سوات کوہستان، حسین وادیوں کے لاچار باشندے

ایچ ایم کالامی  بدھ 19 فروری 2020
سوات کوہستان سیاحت کی دولت سے مالامال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوات کوہستان سیاحت کی دولت سے مالامال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوات کوہستان شمالی خیبرپختونخوا کے چھ پسماندہ ترین یونین کونسلوں پر مشتمل ایک خوبصورت اور سرد ترین علاقہ ہے، جہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی اٹھارہ تک گرجاتا ہے۔ یہ علاقہ ان وادیوں پر مشتمل ہے جن کے حسن و جمال کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ جیسا کہ دو دریاؤں کا مسکن وادی بحرین، وادی کالام، وادی اشو، مٹلتان، وادی اتروڑ، گبرال، مہوڈنڈ جھیل اور کنڈول جھیل، جہاں ہر موسم میں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ لیکن سیاحت کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بھی ان علاقوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کی صورتحال مقامی لوگوں کی بے بسی اور حکومتی بے حسی کا ثبوت پیش کررہی ہے۔

ایک طرف حکومت ملکی سیاحت کے فروغ کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے تو دوسری طرف ان علاقوں میں سیاحتی سہولیات تو کجا تھوڑی سی برف پڑنے سے تمام مواصلاتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور علاقے کے مکیں گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کئی ہفتوں سے سڑکوں کی بندش کے باعث محصور اہالیان سوات کوہستان کو منگورہ میں احتجاجی مظاہرہ کرنا پڑا۔ اس احتجاج کی خبر انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت سے بڑے تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور میگاپروجیکٹس کا مطالبہ کیا جاتا۔ لیکن شومئی قسمت کہ یہاں کے ووٹروں کو بنیادی ضروریات اور چیدہ چیدہ مسائل میں اس طرح الجھا کر رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں سے بڑے مطالبے کرنا ان کی تضحیک سمجھتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندوں کی جانب سے حکومتی ایوانوں میں بڑے منصوبوں کا مطالبہ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ والی بات سمجھی جاتی ہے۔

یہاں پر آپ اپنے ذہن کو ضرور کرید رہے ہوں گے کہ سوات کوہستان تو ملک کی سب سے بڑی سیاحتی انڈسٹری سمجھی جاتی ہے پھر غربت اور پسماندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا؟

ہاں یہ درست ہے کہ سوات کوہستان سیاحت کی دولت سے مالامال ہے۔ وادی کالام میں اعلیٰ معیار کے اتنے زیادہ ہوٹلز موجود ہیں کہ اس کو ’’ہوٹلوں کا شہر‘‘ کہا جاتا ہے۔ وادی بحرین میں بھی بڑی ہوٹل انڈسٹری ہے۔ اسی طرح دیگر بالائی علاقوں میں بھی ریستوران اور دیگر سیاحتی کاروبار کی بہتات ہے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی کاروبار مقامی باشندوں کا ذاتی نہیں۔ زیادہ تر کمرشل مقامات کو غیر مقامی افراد کے ہاتھوں فروخت کیا جاچکا ہے۔ جبکہ بچے کچھے مقامات کو بھی انتہائی کم معاوضوں کے لیز پر دیا جاتا ہے۔ سیاحتی سیزن میں مقامی باشندوں کا کاروبار صرف عام مارکیٹ کے کریانہ اسٹوروں، چھابڑیوں اور چھوٹی ٹرانسپورٹ تک محدود ہوتا ہے، جبکہ سیاحت کی مد میں آنے والی تمام کمائی غیر مقامی سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔

جب سردیاں شروع ہوجاتی ہیں تو مقامی کریانہ اسٹوروں کے علاوہ تمام کاروبار ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر مقامی باشندے اپنا بوریابستر گول کرکے اپنے خاندانوں سمیت پیٹ کی آگ بجھانے پنجاب کے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سوات کوہستان کے نوے فیصد لوگ موسم سرما میں شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ شہروں میں بھی ان کا کاروبار ریڑھی بانی اور دہاڑی مزدوری سے آگے نہیں چل سکتا۔ اس بڑی نقل مکانی کی بنیادی وجہ صرف یہاں روزگار کا فقدان نہیں، بلکہ بڑی وجوہات میں صحت کے مراکز، مواصلات اور بنیادی ضروریات کا فقدان بھی شامل ہے۔ پورے سوات کوہستان میں صرف ایک ہی سول اسپتال ہے، جس میں بھی دواؤں سے لے کر ضروری مشینریاں تک ندارد ہیں۔

اسی طرح تھوڑی سی برف باری ہوتی ہے تو یہاں کی خستہ حال سڑکیں لینڈسلائیڈنگ اور چھوٹے برفانی تودوں کے گرنے کے باعث ہفتوں بند پڑی رہتی ہیں۔ جس سے پوری وادی محصور ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جھنجھٹ سے خود کو نکالنے کےلیے یہاں کے باشندے شہروں میں صرف دانہ پانی ملنے پر راحت محسوس کرتے ہیں اور ان حسین علاقوں سے کوچ کرجاتے ہیں۔

دوسری طرف منفی اٹھارہ درجہ حرارت کی سردی برداشت والی نہیں ہوتی۔ ان علاقوں کی شدید سردی سے بچاؤ میں مشکلات بلاتعطل بجلی اور گیس کی فراہمی کا نہ ہونا ہے، جبکہ صوبائی حکومت کے چھوٹے ڈیمز منصوبوں کے دعوؤں کی بھی قلعی کھل رہی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ان علاقوں میں چند ایک چھوٹے پن بجلی گھر تعمیر کیے گئے ہیں مگر ساری بجلی ہوٹل انڈسٹری کو فروخت کرکے حکومت اپنے لیے کمائی کا ذریعہ بناچکی ہے۔ جبکہ ڈومسٹک بجلی سردیوں میں ناپید ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کچھ بڑے ہائیڈل پاؤر ہاؤسز بھی تعمیر کیے جاچکے ہیں مگر ان کی پوری بجلی کو مرکزی گرڈ اسٹیشن منتقل کرکے مقامی لوگوں کو کوئی بھی رائلٹی نہیں دی جارہی۔

چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ بجلی ملکی صنعتوں کی ترقی کےلیے اہمیت رکھتی ہے، مگر یہاں کے رہائشی بھی تو اس ملک کے ہی باشندے ہیں۔ ان کی مشکلات کو پس پشت ڈال کر ان کو پسماندگی کی چکی میں پیس کر ملکی ترقی کے بارے میں سوچنا کہاں کا انصاف ہے؟

اگر حکومت واقعی ان لوگوں کو اس ملک کا شہری سمجھتی ہے تو اسے چاہئے کہ ان حسین وادیوں کے باسیوں کی مشکلات پر بھی تھوڑی سی نظرالتفات ڈالے۔ یہاں کے منتخب نمائندوں سے یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ آپ کو انہی بے بس و لاچار ووٹروں نے اپنے ووٹوں کی طاقت سے ایوانوں میں بھیج دیا ہے، اگر ان کے حق میں کچھ بول نہیں سکتے تو براہ کرم دامن جھٹک کر اس معزز ایوان کو چھوڑ دیں اور اس کے اصل حقداروں کے سپرد کرجائیں تاکہ ان بے بسوں کے حقوق کےلیے لڑسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔