سیاستدان کی تلاش

شہباز علی خان  جمعرات 20 فروری 2020
ریاست کو کسی ایماندار، محنتی، درد دل رکھنے والے سیاستدان کی تلاش ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ریاست کو کسی ایماندار، محنتی، درد دل رکھنے والے سیاستدان کی تلاش ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نہ صرف دیکھنے کی حد تک بلکہ بطور نسل بے شک وہ ایک گدھا ہی تھا، مگر اس کا ذہنی معیار ہم انسانوں سے قدرے بلند تھا۔ جب میں نے سامنے سے اسے آتے دیکھا تو فوری طور پر راستہ دینے ہی میں عافیت جانی، کیونکہ جب سے غفور دھوبی نے واشنگ مشین لی تھی اب اس گدھے کی ذمے داریاں تبدیل ہوکر رہ گئی تھیں۔ اس کا زیادہ وقت دکان یا گھر میں ٹی وی کے آس پاس ہی گزرتا تھا اور ملکی و سیاسی ٹاک شو دیکھ دیکھ کر اس کی خصلت بدل کر رہ گئی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اب اس کے تبصرے اس قدر بامقصد اور مدلل ہوتے تھے کہ اگر جہاں کسی اینکر کو پروگرام کی ریٹنگ ڈاؤن ہوتی دکھائی دیتی وہ ٹھک سے اسے فون ملا کر آن لائن کردیتا۔ خیر جب میں نے اسے سامنے سے لہراتے جھومتے آتے دیکھا تو فوری طور پر گلی کی دیوار کے ساتھ چپک گیا تاکہ یہ تو گزرے، ورنہ اس نے پھر سے کوئی ایشو لے کر فلم چلا دینی ہے۔ مگر میری کوشش ناکام رہی اور صاحب بہادر نے میرے سامنے رکتے ہوئے گردن اٹھا کر کہا ’’بھائی جی میں نے سنا ہے آج کل ریاست کو کسی ایماندار، محنتی، درد دل رکھنے والے نسلی سیاستدان کی تلاش ہے؟‘‘

میں نے غصے سے کہا ’’دیکھو میں تمہارا بھائی نہیں ہوں اور نہ ہی بن سکتا ہوں۔ اگر اسلام آباد اتنا ہی پسند ہے تو تھوڑے فاصلے پر جنگل ہے، وہاں جاکر اپنا یہ شوق پورا کرو۔ اور ویسے بھی تم واضح اکثریت کے باوجود حکومت نہیں بناسکتے ہو۔ تمہیں اپنے ساتھ ریچھ، بندر، ٹٹو شامل کرنے ہی ہوں گے۔‘‘

میرے یہ سب کہنے کے باوجود وہ ایک لمحے کےلیے بھی مایوس نہیں ہوا بلکہ دلیلوں پر اتر آیا کہ دیکھیں ناں بھائی جی، ہم تاریخی پس منظر رکھتے ہیں اور میں نے خود گوگل پر سرچ کرکے دیکھا ہے کہ میرا اور آپ کا تعلق تاریخی طور پر بھی بہت پرانا ہے اور ہماری تعداد ملین مارچ سے کہیں زیادہ ہے اور پھر سب سے بڑھ کر ہم بھی جنگی پس منظر رکھتے ہیں۔

’’اوہ بھائی! ایک منٹ، آہستہ بولو۔ کیوں اپنے ساتھ مجھے بھی مرواؤ گے؟‘‘

’’دیکھا مان گئے ناں مجھے بھائی۔ ابھی تو آگے بھی بہت کچھ مانو گے۔ خیر میں واضح کردیتا ہوں یار میری بات کو کسی اور رنگ میں نہ لینا۔ میں تمہیں صرف دو مثالیں دوں گا تاکہ تمہیں میری کسی بات سے کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ ایک دفعہ میرا کزن ترکی سے آیا تو ہم سب نے اسے بہت عزت دی۔ مجھے تو وہ ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا، سب اس کے چونچلے اٹھا رہے تھے۔ وہ جو بھی بکواس کرتا، ساری کمیونٹی اس پر واہ واہ کرتی۔ میں نے اپنی دادی سے پوچھا کہ دادو یہ آخر ہے کون؟ تو انھوں نے بتایا کہ اس کے دادا کے ایک کزن نے جنگ عظیم میں بہت خدمات انجام دی تھیں۔ میں نے پوچھا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ تو دادی نے میرے کزن کو آواز دے کر بلایا اور کہا کہ اپنے کزن کو وہ تصویر دکھاؤ۔ اس نے بڑے فخر سے وہ تصویر نکال کر دکھائی جو جنگ عظیم میں ہونے والی ایک جنگ (25 اپریل 1915- 9 جنوری 1916) جو ’’گیلی پولی‘‘ میں ہوئی، اس موقع کی تھی۔ اس تصویر میں لیفٹیننٹ رچرڈ الیگزینڈر ہینڈرسن اور اس کے دادا کے کزن دونوں مل کر ایک فوجی کی جان بچارہے تھے۔ اس نے شدت جذبات سے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے اگر اس دن ہمارے ہی خاندان کے چشم و چراغ نے لیفٹیننٹ صاحب کی مدد نہ کی ہوتی تو بہت سی جانیں طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ضائع جاتی اور ہوسکتا تھا کہ جنگ کا پانسہ ہی بدل جاتا۔

بھائی جی! ہم نے تو 1831 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے گورنر مہاراجہ ہری سنگھ کو بھی ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ یقین نہیں آتا تو ایبٹ آباد کے پاس ہی جو ’’کھوتا قبر‘‘ نامی پوائنٹ ہے، اس کے بارے میں گوگل سرچ کرلو۔ جہاں اب سارے ٹرک ڈرائیور رک کر اپنے ٹرکوں کے ریڈی ایٹرز میں پانی ڈال رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہی ایک بھائی نے مجاہدین کی مدد کرتے ہوئے جان دی اور انہیں نے بھی حق ادا کیا اور اس کی قبر بنادی۔ اس جگہ جو آج کل کھوتا قبر کے نام سے مشہور ہے۔

ہمارے ہی بھائی ہیں جو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ شمالی علاقوں میں تمام رسد کی سپلائی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہاں جہاں انسانی قدم رکھنے دشوار ہوتے ہیں، ہم اتنا وزن اٹھائے بلند سے بلند پہاڑوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارا بھی اس ملک کے دفاع میں ایک کردار ہے۔‘‘

اس نے ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ کہا ’’مگر یہ تو آپ لوگوں کی جبلت کا ایک خاصا ہے، احسان فراموشی۔ بلکہ اب تو لگتا ہے تم انسانوں کی رگوں میں ہمارا خون ہی دوڑ رہا ہے۔ اتنے تو ہماری برادری کے لنگڑے بوڑھے گدھے تم انسان کھا چکے ہو۔‘‘ اس نے پچھلی ٹانگیں اٹھا کر دولتی جھاڑتے ہوئے کہا ’’میرے سادہ سے بھائی، مجھے ایک بات کا جواب دو۔ کیا تم نے سنا ہے کسی گدھے نے اپنے مالک دھوبی کے کپڑے چرائے ہوں؟ یا اپنے مالک کی کسی بھی پراپرٹی کو نقصان پہنچایا ہو؟ کبھی اپنی برادری سے جھوٹ بولا ہو؟ کسی اخلاقی یا غیر اخلاقی جرم میں ملوث ہو؟ ہم تومحنت مزدوری کرنے والے سچے، ایماندار، دیانتدار اور مخلص ہیں۔ آپ کے ہاں انہی خصوصیات کی کمی ہے ناں؟ اور ہم تو یہ سارے قانونی و اخلاقی تقاضے ہی پورے کرسکتے ہیں۔ پھر میں سیاستدان کیوں نہیں بن سکتا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاناما لیکس میں ہمارا ذکر تک نہیں۔ ہماری برادری کے کسی بھی ایک فرد کی آف شور کمپنی تو دور کی بات ہے، ہمارے تو غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹس تک نہیں‘‘۔

وہ مجھے دانشمندانہ نظروں سے دیکھنے لگا، مگر مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ میں اسے کیا جواب دوں۔ یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر اسے شعور جیسی نعمت سے نوازا گیا، یہی انسانیت اور حیوانیت میں تفریق کا سبب ہے۔ ہم نے پہلے نظریہ پاکستان کو پاکستان سے نکال باہر کیا، پھر مذہب کا بھی یہی حال کیا اور یوں اپنے اندر سے اخلاقیات و انسانیت کو بھی معاشرے سے نکال باہر کیا۔

ہم کرپشن کو جرم کہتے ہیں، مگر اس کے سدباب کےلیے عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ ہمارے حکمران یہ طے کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہو یا نچلی سطح سے؟ ہم ایسے تعفن زدہ معاشرہ میں جی رہے ہیں کہ شعور کی کھڑکی کھولنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم نے لیڈر بنانے، بھگانے اور مروانے کی عادت اپنا لی ہے۔ ہم پہلے نعرے لگاتے ہیں، ناچتے کودتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور پھر ان سیاستدانوں کو حکمران بناکر ایوانوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ اور چند دن بعد ایک اور حکمران کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔