افغان مہاجرین کے لیے عالمی کانفرنس

عبدالرحمان منگریو  اتوار 16 فروری 2020

رفیوجیز یعنی تارکین ِ وطن یا مہاجرین کا معاملہ اس وقت ایک اہم عالمی مسئلہ بن چکا ہے ۔ ایک طرف ہزاروں بلکہ لاکھوں بے وطن مہاجرین ہیں جو سمندر میں چھوٹی بڑی کشتیوں کے ذریعے ایک سے دوسرے ملک کی آبی حدود میں بھٹکتے ہوئے مختلف ممالک کی نیوی فورسز کے حملوں ، سمندری طوفانوں اور غذائی قلت و بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی ایک جھلک اکتوبر 2019میں برطانیہ میں ایشیا سے پہنچنے والے کنٹینر سے ملنے والی 39انسانی لاشوں کی صورت میں دیکھی گئی جب کہ دوسری طرف ایشیائی ممالک کے باشندے براستہ ترکی یورپ جانے کے چکر میں زمینی خشکی راستوں سے بین الاقوامی سرحدیں عبور کرتے ہوئے مختلف ممالک کی افواج کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔

اور جو بارڈر کراس نہیں کرپاتے یا جنھیں متعلقہ ممالک پناہ نہیں دیتے وہ بھی بھیانک انسانی المیوں سے گذرتے ہیں ، جس کی مثال بنگالیوں کی ہے جو اپنا ملک ہوتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کے باعث اس وقت آسام -بھارت میں اور برما میں روہنگیا کے روپ میں روز جیتے روز مرتے ہیں ۔

یہ سب عالمی قوت بننے کی ہوس رکھنے والے چند بڑے ملکوں کی اُن پالیسیوں کی بدولت ہے جس کے تحت وہ دنیا بھر کے امن، استحکام اور انسانی توقیر کو داؤ پر لگانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ عالمی طور پر انسانی آبادی ، انسانی حقوق ، انسانی صحت ، انسانی آزادی ِ اظہار وغیرہ وغیرہ کے دن تو منائے جاتے ہیں لیکن مستقل طور پر انسان ذات کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے ، جس کی وجہ اقوام متحدہ کے محدود اختیارات اور موجودہ تشکیلی ڈھانچہ ہے جو کسی بھی عالمی مسئلے کو حل کرنے کے لیے طاقتور ممالک کی افواج ، فنانس اور ذرایع کا محتاج رہتا ہے ۔

اس لیے وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کو ویٹو پاور والی سر پر لٹکتی تلوار سے آزاد کردیا جائے اور معاشی و افواجی طور پر طاقتور بنانے اور عالمی اُمورکی سرانجامی کے لیے مطلوبہ سرمایہ کی فراہمی میں یکساں شراکت کی بنیاد پر اقوام متحدہ کو عالمی تنازعوں میں آزاد ، غیرجانبدار و مؤثر اور حتمی اتھارٹی بنانے کی کوشش کی جائے اور پھر پہلا کام دنیا بھر کے مہاجرین کو اُن کے اصلی ممالک میں آباد کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کی از سر نو تعمیرو تشکیل کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔

اب آتے ہیں افغان پناہ گیروں کی طرف ۔ افغان پناہ گیروں کو 40سال مکمل ہونے پر افغان پناہ گیروں کی صورتحال ، درپیش چیلنجز اور اُن کی واپسی کے موضوع پر 17فروری 2020یعنی کل اسلام آباد میں ایک عالمی کانفرنس ہونے جا رہی ہے ۔ پاکستان اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی باہمی معاونت کے تحت ہونے والی اس کانفرنس میں 20 ممالک کے نمایندے شریک ہوں گے ۔

اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کو بطور کانفرنس کے میزبان، افغانستان کے پڑوسی اور اُس کے باشندوں کو بڑنے پیمانے پر 40سال سے پناہ دینے والے ملک کے طور پر اس مسئلے کے حل بالخصوص افغان پناہ گیروں کی وطن واپسی کے لیے حکمت عملی تیار کرکے اُس پر فوری عملدرآمد کے لیے زور دینا چاہیے ۔ کیونکہ افغانستان کے باشندے 1979میں روس امریکی جنگ کا حصہ بن کر نہ صرف اپنی دھرتی کی تباہی کا باعث بنے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اپنے وطن سے بے وطن ہوکر پڑوسی ممالک سے لے کر یورپ ، برطانیہ و امریکا جیسے دور دراز ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں ، لیکن مہاجرین بننے والے ان افغانی باشندوں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں پناہ گزین ہے ۔

پاکستان جو خود تیسری دنیا کا ترقی کی شرح نمو میں سُست روی کا شکار ایک کمزور معیشت کا حامل ملک ہے ۔ وہ امریکی، برطانوی اور سب سے اہم اقوام ِ متحدہ کی درخواست پر ان افغانی باشندوں کو گذشتہ 40سال سے اپنے ملک میں پناہ دیے ہوئے ہے ۔ شروع میں انھیں کیمپس بناکر ان میں رکھا گیا لیکن ملک کی داخلی صورتحال پر مؤثر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے یہ افغانی باشندے کیمپوں کے بجائے مستقل آبادیوں میں تبدیل ہوتے گئے ، جن کی نہ کوئی رجسٹریشن کی گئی اور نہ ہی افغان بارڈر پر کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا۔

اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت آنیوالوں کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں افغانی مہاجرین پاکستان آنے لگے اور افغانی باشندے کابل سے کراچی تک بلا کسی روک ٹوک کے سفر کرنے لگے ۔ شہروں میں آزادانہ قبضے کرکے نئی نئی بستیاں قائم کردیں ، حد تو یہ ہے کہ ان بستیوں میں ریاست کی رٹ بھی چیلنج ہوتی رہی ہے ۔ یہ چائنہ، ایران اور پاکستان میں اسمگلنگ کرنے میں بھی ملوث رہے ہیں ۔ جن میں سب سے بھیانک کام منشیات و اسلحے کا پاکستان میں پھیلاؤ ہے ۔

کراچی میں سپر ہائی وے اور کٹی پہاڑی جیسے دیگر کئی علاقے مکمل طور پر اُن کے کنٹرول میں ہیں، جہاں ملکی ادارے تک پر نہیں مارسکتے ہیں۔ ماضی میں وہاں آپریشن بھی کرنے پڑ گئے لیکن اس کے باوجود ان پناہ گیروں کی غیرقانونی کارروائیوں کو روکا نہیں جاسکا ہے ۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جانب سے رکھے گئے ان پناہ گزینوں کی تعداد کا بھی اب کوئی مکمل بایو ڈیٹا نہیں ہے ۔

وفاقی ادارے ملک بھر میں ان کی تعداد 27لاکھ بتاتے ہیں جب کہ سندھ حکومت کے موجب صرف کراچی میں 40لاکھ سے زائد ہیں ۔ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ سندھ حکومت کا موقف درست ہے کیونکہ جو 40 لاکھ پناہ گیر آئے تھے وہ اب 40سالوں میں کم از کم ایک کروڑ تو ہوگئے ہوں گے جب کہ افغان بارڈر پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث بلا معاہدہ کے آنیوالے مہاجرین علیحدہ ہیں۔عالمی قوانین کے مطابق مہاجرین کو مقامی آبادی سے دور کیمپس قائم کرکے اُن میں رکھا جاتا ہے ۔ جیسے جرمنی نے شامی ا ور رہنگیا مہاجرین کو اپنے ملک میں ساحلی علاقوں میں کیمپس قائم کرکے اُن میں رکھا ہے ۔

پاکستان کے شمال مغرب میں موجود ملک افغانستان ماضی بعید سے اس خطے میں مسائل کا باعث رہا ہے ۔ یہاں سے اوائلی دور سے اس خطے کے دیگر ملکوں پر حملے ، لوٹ مار کی داستانیں تاریخ کی کتب میں بھری پڑی ہیں جس کی وجہ اُس ملک میں زراعت کا نہ ہونا ، اناج و پانی کی کمی اورزندگی گذارنے کے وسائل وذرایع کا نہ ہونا رہی ہے۔

یہاں کے لوگ برصغیر کے میدانی و سرسبز علاقوں پر حملے کرکے لوٹ مار کرنے کے حوالے سے بدنام رہے ہیں ۔ پھر ساتویں صدی عیسوی میں اس ملک پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد اسلام یہاں کا مستقل مذہب بن گیا۔ پھر چنگیز خان، تیمور، مغل ، ترخان ،غزنوی ، ابدالی ،شاہ شجاع ، مدد خان اور نادر شاہ جیسے افغانی حکمرانوں نے اپنے حملوں اور مالی فائدوں کی جنگوں کو مذہب کا لبادہ اوڑھا دیا۔

20ویں صدی کے آخری نصف میں خونریز انقلاب کے بعد یہاں جمہوری نظام آیا جوکہ روس کی حمایت سے چلنے لگا۔ پھر امریکا روس کی جنگ کے دوران ملک معاشی طور پر تباہ ہوگیا اور یہاں قبائلی گوریلا گروپ پیدا ہوئے جوکہ 1990میں روس کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد امریکا کے ہاتھ آ جانے سے یہاں قبائلی جنگیں شروع ہوئیں اور طالبان پیدا ہوئے ۔ آگے چل کر9/11میں القاعدہ کے ساتھ طالبان کو ملوث ہونے کو بنیاد بناکر امریکا نے نیٹو فورسز کے پلیٹ فارم سے یہاں فوجیں اتاردیں ۔ طویل عرصہ سے نیٹو کے افغانستان میں ہونے کے دوران وہاں کئی اصلاحاتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہاں جمہوری عمل شروع ہوا ، یہاں انتخابات کی بنیاد پر متحدہ قومی جمہوری حکومت قائم کی گئی ۔ 3 بار انتخابات ہونے کے بعد اب ملک استحکام کی ڈگر پر چل نکلا ہے ۔ اب بھی وہاں طالبان کی ایک تعداد سرگرم ہے لیکن اُن سے امریکا کی معرفت عالمی ادارے مذاکرات کے عمل میں ہیں جس وجہ سے امن قائم ہوگیا ہے۔

اس لیے تجزیہ کاروں کے مطابق افغان پناہ گیروں کی بات دیگر غیرقانونی تارکین ِ وطن سے مختلف ہے ۔انھیں ان کی دھرتی پر جانے سے اب روکنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی انھیں کسی اور نے زبردستی نکالا تھا ۔ وہ تو جنگی صورتحال کے باعث وہاں سے نکلے تھے ۔ اس لیے اب جب کہ افغانستان کے حالات بھی بہتر ہوچکے ہیں، اب تو وہاں نیٹو فورسز کے ساتھ ساتھ افغانستان کی اپنی قومی متحدہ فوج بھی موجود ہے جو وہاں کے امن کو برقرار رکھنے کی کامیاب کوششیں بھی کرتی دکھائی دے رہی ہے، پھروہاں اُن کی اپنی قومی و جمہوری حکومت بھی موجود ہے ، یہاں تک کہ اب اُن کی صحت افزا قومی زندگی اس قدر استحکام پکڑ چکی ہے کہ ہر ملک میں اُن کے سفارتخانے فعال ہیں اور اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم حتیٰ کہ عالمی کرکٹ کلب میں بھی نمایندگی ہے جوکہ افغانستان کے بہتر حالات کا شاخسانہ ہے جب کہ اُن کی موجودگی سے پاکستان ناقابل تلافی نقصان اُٹھا رہا ہے اور ملک کو انتہائی گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ، تو ایسے میں انھیں واپس جانا چاہیے ۔

آج پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں جو اضافہ ہے ، اشیائے خور و نوش کی قلت ، امن امان کا مسئلہ ، آبادی کے مسائل اور ملکی وسائل پر بوجھ ہے ، اُس کی ایک بڑی وجہ ملک میں بڑے پیمانے پر موجود غیر قانونی آبادی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب غیر قانونی پناہ گیر موجود ہیں جن میں اکثریت افغانی باشندوں کی ہے ۔ پاکستان اس وقت تقریبا ً 32ہزار ارب ڈالر کا مقروض ملک ہے۔

پاکستان کے اپنے شہریوں کی حالت بھی پناہ گیروں سے کم نہیں ۔ دیگر باتیں تو چھوڑیں عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ۔ ایسی صورت میں پاکستان پناہ گیروں کو بناہ دینے والا دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے ۔ جب کہ امن امان کے حوالے سے ہمارے ملک کا شمار دنیا میں 153ویں نمبر ہوتا ہے ۔ پھرملک میں طوفان کی طرح بڑھ جانیوالی مہنگائی کی بڑی وجہ وسائل پر بوجھ ہے جو کہ اپنے عوام کی فلاح کو چھوڑ کر اغیار کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی پالیسی کو اولیت دینے کے باعث ہے۔ ملک میں اس وقت 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کا تقریباً چوتھائی حصہ یعنی تقریباً 3کروڑ افراد بے روزگار ہیں ۔

ایسی صورت میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب غیرقانونی آبادی ان روزگار کے ذرایع پر قابض ہے جو کہ ملک کے نوجوانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے ۔ جہاں تک بات ہے انسانی ہمدردی کی تو ان افغان پناہ گیروں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کے بعد بھی انسانی ہمدردی کی جاسکتی ہے اور وہی بہتر فلاح ہوگی کہ کسی انسان کو اُس کے اپنے وطن میں رکھ کر اس کی فلاح و رفاح کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ فطرتی طریقے سے ترقی کرسکے اور دوسرے ملک کے عوام کے حقوق بھی محفوظ رہیں ۔ اس سے آبادیوں یا اقوام میں ٹکراؤ سے بھی بچا جاسکتا ہے ۔ پھر اس طرح کی ہمدردی کا مظاہرہ ہم کرتے بھی رہے ہیں ۔

کسی بھی ملک کے حالات خراب ہونے کے باعث مہاجرین ہونے کی صورت میں اس ملک کے قریبی ملک میں انھیں رکھنے کے لیے کیمپس قائم کرکے اُس کا انتظام براہ راست اُس ملک و اقوام ِ متحدہ کی مساوی شراکتی انتظامیہ کے سپرد ہونا چاہیے ۔ تاکہ اُن کیمپس میں اُن کے لیے ہنری روزگار کا بندوبست بھی ہوسکے اور اُن کی ضروریات زندگی بھی پوری ہوسکے نیز سب سے بڑی بات اُن کی مانیٹرنگ بھی ہوتی رہے اور مسائل کے حل کے بعد انھیں بجا طور پر واپس اپنے ملک بھیجا جاسکے ۔

یوں وہ مقامی آبادی کی جانب بھی نہیں جاپائیں گے اور کسی بھی قسم کے جرائم و غیرقانونی کارروائیوں میںبھی ملوث نہیں ہوپائیں گے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے اور سپریم کوٹ آف پاکستان نے بھی کراچی بدامنی کیس میں کہا ہے کہ غیر قانونی آبادی جرائم میں ملوث رہی ہے اس لیے اُن کو اپنے اپنے وطن واپس بھیجنے کے انتظامات کیے جائیں ۔ ویسے بھی ان غیر ملکی لوگوں کی وجہ سے ملک خصوصاً صوبہ سندھ کی ڈیمو گرافی اور سماجی زندگی پر نہایت منفی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں ۔

اس لیے صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں اُن کی وطن واپسی کے مطالبے ہورہے ہیں ۔ پنجاب اور کے پی کے و بلوچستان صوبوں نے تو پہلے ہی اُن کو نکالنے کے اقدامات کیے لیکن نہ صرف سندھ میں انھیں رکھا گیا ہے بلکہ وفاقی حکومت نہ جانے کیوں صوبہ سندھ میں زبردستی افغانیوں سمیت دیگر پناہ گیروںکو رکھنے پر بضد ہے ۔حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ غیر قانونی افراد کو یہاں کے شناختی کارڈز اور شہریت دینا ملکی آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔

لیکن ہمارے ملک کے اداروں میں کرپشن کے باعث غیر قانونی افراد کو جعلی دستاویزات بھی آسانی سے مل جاتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال 90ہزار جعلی کارڈز پناہ گیر باشندوں کو جاری کیے گئے اور پھر انھیں منسوخ کرنے کے اعلان تو ہوئے مگر اُن پر عمل نہیں ہوا۔وزارت ِ داخلہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے ان کارڈز کو بلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔نادرا کے سندھ میں مقرر 60کے قریب ملازمین کے خلاف کارروائی بھی ہوئی ۔

ملک میں بیرونی آبادکاری کے معاملات چونکہ وفاق کے پاس ہیں اس لیے اُس پر فرض ہے کہ وہ غیر ملکی لوگوں کے ملک میں آنے جانے اور آبادکاری پر نظر رکھے اور ان کو اپنے ملک واپس بھیجنے سے متعلق ملک بھر کے مجموعی مفاد کے مطابق فیصلے کرے مگر یہاں وفاقی سرکار غیرملکیوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کے حوالے سے انتہائی کمزور اور سُست روی کا شکار رہی ہے ۔ یہ غیر ملکی نہ صرف ملک کی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ امن امان کے حوالے سے بھی ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن ملک میں پناہ گیروں کو جائیداد خریدنے کی سہولت دینے کے باعث ملک خصوصاً کراچی میں کئی یوسیز پر غیر ملکی یہاں نمایندے آئے ہیں جوکہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ۔

کراچی جوگنجان آبادی کے باعث مسائل کا گڑھ ہے، افغان پناہ گیروں کو یہاں سے واپس وطن بھیج کر کراچی کے مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔چونکہ اب اُن کی واپسی کی نئی تاریخ 30جون 2020رکھی گئی ہے ۔اور اس دوران ہونے والی یہ کانفرنس پاکستان کے لیے ایک اہم موقع ہے جس کے ذریعے اقوام ِ متحدہ کے ساتھ ملکر افغان پناہ گیروں کی وطن واپسی کے لیے پیشگی اقدامات کے لیے تمام ملکی و عالمی فریقین میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے ۔

انھیں اپنے ملک میں آباد کرکے تمام ضروریات ِ زندگی اور روزگار و رہائش کے مسائل کوحل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ویسے بھی اب ان کے ملک کے حالات بھی یہاں سے بہتر ہیں ۔اس لیے اُن کی واپسی اور اُن کے اپنے ملک میں آبادی کا ایسا احسن انتظام کیا جائے کہ یہ دنیا میں ایک ماڈل بن جائے اور پھر اس کی مناسبت سے شام ، برما، بنگلادیش ، فلسطین ، آسام سمیت دنیا کے تمام پناہ گزینوں کی اپنے اپنے ملک واپسی اور آبادی کی جانب پیش قدمی کی جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔