سگ گزیدگی کا ناسور

شکیل فاروقی  منگل 18 فروری 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی ہلاکتوں کی انسانیت سوز خبروں کے سیلاب میں اب سگ گزیدگی کی خبریں بھی تواتر سے شامل ہو رہی ہیں، جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی محبت کے اثرات نے کتوں کو بھی متاثر کر لیا ہے جس سے ’’ تخم تاثیر محبت کا اثر‘‘ والی کہاوت کی صداقت پر تصدیق کی مہر ثبت ہوگئی ہے۔ مرزا غالب نے اس حوالے سے بالکل بجا فرمایا ہے۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکمرانی کے نقطہ آغاز صوبہ کے پی کے کی راج دھانی پشاور میں آج کل آوارہ کتے بیشمار ہیں۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی آوارہ کتوں سے واسطہ پیش آتا ہے جوگلی کوچوں میں بے تکلفی سے آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کے لیے ان سگانِ راہ کی زندگی قابل رشک ہے۔ مشہور فلسفی روسو کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے کہ ’’انسان پیدا تو آزاد ہوتا ہے لیکن وہ جا بہ جا پا بہ جولاں نظر آتا ہے‘‘ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام اس کی المناک ترین مثالیں ہیں۔

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے زیر حکمرانی کراچی سمیت صوبہ سندھ میں آوارہ کتوں کی بہتات پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا۔ حکومت اور انتظامیہ کتوں کے آگے بالکل بے بس نظر آتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال سگ گزیدگی کے دو لاکھ سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ کی پے در پے ہدایات کے باوجود حکومت سندھ ابھی تک اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ کتے کے کاٹے کی ویکسین کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گویا جتنی دیر میں عراق سے تریاق آئے گا تب تک سانپ کا ڈسا ہوا انسان فوت ہو جائے گا۔

عروس البلاد کراچی میں صرف ایک دن کے اندرکتے کے کاٹے کے 48 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں ،کتا صرف پاگل پن کی حالت میں ہی کسی انسان کو کاٹ سکتا ہے۔ اس حوالے سے انگریزی زبان کی یہ مشہورکہاوت تو آپ نے بھی پڑھی یا سنی ہوگی کہ Barking dogs seldan bite۔ یعنی بھونکنے والے کتے کبھی نہیں کاٹتے۔ بھونکنا ہرکتے کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے۔ اظہار رائے کے اس حق پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ کتے کی یہ مستقل مزاجی اور پامردی لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔ تاہم آپس کی تو تو میں میں اس کی خصلت کا سب سے بڑا اور نمایاں عیب ہے جس کی وجہ سے یہ کہاوت عام ہوگئی کہ کتا کتے کا بیری ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والا دو پایہ اس خصلت میں کتے کو کب کا میلوں کوسوں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ زر، زن اور زمین کے بعد آپس کی یہ لڑائی اب مذہب کے نام پر بھی لڑی جا رہی ہے حالانکہ بقول شاعر:

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

انگریزی میں کتا ڈاگ، فارسی میں سگ، سنسکرت میں سُتا اور ہندی و اردو میں ’’کتا‘‘ کہلاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ لفظ ’’سُتا‘‘ کا تلفظ کثرت استعمال کی وجہ سے ’’کتا ‘‘ اور بالآخر ’’کتا ‘‘ ہو گیا ہو۔ کتے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے جانے کی وجہ سے فارسی میں ’’سگ باش برادر خورد مباش‘‘ کی کہاوت وجود میں آئی۔

لیلیٰ کو اس بات کا سب سے زیادہ کریڈٹ جاتا ہے کہ کتے کی سب سے زیادہ عزت افزائی اور پذیرائی اسی  کے طفیل ہوئی۔ اس کے بعد مغرب کی امرا طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا نمبر آتا ہے۔ جنھوں نے کتوں کو آغوش میں لے کر lap dog کی روایت قائم کی اور سگ پرستی میں شوہر پرستی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انگریزی کے ممتاز شاعر الیگزنڈر پوپ کی دلچسپ مثنوی بعنوان Rape of the Lock اس حوالے سے قابل ذکر ہے۔ اردو شاعری میں خدائے سخن میر تقی میر کے یہاں بھی کتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو سگانِ آوارہ سے عاجز آکر فرماتے ہیں:

دو طرف سے ہے کتوں کا رستہ

کاش جنگل میں جا کے میں بستا

چار آتے ہیں چار جاتے ہیں

چار عف عف سے مغز کھاتے ہیں

’’کتے‘‘ منفرد مزاج نگار پطرس بخاری کے زور قلم کا لافانی شاہکار ہے جس میں کتوں کی شاعرانہ صلاحیت کی جانب لطیف اشارے کیے گئے ہیں۔ نمک حلالی اور احسان مندی کا تقاضا یہ ہے کہ شہر قائد میں کتا برادری کی پرورش اور حوصلہ افزائی کے اعتراف کے لیے کتوں کی جانب سے کے ایم سی کے ارباب اختیار اور دیگر سہولت کاروں کے اعزاز میں ایک خصوصی محفل قصیدہ خوانی کا اہتمام کیا جائے۔

وفاداری کتے کا سب سے بڑا اور نمایاں وصف ہے جس میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ کتے کی اس خوبی کے اعتراف نے ہمیں یہ مقطع کہنے پر مجبور کردیا:

کتے سے شکیل ہم نے سیکھی ہے وفاداری

ہر حال میں مالک کے قدموں میں پڑے رہنا

جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا خود کو انسان کہلوانے والوں کا عام دستور ہے جب کہ اپنے مالک کی خاطر جان پر کھیلنا کتے کی سرشت اور کردار کی بنیادی شناخت ہے۔ کتوں میں کوئی میر جعفر یا میر قاسم نہ تو پیدا ہوا ہے اور نہ آیندہ کبھی پیدا ہوگا۔ انسان کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا کر چاند پر پہلا قدم رکھنے والی اولین مخلوق بھی ’’لائیکا‘‘ نامی روسی کتیا تھی جس کے نام کا اصل تلفظ ’’لائقہ‘‘ سے بگڑ کر ’’لائیکہ‘‘ ہوگا جس طرح لفظ ’’قیمہ‘‘ کا تلفظ ’’کیمہ‘‘ کیا جا رہا ہے۔

انسان نما دو پائے کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بے لوث اور سراپا وفا شعار اور خادم  کتے کی بے مثال خدمت گزاری کا صلہ اس کے خلاف ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اور ’’کتے کی دم بارہ برس نلکی میں رکھی پھر بھی ٹیڑھی ہی نکلی‘‘ جیسے غیر اخلاقی محاورے اختراع کرکے اس کی کردار کشی کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔ یہ ہے انسان کہلانے والے دو پائے اور کتا نامی چوپائے کا موازنہ۔

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

آٹھ دہائیوں پر محیط اپنی زندگی میں ہم نے انسانوں اور کتوں کا بہت قریبی اور گہرا مشاہدہ کیا ہے جس کا نچوڑ ’’کتا‘‘ کے زیر عنوان درج ذیل فی البدیہہ اشعارکی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں اور کتا شناسی کی داد دیں۔

’’کتا‘‘

مالک کی محبت میں گرفتار ہے کتا

حد یہ ہے کہ جاں دینے کو تیار ہے کتا

بھوکا رکھے‘ پیاسا رکھے‘ مارے مگر پھر بھی

ہر حال میں آقا کا وفادار ہے کتا

اس کو نہ صلے سے نہ ستائش سے غرض ہے

انسان سے کہیں زیادہ وضع دار ہے کتا

ظاہر بھی وہی اس کا ہے‘ باطن بھی وہی ہے

انساں کی طرح تو نہیں مکار ہے کتا

ہمدم ہے‘ معاون ہے‘ مددگار ہے کتا

مالک کا بہی خواہ ہے‘ غم خوار ہے کتا

کوئی بھی سخن فہمی کا دعویٰ نہیں اس کو

سچ یہ ہے کہ غالب کا طرف دار ہے کتا

تسلیم کوئی نہ بھی کرے‘ ہے یہ حقیقت

اس دور میں بس صاحب کردار ہے کتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔