سہانے خواب یا محض سراب

سارہ لیاقت  جمعرات 21 نومبر 2013

پاکستان کا تعلق دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں جرم کرنا، فراڈ کرنا اور دو نمبر طریقے سے پیسہ بنانا سب سے آسان کام ہے۔ ہمارے ہاں قانون اس قدر کمزور ہے کہ اس کی گرفت صرف غریب لوگوں پر آتی ہے اور پیسے والوں کا یہ ہمنوا بن جاتا ہے۔ مجرموں کے یہاں اتنے بڑے بڑے مافیا بن گئے ہیں جو قانون کو اپنے گھر کی باندی سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عام شریف آدمی کے لیے زندگی دن بہ دن مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں اس وقت پیسہ بنانے کا ایک کاروبار جو عروج پر ہے، وہ میرج بیورو کا ہے۔ ان سے کچھ لوگوں کو یقیناً فائدہ ہوتا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کاروبار میں بہت سی ایسی کالی بھیڑیں بھی ہیں جو لوگوں کو اچھے رشتوں کی آس دلا کر ان سے پیسے بٹورنے اور پھر ان کو بلیک میل کرنے کا نا صرف دھندہ کرتی ہیں بلکہ اگر کوئی ان کے خلاف بات کرنا چاہے تو اس کو اچھا خاصا ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے، تا کہ لوگوں کے سامنے ان کی سچائی عیاں نہ ہو سکے۔ اسی طرح کا کاروبار کرنے والے ایک گروپ کے بارے میں حال ہی میں انکشاف ہوا ہے، جو اپنے کاروبار کے لیے انٹرنیٹ اور جدید دور کی نیٹ ورکنگ کا سہارا لے کر لوگوں کو باہر کے ممالک کے رہنے والوں کے رشتوں کا لالچ دیتے ہیں۔

اس گروپ کے ضرورت رشتہ کے اشتہارات روزانہ تقریباً ہر بڑے اخبار میں آتے ہیں، جس میں امریکا اور یوکے کے رہنے والوں کے لیے اچھے رشتوں کی تلاش کے حوالے سے انتہائی پرکشش اشتہارات شایع کروائے جاتے ہیں، اور ان میں لوگوں کو راغب کرنے کے لیے بڑے خوشنما الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے، مثلاً گرین کارڈ ہولڈر، لڑکے یا لڑکی کو باہر لے جائیں گے، امیر والدین کی اکلوتی بیٹی، لڑکے کا اعلیٰ کاروبار وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے لالچ دے کر یہ گروپ لوگوں سے فارن کرنسی کی صورت میں فیس کی مد میں باہر کے ملک ویسٹرن یونین اور منی گرام کے ذریعے پیسے ٹرانسفر کرنے کو کہتا ہے اور لوگوں سے اچھی خاصی رقوم بٹور لیتا ہے۔

جب کوئی کلائنٹ ان سے رابطہ کرتا ہے تو یہ فارن کرنسی کی صورت میں اپنی فیس کی مد میں تو پیسے لیتے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کی انتہائی پرسنل معلومات اور تصاویر بھی لے لیتے ہیں اور پھر جب کچھ عرصے بعد ان کلائنٹس کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ فراڈ ہوا ہے اور وہ اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کرنے کے لیے ان سے دوبارہ رابطہ کرتے ہیں تو وہ آگے سے نہ صرف دھمکیاں دینے لگ جاتے ہیں بلکہ ان کی تصاویر جو وہ شروع میں ہی رشتے والوں کو دکھانے کی غرض سے لے چکے ہوتے ہیں ان کو نازیبا انداز میں ایڈٹ کر کے انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے اور ساتھ ہی ساتھ خاندان بھر میں بدنام کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ رسوائی کے اس ڈر سے کلائنٹ اتنے پیسے گنوانے کے باوجود خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس طرح کے کاروبار شادیوں کی حد تک محدود نہیں ہیں بلکہ اچھے تعلیمی کیریئر کا لالچ دے کر بھی پیسے کمانے کے بہت دھندے ہو رہے ہیں۔ ان تمام غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے عام آدمی تو اپنی کم عقلی اور کم فہمی کی وجہ سے لٹتے ہیں ہی لیکن ملک کو بھی بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایک تو ویسٹرن یونین اور منی گرام سے پیسہ باہر جا ہی رہا ہے، ساتھ میں فارن کرنسی کے ریٹ بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اداروں میں داخلے اور باہر کے ممالک میں جا کر کام کرنے کے لیے ویزے اور ورک پرمٹ کا لالچ دے کر یہ لوگوں سے کروڑوں روپے ہتھیا رہے ہیں، لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاعلمی یا غفلت نہیں ہے، بلکہ نہ صرف اس مافیا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں بلکہ کئی حکومتی شخصیات کا دست شفقت ان کے سروں پہ ہے، جس کی وجہ سے متعلقہ ادارے کوئی بھی بڑی کارروائی کرنے میں ناکام ہیں۔

ہمارے ہاں اس طرح کے کاروبار چمکنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے اپنے معاشرتی رویے ہیں۔ ہمارے لوگ راتوں رات امیر بننے کے خواب آنکھوں میں لیے شارٹ کٹ دھونڈنے کے چکروں میں ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جس سے پیسہ تو برباد ہوتا ہی ہے، عزت بھی داؤ پہ لگ جاتی ہے۔ ہمارے لوگوں کی یہی سادگی تو نہیں، کم عقلی اور کم فہمی ان کو اس موڑ پہ لا کھڑا کرتی ہے جہاں وہ اچھے کل کی خواہش میں اپنا آج بھی داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں اور پھر یونہی قسمتوں اور بدنصینی کا رونا روتے روتے وقت بیت جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں محتاط رویے اپنائیں اور ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر تمنا لاحاصل کے پیچھے بھاگنے کے بجائے جد ھر ہیں، جہاں ہیں، اس کی قدر کریں اور حکومتی سطح پر ایف آئی اے جیسے ادارے کو اس طرح کے معاملات کی تحقیقات کرنی چاہئیں تا کہ عام آدمی ان مافیا کے چنگل میں پھنسنے اور ان کے ہاتھوں نہ صرف لٹنے سے محفوظ رہ سکیں بلکہ باہر کے ملک مسلسل پیسہ جانے سے ہمارے ملک کو جو معاشی طور پر نقصان ہو رہا ہے اس سے بھی بچا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔