ایک اور کوشش

ظہیر اختر بیدری  پير 17 فروری 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے عوام انتہائی سادہ دل ہیں، وہ سیاست کے اسرار و رموز کو نہیں سمجھ سکتے لیکن کچھ حقائق اتنے واضح ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے دانشورانہ دماغ کی ضرورت نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان پر اشرافیہ یعنی طبقہ امرا سیاست اور اقتدار پر کیوں قابض ہے۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیا تھا اور جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے ،عوام کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ کیا 72 سالوں میں 72 دن بھی ہمارے ملک میں وہ جمہوریت رہی ہے جس کی تعریف حکما نے کی ہے جس کا حوالہ ہم نے دیا ہے۔ یہاں روز اول ہی سے جاگیردار اشرافیہ اقتدار اور سیاست پر قابض رہی اور اپنی جاگیروں کو حلقہ انتخاب بنالیا۔ ہاریوں، کسانوں اور غریب طبقات کا کام انتخابات میں اشرافیہ کے نمایندوں کو ووٹ دینے کے علاوہ کچھ نہ رہا۔ اس طرح پاکستان ملک میں سرمایہ دار طبقے کے ابھرنے تک مکمل طور پر جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر رہا اور عوام کی حیثیت جاگیرداروں کے غلام کی بن کر رہ گئی ہے۔

پاکستان کے جاگیردار طبقے کو جب یہ یقین ہو گیا کہ اب پاکستان بننے جا رہا ہے تب انھوں نے تحریک پاکستان میں نہ صرف حصہ لینا شروع کیا بلکہ مسلم لیگ پر قابض ہوگئے۔ یوں مسلم لیگ جاگیرداروں کے گھر کی لونڈی بن گئی اور اقتدار جاگیرداروں کا حق بن گیا۔

جب ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کی صدارت سنبھالی تو ایوب خان کے سیاسی اتالیقوں نے ایوب خان کو بتایا کہ مسلم لیگ ملک کی واحد طاقتور جماعت ہے اور وہ کسی وقت بھی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے تو ایوب خان نے جاگیردار سیاستدانوں کی طاقت توڑنے کے لیے ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداروں اور وڈیروں سے ان کی لاکھوں ایکڑ زمینیں لے لیں۔ زمینوں کے چھن جانے سے جاگیردار طبقہ اپنی طبقاتی طاقت سے محروم ہو گیا۔ جاگیردار اس صورتحال سے مایوس اور پریشان ہوگئے اور ایوب خان کو یہ یقین دلانے لگ گئے کہ وہ ایوب خان کے وفادار ہیں، اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے انھوں نے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کردیے اور ایک ٹکڑا جس کا نام کنونشن لیگ رکھا گیا تھا، ایوب خان کی خدمت میں پیش کردیا۔

جن جاگیرداروں کی زمینیں لے لی گئی تھیں، انھوں نے اپنا سرمایہ صنعتوں سمیت مختلف کاروبار میں لگایا، یوں پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پڑ گئی۔ جب ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو اس کی نظر میں نواز شریف آگیا اور اس نے نواز شریف کو سیاست میں لاکر پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنادیا۔ نواز شریف تیزی کے ساتھ صنعتوں میں اضافہ کرنے لگا اور اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کو بھی مستحکم کرتا گیا ۔

نواز شریف ایک ذہین سیاستدان اور صنعتکار تھے۔ انھوں نے بہت کم وقت میں مسلم لیگ کو ازسر نو مستحکم کرکے مقتدر بنا دیا۔ بدقسمتی سے جنرل مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا، نواز شریف جنرل مشرف کے زیر عتاب آگئے اور بڑی مشکلوں سے لمبی قید سے بچ کر ترک وطن کی سزا قبول کرلی اور سعودی عرب میں 10 سال سے زیادہ جلا وطن رہے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے، مختصر یہ کہ نواز برادران ایک بار پھر لندن میں مقیم ہیں حوالہ بیماری کا ہے۔ یہ مختصر سا پس منظر ہم نے اس لیے دیا ہے کہ عوام آج کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

عمران خان کی آمد کا مقصد اس لوٹ مارکے نظام کو روکنا ہے جو پاکستان کی تاریخ کا بدترین نظام ثابت ہوا ۔ عمران خان کی آمد سے اشرافیہ کے اقتدار کی گاڑی رک گئی ہے، عمران خان ایک ایماندار سیاست دان ہے لیکن نہ اس کے پاس اچھی ٹیم ہے نہ تجربہ ہے جس کی وجہ وہ سخت مشکلات کا شکار ہے اور مخالفین عمران کی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے کوشاںہیں۔

مہنگائی کے ایشو نے ان کے ذہنوں میں یہ امید جگائی ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے عوام کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں۔ اس مفروضے کی امید پر  اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں عوام کو  سڑکوں پر لانیکی کوشش کر رہی ہیں لیکن دو وجوہات ایسی ہیں جو ان  کی امیدوں کے آڑے آ رہی ہیں ایک یہ کہ عمران خان نے آٹا، چاول، چینی، دالیں، تیل، گھی وغیرہ پر بھاری سبسڈی دے کر عوام کو بنیادی ضرورتوں کی اشیا یوٹیلیٹی اسٹورز سے سستے داموں خریدنے کی سہولت فراہم کردی ہے۔ آٹا مارکیٹ میں 70 روپے کلو فروخت کیا جا رہا تھا۔ اب سبسڈی کے بعد 20 کلو آٹے کا تھیلا عوام آٹھ سو میں خرید رہے ہیں اسی طرح دالیں، تیل، گھی سمیت دوسری ضروری اشیا کو عوام کے لیے قابل خرید بنادیا ہے۔

اس حوالے سے دوسری وجہ یہ ہے کہ اب عوام  اپوزیشن کے ٹریپ میں آنے کے لیے تیار نہیں لیکن یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مہنگائی کو ایک بار اور آسمان پر پہنچا نہ دیا جائے کیونکہ ہمارے یوٹیلیٹی اسٹور کا سیٹ اپ اتنا وسیع نہیں ہے کہ 22کروڑ عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔