اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پاکستان آمد

مزمل سہروردی  پير 17 فروری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئترس پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان پہنچنے سے قبل ان کاٹوئٹ عالمی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کا برملا اعتراف ہے۔انھوں  نے پوری دنیا میں امن کے لیے پاکستان کے فوجیوں کی قربانیوں اور کاوشوں کا اعتراف کیا ہے۔ انھوں نے کہاہے کہ پاکستان امن کا مستقل مزاج قابل بھروسہ حصہ دار ہے۔ میں امن کے لیے کام کرنے والوں سے اظہار تشکر کے لیے پاکستان کے لیے آیا ہوں۔

پاک فوج ساٹھ سال سے اقوام متحدہ کے امن مشنز کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان ساٹھ سالوں میں پاک فوج ایک ہر اول دستہ ثابت ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کو اب تک اپنے امن مشنز میں جتنی بھی کامیابی ہوئی ہے، اس میں پاک فوج کا ایک بڑا کردار ہے۔ سیکریٹری جنرل کا یہ دورہ پاک فوج کی انھیں کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہے۔ اس دورہ کے دوران ایک مرکز برائے بین الاقوامی امن و استحکام میں ایک تصویری نمائش منعقد کی گئی ہے ۔ یہ نمائش پاکستان اور اقوام متحدہ کی امن کاوشوں کی ساٹھ سال کی کہانی بیان کر رہی ہے۔ یہ کوئی عام تصویری نمائش نہیں ہے۔ کسی ایک فنکار کا فن نہیں بلکہ ہمارے بہادر جوانوں کی جواں ہمتی اور پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے کی داستان ہے۔ یہ کوئی برس دو برس کی داستان نہیں ہے بلکہ چھ دہائیوں پر محیط سفر کی داستان ہے۔

ویسے تو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ رہے ہیں۔ وہ 2007میں کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے بریگیڈ کمانڈر رہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اقوام متحدہ کے کانگو امن مشن میں کارکردگی کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی عالمی امن اور عالمی دہشت گردی کے خلاف کاوشوں کو اقوام متحدہ میں آج بھی رول ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی قیادت میںا قوم متحدہ کے امن مشن نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کیں جن کے امن کے لیے دور رس نتائج حا صل ہوئے۔ جب جنرل قمر جاوید باجوہ اقوام متحدہ کے کانگو امن مشن میں فرائض سرانجام دے رہے تھے تب انھیں کیا علم ہوگا کہ وہ ایک دن پاک فوج کے سربراہ بن جائیں گے۔ ان کی قیادت میں پاک فوج دہشت گردی کے خلاف رد الفساد کی شکل میں ایک بڑی لڑائی لڑے گی اور اس کو جیت بھی لے گی۔

آج پاکستان میں امن کے جو گیت گائے جا رہے ہیں ۔ ان میں جنرل باجوہ کی قیادت میں رد الفساد کی کامیابی سر فہرست ہے۔ جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج نے پاکستان سے دہشت گردی کے ناسور کو جس طرح جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے۔ اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئترس کا حالیہ دورہ پاکستان جنرل باجوہ کے رد الفساد کی کامیابی کا عالمی سطح پر اعتراف ہے۔ یہ رد الفساد کی کامیابی ہی ہے کہ آج پاکستان میں عالمی کرکٹ کے دروازے کھل رہے ہیں۔ پی ایس ایل واپس پاکستان لوٹ آئی ہے۔

عالمی سیاح پاکستان آرہے ہیں۔ دنیا کے ممالک پاکستان پر سے سفری پابندیاں ختم کر رہے ہیں۔ پاکستان کو سیاحت اور سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سب میں کسی سیاسی حکومت کا کوئی کمال نہیں ہے۔ بلکہ یہ پاک فوج کی کامیابی ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ بحیثیت قوم ہمیں ان کامیابیوں اور ان کی اہمیت کا ادراک نہیں ہے۔ جنرل باجوہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی سب سے بڑی جنگ رد الفساد کی کامیابی نے عالمی سطح پر اقوام عالم کو پاک فوج کا معترف کر دیا ہے۔ اور دنیا اس کامیابی سے سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی آمد پر جو تصویری نمائش لگائی گئی ہے۔ نمائش میںبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی امن سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔ نمائش میں پاکستان کے پہلے 1960کے امن دستے کی کانگو میں تعیناتی کی تصویر بھی شامل ہے۔پاک فوج نے اب تک اقوام متحدہ کی تحت 28ممالک میں 46امن مشنز میں حصہ لیا ہے۔ آج تک 157جوانوں نے عالمی سطح پر امن قائم کرنے کے لیے جان کی قربانی دی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بطور قوم اس بات پر بھی فخر ہونا چاہیے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز کے تحت خواتین دستے تعینات کرنے والا پہلا ملک ہے۔ اس وقت 78خواتین اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لے رہی ہیں۔ اور عالمی امن کے لیے پاکستان کا جھنڈا سربلند کر رہی ہیں۔ پاکستان میں وہ لبرل جو خواتین مارچ کا انعقاد کرتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں ۔ میں نے ان سے ان خو اتین کے لیے خراج تحسین نہیں سنا ہے۔ ہمارے ملک میں اب قومی اداروں کے خلاف بات کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ جب تک آپ ملک کے قومی اداروں کے خلاف بات نہیں کریں گے آپ کو روشن خیال اور دانشور قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس کام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قومی اداروں کے اچھے کاموں کو بھی سامنے نہ لایا جا ئے۔ کیا اقوام متحدہ کے کے امن مشن میں کام کرنے والی یہ خواتین روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کی پہچان نہیں ہیں۔ کیا یہ پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے پیش  نہیں کر رہی ہیں۔ جب ان کی خدمات کو عالمی سطح پر خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے تو ہم پاکستان میں ان کی خدمات کو خر اج تحسین پیش کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس کر رہے ہیں۔

عالمی امن کے لیے پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف دشمنوں کی ان چالوں کو بھی ناکام بنا دے گا جو پاکستان کو عالمی سطح پر ایک دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بھار ت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دورہ پاکستان کو رکوانے اور اس کو ناکام بنانے کے لیے بہت کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پاکستان آمد نے بھارت کی تمام کوششوں اور سازشوں کو ناکام کردیا ہے۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک مثبت چہرہ ا بھر کر سامنے آیا ہے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کر کے بھی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اقوام متحدہ لاکھوں مہاجرین کی میزبانی پر بھی پاکستان کے کردار کا معترف ہے۔ دنیا میں کسی ملک نے کسی دوسرے ملک کے لاکھوں مہاجرین کو چالیس سال تک اس طرح پناہ نہیں دی ہے۔ یہ درست ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ ملکر کام کررہا ہے۔ ان مہاجرین کو واپس اپنے ملک میں دوبارہ بھیجنے کے لیے بھی کام شروع ہوا ہے۔ جس کے ابھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ جب تک افغانستان میں مستقل امن قائم نہیں ہوگا، یہ تمام مہاجرین واپس نہیں جا سکتے۔ اسی لیے افغانستان کے امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بھی عالمی سطح پر بھی تعریف کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ بالخصوص امریکا اور طالبان کے درمیان سہولت کاری کو بھی اقوام عالم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔دنیا بھی پاکستان کی طرح ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے خواہاں ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئترس کا دورہ پاکستان دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک مثبت چہرہ لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس دورہ سے دنیا کے سامنے پاکستان کی عالمی امن اور عالمی دہشت گردی کے خلاف کاوشیںبھی نمایاں ہوںگی ۔ دنیا کو باور ہوگا کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے ۔ کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہوگا۔ یہ تاثر بھی شکست کھائے گا کہ اقوام متحدہ بھارت کے ساتھ ہے۔ بلکہ پاکستان کی عالمی ساکھ میں قابل قدر اضافہ ہوگا۔ اس لیے بحثیت قوم ہمیں انھیں خو ش آمدیدکہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔