مغلیہ دور میں اخبار نویسوں کا مستعد شعبہ

نصرت جاوید  جمعرات 21 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

فرقہ وارانہ منافرت ہو یا زبان اور نسل کی بنیاد پر پھیلائی کدورتیں ان سب کو روکنے کی بنیادی ذمے داری ریاست کے سر پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرتے ہوئے انتظامی افسران کو صرف اور صرف پیشہ وارانہ بنیادوں پر کچھ فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ مغلیہ دورِ حکومت سے ہمارے ہاں ’’اخبار نویسوں‘‘ کا ایک بہت ہی مستعد شعبہ ہوا کرتا تھا۔ یہ پوری سلطنت میں پھیلے ہوتے تھے اور اپنے اِردگرد کے لوگوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔

یہ لوگ اپنی حاصل کردہ معلومات کو ’’روز نامچوں‘‘ کی صورت قلم بند کر کے ’’ہرکاروں‘‘ کے حوالے کرتے جو اپنے زمانے میں موجود تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان معلومات کو جلد از جلد اعلیٰ حکام تک پہنچاتے۔ انگریز جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوا تو ’’اخبار نویسوں‘‘کی مہارت سے بہت متاثر ہوا۔ ان کی سہولت کے لیے ’’ہرکاروں‘‘ والے کام کو باقاعدہ Dawk کے نظام کی صورت دی گئی۔ آج بھی پاکستان کے دُور افتادہ قصبوں میں جو ڈاک بنگلے آپ کو نظر آتے ہیں اسی نظام کی بدولت ہیں۔

انگریزی سامراج نے ہمارے معاشرے کو سمجھنے کے لیے محض اخبار نویسوں اور ہر کاروں پر ہی انحصار نہ کیا۔ آج بھی جب کوئی اخبار نویس کسی خاص شہر کی موجودہ سیاست کو سمجھنا چاہتا ہے تو وہ مختلف اضلاع کے بارے میں لکھے ہوئے ان گزیٹیئر سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو آج سے ایک صدی پہلے ان علاقوں میں تعینات اہلکاروں نے اپنے کسی فیلڈ ٹرپس کے بعد لکھے تھے۔ ان گزیٹیئر کو باقاعدگی سے Update کیا جاتا تھا اور مختلف ماہرین اپنی اپنی معلومات کے حوالے سے ان کا مسلسل تنقیدی جائزہ بھی لیا کرتے تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے اخبار نویسی اور ہر کاروں کا یہ سارا نظام ورثے میں حاصل کیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ اس نظام کی ہمارے آقا بنے غیر ملکی حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے شدید ضرورت تھی مگر ہماری آزاد ریاست کو بھی اپنے استحکام اور بقاء کے لیے اس نظام میں تخلیقی اضافوں کی شدید ضرورت تھی۔ ہوا لیکن یہ کہ پاکستان کو ’’مملکتِ خداداد‘‘ قرار دے کر ہماری اشرافیہ نے اسے ایک جدید ریاست بنانے کے لیے کوئی تردد ہی نہیں کیا۔

رات دن ہم عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے پر شاداں محسوس کرتے ہیں مگر کئی برسوں سے باقاعدہ Data کے ساتھ یہ طے ہی نہیں کر پائے کہ پاکستان کی آبادی 18 کروڑ ہے یا 20 کروڑ۔ اس آبادی کا کتنا حصہ دیہاتی ہے اور کتنا شہری۔ مردم شماری صرف ایک ملک کے شہریوں کی تعداد معلوم کرنے تک محدود نہیں رہتی۔ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر یہ طے کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ آمدنی اور تعلیم وغیرہ کے حوالے سے ہمارے معاشرے کے نمایاں Clustersکس کس شہر میں موجود ہیں۔ ان کی ذاتی اور ریاست سے امیدوں کے حوالے سے کیا ترجیحات ہیں۔ کون سے شہر ہیں جہاں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد دوسرے قصبوں یا دیہاتوں سے بڑی تیزی کے ساتھ نقل مکانی کر کے جمع ہو رہی ہے۔

مردم شماری کے اس بنیادی مرحلے سے گزرے بغیر ہم ان دنوں مقامی حکومتوں کے قیام کے ذریعے جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی لگن میں مصروف نظر آ رہے ہیں اور اس ضمن میں حلقہ بندیوں کے نام پر رچائے گئے تماشے آپ کا خون کھولا دیتے ہیں۔ فی الوقت میرا مسئلہ مگر مردم شماری یا مقامی حکومتیں نہیں۔ سب سے زیادہ پریشانی اس بات پر ہو رہی ہے کہ آج سے چند ماہ پہلے سکندر نام کے ایک شخص نے پانچ گھنٹے تک جس طرح پاکستان کے دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھا اس نے ہمارے Policing کے نظام کی حقیقت خوف ناک حد تک ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی۔ ابھی وہ واقعہ ہضم نہیں ہوا تھا کہ اسلام آباد ہی کے نواح میں نصیر الدین حقانی ’’نامعلوم لوگوں‘‘ کے ہاتھوں مارا گیا۔

متعلقہ تھانہ کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود یہ دعویٰ کرتا رہا کہ وہ اس شخص کی شناخت نہیں کر سکتا جسے بھارہ کہو کے ایک تندور کے پاس گولیوں سے زخمی کیا گیا تھا۔ کچھ اور ’’نامعلوم افراد‘‘ زخمی کو ’’کہیں‘‘لے گئے۔ خدا بھلا کرے افغان طالبان کا جنھوں نے اپنی مستند خبر رساں ایجنسی کے ذریعے ہمیں بالآخر اطلاع دی کہ بھارہ کہو میں نصیر الدین حقانی شدید زخمی ہوا تھا۔ پھر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا تو اس کی لاش شمالی وزیرستان پہنچ گئی۔ کیسے؟ اس کا جواب تو نہیں دیا گیا مگر یہ اطلاع ضرور دے دی گئی کہ انھیں حقانیوں کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ حقانی کے پراسرار قتل کے چند ہی روز بعد راولپنڈی میں یوم عاشور والا سانحہ ہو گیا۔ اس سانحے کے بعد بھی افواہیں ہی افواہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے راولپنڈی پولیس میں وسیع پیمانے پر صفائی ستھرائی کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک عدالتی کمیشن اب حقائق اکٹھے کر رہا ہے۔

یہ سب تو ہوتا رہے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ یوم عاشور کے واقعہ کی بنیاد پر بھڑکائی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہماری حکومت کمیونٹی کی سطح پر کیا اقدامات کر رہی ہے۔ میں نے اب تک جو تحقیق کی تو دریافت یہ ہوا کہ افسران کے اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ ان میں اطلاعات جمع ہو رہی ہیں۔ حکمت عملیاں بن رہی ہیں۔ مگر زمین پر ان کا اطلاق کہیں نظر نہیں آ رہا۔ نظر بظاہر سانحہ راولپنڈی سے متعلقہ مدرسے کے منتظمین اور طالبوں کو ’’ٹھنڈا‘‘ کرنے کا کام مولانا محمد احمد لدھیانوی کو Out Source کر دیا گیا ہے۔

ٹی وی اینکرز بھی ان ہی مولانا صاحب سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے پروگراموں کو Balance and Harmony پیدا کرنے کے نام پر دوسرے مسالک کے مولانا حضرات کو بھی مدعو کر کے بٹھا لیتے ہیں۔ ہماری حکومت ہو یا قوم کو سدھارنے پر اپنے تئیں مامور اینکر سارے مل کر فرقہ وارانہ منافرت کا علاج علمائے کرام کے ’’بین المسلکی مکالموں‘‘ کے ذریعے تلاش کر رہے ہیں۔ مجھ میں یہ جرأت ہرگز نہیں کہ میں ’’قیام امن‘‘ کے اس ذریعے کی افادیت کے بارے میں اپنے حقیقی خیالات قلم بند کر سکوں۔ یہ بات البتہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ اس ضمن میں اصل ذمے داری صرف اور صرف ریاست کی ہے۔

انتظامی افسران اپنے فرائض سر انجام دیں۔ اپنا کام دوسروں کے سپرد نہ کریں اور پھر فرض بنتا ہے ’’ہمارے ووٹوں سے‘‘ پھنے خان بنے عوامی نمائندوں کا۔ میں شیخ رشید کا ہرگز مداح نہیں۔ لیکن ایمان داری کی بات ہے کہ سانحہ راولپنڈی کے بعد وہ واحد سیاست دان تھے جو کسی نہ کسی صورت اپنے شہر میں امن قائم کرنے کی کوششیں کرنے میں سنجیدہ نظر آئے۔ کاش کہ اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے نمایاں افراد اکٹھے ہو کر راولپنڈی کے لوگوں کو یہ سمجھاتے ہوئے نظر آتے کہ وہ ایک ریاست کے شہری ہیں۔ شہریوں کے یقینا کچھ حقوق ہیں جنھیں پورا کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ مگر شہری کے اپنے کچھ فرائض بھی ہیں۔ جب تک ہم انھیں پورا نہیں کریں گے ہمسائیگی اور رواداری پر قائم ٹھوس امن قائم ہو ہی نہیں سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔