محبت کس کو کہتے ہیں

شاہد سردار  اتوار 16 فروری 2020

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محبتوں کی یادگار کے طور پر منایا جانے والا دن ہمارے معاشرے میں عام طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا اور بزرگوں اور ناقدروں کے نزدیک یہ دن ہماری نسل نو کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ہم نہ جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ محبت کے رشتوں کو کسی ایک مخصوص دن یا وقتوں کی نظر نہیں کرنا چاہیے ، اس لیے کہ محبت ، پیار یا اپنائیت کے رشتوں کوگلابوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ ایسا احساس ہے جو دلوں میں گلاب کھلا دیتا ہے، یوں بھی محبت کی کہانیاں کبھی بھی بے راہ روی نہیں سکھاتی بلکہ یہ ایثار و قربانی، رشتوں کے تقدس، اچھائی اور برائی کی بھی پہچان کراتی ہیں۔

محبت کرنا، درگزرکرنا ، خوشی دینا، مدد کرنا، عیب چھپانا۔ یہ سبھی بہترین صفات ہیں جواچھے اور نیک بندوں کو ہی ملتی ہیں۔ کسی سے محبت کرنے کا اختیار انسان کے پاس کہاں ہوتا ہے یہ تو خدا ہی اس کے دل میں ڈالتا ہے۔ محبت میں انسان ان چیزوں کی بھی پرواہ کرنے لگتا ہے جن کی اس نے کبھی پرواہ نہیں کی ہوتی۔ محبت اتنی معتبر چیز ہوتی ہے کہ یہ اگر دو ناسمجھ بچوں میں بھی ہو جائے تو بزرگوں کے رتبے سے زیادہ بڑی ہوجاتی ہے۔ محبت ختم ہوجانے والی چیز نہیں ہوتی، کوئی بھی بات، کوئی بھی ذات، کوئی بھی لمحہ اسے ختم نہیں کرسکتا۔

محبت ایک میڈیسن کی طرح بھی ہوتی ہے لیکن اس کی ایکسپائری نہیں ہوتی۔ ہم کبھی بھی دم توڑتے انسان کو وینٹی لیٹر پر زندہ رکھنے کے قائل نہیں۔ لیکن اگر دم توڑتی محبت وینٹی لیٹر پر سانسیں لینے لگے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے، کیونکہ انسان مر جاتا ہے تو رو دھو کر سکون آجاتا ہے، لیکن اگر محبت مر جائے تو زندگی بھر سکون نہیں ملتا۔ لہٰذا اگر محبت کسی وجہ سے وینٹی لیٹر پر آجائے تو وینٹی لیٹر ہٹانے کی ضد نہیں کرتے بلکہ اس کی سانسوں کے واپس آنے کا انتظار کرتے ہیں۔

اس بات سے بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ محبت ایک بہت ہی بڑا یا اعلیٰ و ارفع جذبہ ہے لیکن محبت سے بھی بڑی چیز عزت قرار پائی ہے۔ محبت نہ ملے تو صرف دل ٹوٹتا ہے لیکن اگر عزت چلی جائے تو آسمان ٹوٹتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی سے محبت ہوجائے تو سب سے پہلے مر جانے والی چیز ’’ عزت نفس‘‘ ہی ہوتی ہے۔ ناکام محبت کا زخم انسان کو بہت بڑا تو بنا دیتا ہے لیکن وہ اندر سے کرچی کرچی ہو جاتا ہے اور وہ ساری کرچیاں اس کے وجود میں زندگی بھر چبھتی رہتی ہیں۔

بعض اوقات حالات محبت کی زبان کو کاٹ کر اسے گونگا بھی بنا دیتے ہیں، لیکن پھر بھی محبت میں اس قدر طاقت ہوتی ہے کہ اسے بے وفائی تک ختم نہیں کرسکتی لیکن بعض جگہ محبت انسانوں کی طرح بھی خود کو ثابت کرتی رہتی ہے۔ کمزور، طاقتور، چھوٹی بھی بڑی بھی۔ کوئی محبت جوانی ہی میں سپرد خاک ہو جاتی ہے اور کوئی محبت سو سال کی بوڑھی کی طرح بھی ثابت ہوتی ہے۔

محبت بلاشبہ ایک ہمہ گیر بلکہ آفاقی جذبہ ہے اس کی وسعتیں آسمان کی طرح بے کراں ہوتی ہیں۔ اسی لیے شاعروں، ادیبوں اور لکھاریوں نے اس موضوع پر بے پناہ لکھا جسے اہل دل نے ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا اور پلکوں سے پڑھا۔ بیشتر بڑے بڑے شاعروں نے محبت پر سیکڑوں ہزاروں اشعار تحریر کیے بالخصوص احمد فراز، پروین شاکر ، وصی شاہ اور فیض احمد فیض کی روحانی شاعری ان کی پہچان کہی جاسکتی ہے جسے ہر طبقہ فکر نے دل کی آنکھوں سے پڑھا اور اپنے دماغ میں محفوظ کرلیا۔

محبت کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیریت پر بھی کبھی بھی کوئی اختلاف رائے نہ کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ محبت کرنیوالے جب مل نہیں پاتے تو پچھتاوے ساری عمر ساتھ رہتے ہیں اور پرانے ادوار میں تو بزرگوں کا ایک کہا یہ تھا کہ محبت کرنیوالے جب بچھڑتے ہیں تو زمین کانپتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محبت سے بڑھ کر تکلیف دہ آزمائشیں کوئی دوسری نہیں ہوتی۔محبت سے کمی پر توجہ مرکوز ہوجائے تو پھر آنکھوں کو کوئی منظر دلکش نہیں لگتا۔

اسی لیے محبت اور توجہ کی بھوک غذا کی بھوک سے زیادہ زود اثر اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ لیکن اسی حوالے کی ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ مانگ کر ملنے والی توجہ یا محبت نہ توجہ رہ پاتی ہے اور نہ ہی محبت بلکہ وہ ایک ایسی بدبو بن جاتی ہے جس سے دل و دماغ پھٹنے لگتا ہے۔محبت کی ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ قسمت والوں کو ہی ملتی ہے لیکن اسے کرنے کی اجازت کہیں سے کسی طرف سے بھی نہیں ملتی بلکہ الٹا محبت کرنیوالوں کے پیچھے زمانہ لگ جاتا ہے۔ اسی لیے محبت کا یہ دستور رہا ہے کہ اسے جتنی شدت سے کی جائے اتنی ہی اذیت سے اسے نبھایا بھی جاتا ہے کیونکہ محبت کا پودا آنسوؤں کے پانی اور دل کے خون سے پروان چڑھتا ہے۔

محبت کے حوالے سے ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ محبت کی تلاش محبت کرنے سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ محبت کی ایک انوکھی بات یہ بھی ہے کہ یہ دھونس سے کی جاتی ہے ہاتھ جوڑ کر نہیں۔ محبت کا ایک اسرار یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ محبت کر تو لیتے ہیں لیکن نبھا نہیں پاتے۔ یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ محبت اصل میں وہ ہوتی ہے جو کسی سے ہونے کے بعد کسی اورکا ہونے نہیں دیتی، لیکن محبت کے آگے دوزانو ہونا پڑتا ہے تبھی محبت ملتی اور قائم رہتی ہے۔

ایسے وجود کو کبھی کسی حال میں نہیں کھونا چاہیے جس کے دل میں آپ کے لیے محبت، فکر، عزت اور قدر ہو۔ ویسے بھی محبت اسی سے کی جاتی ہے جو دکھ درد میں آپ کا ساتھ دے، اس سے نہیں جو صرف پیزا کھلائے یا لچھے دار باتیں کرے ، لطیفے سنائے۔ محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے بے حساب محبت کرنی چاہیے جس کے دل میں آپ کے لیے آپ سے بھی زیادہ محبت ہو، اگرچہ محبت میں دونوں فریق ایک جیسا ہی رتبہ رکھتے ہیں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں عام طور پر طلاق واقع ہو جانے پر ایک دوسرے کو دی جانے والی چیزیں واپس کی جاتی ہیں۔ لیکن اگر محبت میں علیحدگی ہوجائے تو اس کی دی ہوئی چیزیں یادگار کے طور پر پاس رکھی جاتی ہیں لیکن بعض لوگ نکاح اور محبت دونوں کو ہی بے آبرو کر دیتے ہیں۔ محبت کا ایک رمز یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے جتنا بھی پوشیدہ رکھو یہ ظاہر ہو جاتا یا ہو جاتی ہے، تاہم اس کی پرائیویسی اپنے تئیں بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ محبت سراسر دل کا معاملہ ہوتی ہے اسے اپنے ہی دل سے ڈس کس کرنا چاہیے دوستوں سے بھی نہیں۔

محبت بہرکیف بہر طور ایک حساس اور نازک شے کا نام بھی ہے اسی لیے محبت کے شیشے پر بدگمانی کے نشان نہیں پڑنے چاہئیں ورنہ محبت کا شیشہ داغدار ہو جاتا ہے۔ محبت اپنے تئیں اپنی جگہ بڑی بے اختیار اور بڑی ہی بے نیاز ہوتی ہے۔ محبت کو ممکن یا ناممکن سے کوئی غرض جو نہیں ہوتی بس منہ اٹھا کر چل پڑتی ہے۔محبت کو علم الاعداد میں تقسیم نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ایک سے زائد کی جانیوالی محبت، محبت نہیں بے ایمانی یا ٹائم پاس ہے۔ محبت علم نجوم سے بہت اوپر کی چیز ہوتی ہے۔

بعض مفکرین کے نزدیک محبت کے بھید بھاؤ، رمز، کشف یا اسرار جتنے ہی ساحر کیوں نہ سہی محبت کے سارے دروازے لفظوں کے احسن استعمال سے ہی کھلتے ہیں۔ الغرض یہ کہ محبت انسان کی ذات کی تکمیل کردیتی ہے اس کی کمی سے ایک خاص قسم کا خلا پیدا ہوتا ہے جو انسان کو بے چین اور بے قرار کرتا رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔