا کہ جمع پونجی پانے کے لیے کیا قدم اٹھایا جائے۔ انہیں جیسے یقین ہوگیا تھا کہ ان کی عمر بھر کی کمائی لٹ چکی۔ انہوں نے تو کسی جگہ سیونگ سرٹیفکیٹس کے نمبر بھی لکھ کر محفوظ نہیں کیے تھے۔

جب ہوائی جہاز میں وہ پاکستانی شدید پریشانی کے عالم میں ہاتھ مل رہے تھے، تو اُدھر ہیتھرو ہوائی اڈے پر محمد نوید قریشی کو اپنی بغلی میز پر ایک بیگ پڑا دکھائی دیا۔ محمد نوید قومی ایئرلائن، پی آئی اے میں ملازم تھے۔ انہیں ہیتھرو پر پی آئی اے کی ڈیسک سنبھالے کچھ ہی ماہ ہوئے تھے۔ پرواز کے سمّے اتنا ہجوم ہوجاتا تھا کہ مصروفیت کی وجہ سے سر کھجانے کو فرصت نہ ملتی۔ پرواز روانہ ہوئی اور محمد نوید فارغ ہوئے تو ان کی نظر بیگ پر پڑی۔ فوراً سمجھ گئے کہ کوئی بھلکڑ یا ضعیف مسافر اسے بھول گیا۔

اسی دوران ایک ہمدرد فضائی میزبان (ایئرہوسٹس) نے اپنے ہم وطن کو نہایت پریشان دیکھا تو ان کے پاس چلی آئی اور پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ تب انہوں نے سارا ماجرا سنایا کہ ان پر کیسی قیامت ٹوٹ گئی ۔ فضائی میزبان نے فوراً ہیتھرو ہوائی اڈے پر پی آئی اے کے سٹاف سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ایک پاکستانی مسافر کسی جگہ اپنا دستی بیگ بھول آئے ہیں۔ اس میں تیس کروڑ روپے کے سیونگ سرٹیفکیٹس اور چار ہزار پونڈ موجود ہیں۔یہ اطلاع محمد نوید قریشی کو بھی ملی۔ وہ جان گئے کہ یہ بیگ اسی پاکستانی کا ہے۔ انہوں نے فوراً بیگ اسٹیشن منیجر، ایاز خان کے حوالے کردیا۔

ایاز صاحب نے ہوائی جہاز پر رابطہ کرکے عملے کو بتایا کہ ان صاحب کو خبر دیجیے، بیگ مل گیا ہے۔ اس میں سرٹیفکیٹ اور رقم محفوظ ہے۔ جب یہ خبر پریشان حال پاکستانی کو ملی تو وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ فرط مسرت سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے ہیتھرو پر تعینات پی آئی اے کے عملے کا بہت شکریہ ادا کیا اور ایمان داری کے مظاہرے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ اگلی پرواز سے ان کا بیگ پاکستان روانہ کردیا گیا جو انھیں مل گیا۔ یوں انہیں اپنا سرمایہ حیات اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور دیانت دار محمد نوید کی فرض شناسی سے واپس مل گیا۔

یہ واضح رہے کہ جب محمد نوید کو بیگ ملا تو وہ تنہا تھے۔ وہ چاہتے تو موقع پا کر بیگ چھپالتے۔ کس نے ان کی تلاشی لینی تھی؟ مگر اللہ تو انہیں دیکھ رہا تھا۔ پھر محمد نوید کا ضمیر بھی زندہ تھا جس نے چوری کرنا گوارا نہیں کیا۔ آج کل خبریں آرہی ہیں کہ پی آئی اے کی پروازوں پر لدے سامان سے عملہ قیمتی اشیا نکال لیتا ہے۔ممکن ہے کہ قومی ایئرلائن میں چور موجود ہوں۔ مگر محمدنوید کی درخشاں مثال سے عیاں ہے کہ پی آئی اے میں ایمان دار اور ہمدرد اہلکار بھی پائے جاتے ہیں۔ انہی نیک انسانوں کے دم قدم سے دنیا کا نظام بھی چل رہا ہے۔بقول شاعر       ؎

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔